"DLK" (space) message & send to 7575

لاعلاج بحران

تاریخ گواہ ہے کہ جب کوئی سماجی و معاشی نظام متروک ہو جائے اور اسے سماج پر جبر ، دھوکے، چالبازیوں اور فریب کے ذریعے مسلسل مسلط رکھا جائے تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بحران بڑھ کر اتنا وحشت ناک ہو جاتا ہے کہ حکمران طبقات اور جابر ریاست‘ سماج میں جاری عوامل‘ معاشی قوتوں پر کنٹرول نہیں رکھ سکتے۔ اس ناتواں بورژوا ریاست کی حالت یہ ہے کہ وہ اس ملک میں بسنے والوں کی درست تعداد بھی معلوم نہیں کر سکتی۔وہ ملک کی مکمل معیشت کا آڈٹ یا حساب نہیں لگا سکتے کہ یہ معلوم ہو سکے کہ اس سماج میں کتنی دولت اور روپیہ موجود ہے۔ 
ایک اخباری رپورٹ کے مطابق '' منصوبے کے مطابق اگلے برس مارچ تک ہونے مکمل والی مردم شماری کے موخر یا بالکل منسوخ ہو جانے کے امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔حکومت نے اس برس مارچ میں مردم شماری کرانے کے فیصلے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن پانچ ماہ بعد، اس کام کے ذمہ دار حکومتی ادارے پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے ڈائریکٹر جنرل آصف باجوہ نے بتایا ہے کہ اس کام کے لیے 'ابھی تک کوئی فنڈز جاری نہیں کیے گئے‘ ۔ مردم شماری کے لیے14.5ارب روپے مختص تھے جن میں سے6.9ارب پی بی ایس اور7.4ارب فوج کی معاونت اور سکیورٹی کے لیے تھے۔اکتوبر میں دوسری سہ ماہی شروع ہونے کو ہے، اور ابھی تک فنڈ نہ ہونے کا مطلب ہے کہ مردم شماری شروع ہی نہیں ہو سکی۔ــ‘‘
اس کے بجائے اب حکومت مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے نادرا کے ڈیٹا بیس سے حاصل ہونے والے آبادی کے اعدادو شمار کو استعمال کرنے پر غور کر رہی ہے۔لیکن مردم شماری کے مقابلے میں نادرا کا ڈیٹا بیس ایک بہت کمزور متبادل ہے۔اگرچہ تمام بالغوں کے لیے نادرا رجسٹریشن لازمی ہو چکی ہے لیکن اس کی ڈیٹا بیس میں کئی رخنے موجود ہیں۔بہت سے غریب اور پسماندہ لوگ، بالخصوص خواتین اس ڈیٹا بیس سے باہر ہیں۔نادرا کے اعدادوشمار کے استعمال سے پالیسیوں کا جھکائو غریب ترین اور کمزور ترین لوگوں کے خلاف ہو گا۔مردم شماری بہت بڑی کارروائی ہے اور آئین کے مطابق اسے ہر دس سال بعد ہونا چاہیے۔
سیاسی اشرافیہ کی جانب سے ٹیکس وصول کرنے کے شور شرابے کی حقیقت بھی ایسی ہی ہے۔ریاستی مشینری کی جانب سے گزشتہ دس برسوں میں ٹیکس بیس میں ایک فیصد اضافہ بھی نہ کر سکنا اس کی نا اہلی کا ثبوت ہے۔سیاسی، فوجی اور مالیاتی اشرافیہ ڈھٹائی کے ساتھ ٹیکس چوری کرتی ہے۔تنخواہ دار ملازمین اور درمیانے طبقات کو ہر چند ہفتوں بعد نئے اور نا معقول ٹیکسوں کی اذیت سہنا پڑتی ہے۔ توانائی، انٹرنیٹ، سکول کی فیس، گاڑی، مکان، روز مرہ استعمال کی اشیاء، موبائل فون، بینک لین دین، ہوائی جہاز کے ٹکٹ و دیگر پر من مانے ٹیکس ہیں اور اس فہرست میں ہر گھنٹے اضافہ ہو رہا ہے۔گیس کی قیمتوں میں حالیہ 67فیصد تک اضافہ اورمنگل کو پٹرولیم پر ٹیکس میں جارحانہ اضافہ بالواسطہ ٹیکسیشن کی پالیسی کا تسلسل ہے جس سے اس بد نصیب ملک کے غیر مراعات یافتہ اور محروم عوام سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔لیکن مقدس سامراجی اور مقامی کارپوریٹ مالکان کو کھلے عام ٹیکس چھوٹ دی جاتی ہے۔ایس آر او،صنعتوں اور جاگیروں کو ملنے والی سبسڈی کے نتیجے میں یہ کالے اور سفید کاروبار پھل پھول رہے ہیں۔اسی طرح طاقتور اور مراعات یافتہ افراد کا ٹیکس سے استثنیٰ، سہولیات اور پلاٹوں کا بوجھ بھی ٹیکس ادا کرنے والوں پر پڑتا ہے۔پاکستان کے ایک بڑے بورژوا اخبار کے ایک مضمون میں یہ تسلیم کیا گیا ہے''حکومتیں اکثر ٹیکس اصلاحات کی کمیٹیاں بناتی رہتی ہیں جن میں وہی ٹیکس وکلاء(جو پیچیدہ اور ناکارہ ڈھانچے سے فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں) اور وہی صنعت کار شامل ہوتے ہیںجو ان سبسڈیوں اور ایس آر اوز سے مستفید ہو رہے ہوتے ہیں۔کمیٹی کا اجلاس کسی کھیل تماشے جیسا ہوتا ہے۔ کوئی سنجیدہ غور و فکر نہیں ہوتا اور شہزادے پالیسی پالیسی کھیلتے ہیں۔‘‘1970ء کی دہائی کے بعد ہر حکومت اس پالیسی پر کاربند ہے جس کا واضح مقصد سامراجی سرمایہ کاروں اور کرپٹ قومی بورژوازی کے منافعوں کی شرح میں اضافہ ہے۔
پاکستان میں کرپشن، ٹیکس چوری، منشیات کی تجارت، سمگلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، جرائم اور فراڈ سے کمائی جانے والی دولت سوئس بینکوں یا بیرونِ ملک دوسری ایسی ہی دیگر جگہوں پر چھپائی جاتی ہے۔ تاہم اس کالے دھن کا ایک بڑا حصہ بڑی ہائوسنگ سوسائٹیز کے ذریعے 'سفید‘ کرلیا جاتا ہے جو زرخیز زرعی 
زمینوں کو برباد کرتے ہوئے آنے والی نسلوں کا مستقبل تباہ کر رہی ہیں۔دیگر 'کاروباروں‘ میں ٹرانسپورٹ سے لے کرٹی وی چینلز میں سرمایہ کاری شامل ہے جنہیں گھنٹوں میں خریدا اور بیچا جا سکتا ہے اور ان میں سرمایہ کاری اور منافع کمانے کے لیے طویل وقت درکار نہیں ہوتا۔زیادہ تر سیاسی اور ریاست کے داخلی تنازعات کے پیچھے ہائوسنگ سوسائٹیوں کے پراجیکٹس کی شدید مقابلہ بازی اور فرنٹ مین مالکان ہوتے ہیں۔زیادہ تر ظالم قبضہ گروپ اپنے سرغنوں کو بائی پاس کر کے اب ریاستی طاقت کے اعلیٰ ترین حصوں سے جا ملے ہیں۔بیرونِ ملک سے اس بے پناہ دولت کو واپس لانے کی بات تو کی جاتی ہے لیکن اس کرپٹ نظام اور اس چور اشرافیہ کے ہوتے ہوئے ایساکرنا ممکن نہیں ہے۔سوئٹزر لینڈ کے حکام پہلے ہی پاکستانی حکومتوں کی جانب سے اس کالے دھن کے متعلق معلومات کی نیم دلانہ کوششیں مسترد کر چکے ہیں۔ 
ساری دنیا سے فالتو پیسے کو اپنی جانب کھینچنے کی خاطر لندن اور سوئٹزر لینڈ‘ بین الاقوامی سرمایہ کاری اور خفیہ بینکاری کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کے طور پر اپنا تشخص برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے رہے ہیں، اس میں غریب ممالک کا پیسہ بھی شامل ہے۔ یورپ کی محفوظ مالی پناہ گاہوں کے علاوہ پاکستانی اشرافیہ اپنی لوٹ مار کا پیسہ ملائشیا، متحدہ عرب امارات، تھائی لینڈ، آسٹریلیا میں بھی چھپاتے ہیں۔ محتاط اندازوں کے مطابق یہ رقم900ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے اور زیادہ ترمجرمانہ کاروائیوں سے کمائی گئی ہے۔ جب تک سیاسی اور ریاستی طاقت اس طبقے کے پاس ہے ، اس دولت کے ملک واپس لانے کو کوئی امکان نہیں۔شائد یہی وجہ ہے کہ ایف بی آر نے بھی مایوس ہو کر یہ پیسہ واپس لانے کی کوششیں ترک کر دی ہیں۔ سینٹ کمیٹی برائے خزانہ کوایف بی آر نے گزشتہ ہفتے ہی بتایا کہ سوئٹزر لینڈ اور دیگر جگہوں سے پاکستانیوں کی جانب سے سرمایہ کاری اور بینک کھاتوں کی معلومات حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔
اس ملک کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرنے والی مسلمان بورژوازی کا خواب مسابقت سے آزاد منڈی اور ایک ماتحت اورمددگار ریاست کا قیام تھا۔کم از کم وہ ایک جدید صنعتی سماج کے قیام کا خواب تو ضروردیکھتے تھے، یہاں تک کہ ایک تصوراتی 'اسلامی فلاحی ریاست‘ بھی بنانا چاہتے تھے۔اڑسٹھ برس بعد یہ اس دھرتی کے مجبور اور محنت کش عوام کے لیے ایک ڈرائونا خواب بن چکا ہے۔موجودہ حکمران اشرافیہ کے شیطانی گٹھ جوڑ کے پاس ایسا کوئی خواب یا منصوبہ نہیں ہے۔وہ نہ صرف پاکستان کے عام لوگوں کے مصائب سے بے پروا اور سنگدل ہیں بلکہ انہیں اپنے نظام اور ریاست پر بھی کوئی اعتماد نہیں ہے۔وہ اپنی جابر حکومت کے مطیع لوگوں کی تعداد تک شمار نہیں کر سکتے، بھلا وہ ان کی فلاح کے لیے کیا منصوبہ بنائیں گے۔یہ سب چور اچکے لوٹ مار کی دوڑ میں شامل ہیں۔یہ خود بیرونِ ملک سرمایہ کاری کرتے ہیں اور غیر ملکی کمپنیوں سے سرمایہ کاری کی بھیک مانگتے ہیں۔منافقت، دھوکہ دہی، جھوٹ اور بے ایمانی اس اشرافیہ کی سیاست اور اخلاقیات ہیں۔وہ محنت کش طبقے کے جسموں سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ کر فرار ہونا چاہتے ہیں۔لیکن شائد انہیں دیر ہو جائے۔ایک انقلابی عوامی بغاوت ایک دم ابھر کر اس لوٹ مار کا خاتمہ اور دولت مندوں اور امراء کی دولت ان سے چھین کر انتقام لے سکتی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں