شام مشرق وسطیٰ کے ان تین ممالک میں شامل ہے جہاں نہ صرف سماج 2011ء کے عرب انقلاب کی پسپائی کے بعد برباد ہوئے بلکہ ان تینوں ممالک (شام‘ لیبیا اور عراق) میں پچھلی صدی کی دوسری دہائی کے انقلابات سے نسبتاً زیادہ فلاحی ریاستیں تخلیق پائی تھیں۔ان انقلابات میں ہزار خامیاں سہی کئی غلطیاں سہی لیکن ان کی ایک خوبی یہ تھی کہ یہ سب سرمایہ دارانہ استحصال کے نظام کے خلاف اپنے اپنے انداز میں جرأت مندانہ جدوجہد کر رہے تھے۔ سامراجی قبضے اور غلبے کی زنجیروں کو توڑا گیا اور مقامی بادشاہوں اور دولت مند طبقات کو ان کے عام انسانوں کو لوٹنے اورمعاشروںکو سامراجی گماشتگی میں برباد کرنے کی سزائیں ان انقلابات نے دیں۔یہی وہ بنیادی وجوہ تھیں اور ہیں کہ امریکی اور دوسرے مغربی سامراجی ممالک آج تک شام کی حکومت سے نسل در نسل لڑائی اور اسے برباد کرنے کی کوشش سے باز نہیں آ رہے۔ روس کی اچانک مداخلت اور بمباری ایک اہم موڑ ہے۔ سامراجی ذرائع ابلاغ اور حکمران اس کی مذمت کر رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج پیوٹن کا روس کوئی لینن یاٹراٹسکی کا1917ء کا سوویت یونین نہیں ہے۔ اس کے مقاصد اور ارادے بھی سامراجی جارحیت سے کم نہیں کیونکہ آج روس کا کردار ایک مافیا اور جابرانہ سرمایہ دارانہ ریاست کا ہی ہے۔
یوکرائن کے بحران کے بعد روس اور مغربی حکومتوں کے تعلقات تیزی سے خراب ہوئے اور روس پر سخت پابندیاں عائد کی گئیں اور پیوٹن مغربی میڈیا میں ایک ولن کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔لیکن گزشتہ ایک ماہ سے شام میں بڑھتی ہوئی روسی مداخلت سے صورتحال بدل چکی ہے۔ بشار الاسد کے ریاستی ڈھانچے کی بتدریج شکست و ریخت اور بڑھتے ہوئے مذہبی بنیادپرستوں کی وجہ سے پیوٹن شام کی کمزور حکومت کو سہارا دینے کے لیے مداخلت کر رہا ہے۔ امریکہ کی ظاہری مذمت سے خطے میں امریکی سامراج کی کمزوری عیاں ہو رہی ہے۔ایک سال سے زیادہ عرصے سے امریکہ اور اس کے اتحادی شام اور عراق میں داعش کے زیرِ قبضہ علاقوں پر بمباری کر رہے ہیں جس سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا ۔اب انہیں اس بحران سے نکلنے کے واحد راستے کے طور پر روسی مداخلت پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اوباما نے کہا کہ ''امریکہ اس بحران کے حل کے لیے روس اور ایران سمیت کسی بھی ملک سے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیا رہے‘‘۔ اس بیان سے واضح ہے کہ اب فیصلے کون کر رہا ہے۔شام میں امریکہ کی کارروائیوں کے نتیجے میں داعش کی قوتیں مزید پھیلی ہیں، ما سوائے کرد علاقوں کے جہاں بائیں بازو کے وائے پی جی کے دستے ، جنہیں امریکہ نے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے، داعش پر اہم ضربیں لگا چکے ہیں۔تاہم ترکی کی اردوان حکومت کے حملوں کا نشانہ بننے کی وجہ سے کردوں کی پیش رفت بھی رک چکی ہے ، ترکی امریکہ کی قیادت میں قائم ہونے والے اتحاد کا اہم رکن ہے۔ در حقیقت اردوان حکومت نے داعش کے خلاف موثر ترین ملیشیاکردـ'پی کے کے‘ کے جنگجوئوں کے خلاف عراق میں فضائی بمباری شروع کر رکھی ہے ۔
امریکہ کی جانب سے اپنی پراکسی قوتیں کھڑی کرنے کی کوششیں بری طرح ناکام ہو چکی ہیں۔تربیت اور اسلحہ فراہم کرنے کا مشہور زمانہ مشن امریکی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے لیے باعث ہز یمت بن چکا ہے۔کروڑوں ڈالر سے تیار کی گئی قابل اعتماد فوج کا پہلا دستہ شام میں داخل ہوتے ہی ترکی کے حمایت یافتہ القائدہ گروپ جبۃ النصرہ کے حملے کا نشانہ بن گیا۔ امریکہ کا مقرر کردہ کمانڈر فوری طور پر جدید ترین اسلحہ اور سازو سامان سمیت جبۃ النصرہ سے جا ملا اور اس نے امریکہ کو انہیں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف لڑنے سے روکنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ مشن اب روک دیا گیا ہے۔
بشار الاسد کی حکومت مشرقِ وسطیٰ میں روس کی سب سے اہم اتحادی ہے اورا س کے انہدام سے نہ صرف شام پر مذہبی بنیاد پرستوں کا قبضہ ہو جاتا بلکہ یہ خطے میں روس کے مفادات کے لیے نقصان دہ تھا۔اس کے روس کے اندر بھی فوری اثرات مرتب ہوتے کیونکہ روس میں قفقاز کے چار علاقوں داغستان، چیچنیا، انگشتیا اور کابردینو بلکاریا میں بنیاد پرست گروپ داعش کی جانب جھک رہے ہیں۔روسی شام کی حکومت کو تکنیکی، انٹیلی جنس اور فضائی مدد فراہم کر رہا ہے جس کی انہیں اشد ضرورت تھی ۔ اس کے علاوہ روس نے بغداد میں عراق، ایران اور شام کا مشترکہ آپریشن سنٹر بھی قائم کیا ہے جو امریکی اتحاد کی صریحاً خلاف ورزی ہے کیونکہ عراق امریکہ کا اتحادی ہے۔عراق کی نیشنل سکیورٹی اور دفاع کی کمیٹی کے سربراہ حاکم الذامیلی کے مطابق ،''عراق کو دیگر ممالک کے ساتھ تجربہ اور انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ کرنے کی ضرورت ہے، خصوصاً اب جبکہ یہ واضح ہو چکا ہے امریکہ سنجیدہ نہیں ہے اور اپنے اتحادیوں سمیت داعش کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہو چکا ہے‘‘۔
پیوٹن کی شام میں مداخلت عالمی سیاست میں پھر سے کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ مغربی ممالک کی جانب ہاتھ بڑھانے کی کوشش ہے۔اوباما جتنا بھی شور مچا لے امریکی سامراج کے پاس پیوٹن کے منصوبے کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ بشار الاسد کے استعفے کا مطالبہ بھی کمزور پڑ رہا ہے اور مغربی اعلیٰ حکام بتدریج تسلیم کر رہے ہیں کہ عبوری حکومت میں ''اسد کے گنجائش ہو سکتی ہے‘‘۔ یہ بھی واضح ہے کہ بشار الاسد، اس کا خاندان اور قریبی ساتھی شام کی ریاست کے ساتھ اتنے زیادہ جڑے ہوئے ہیں کہ ان کو نکالنے سے ریاست بکھر جائے گی۔
پیوٹن اوباما کو شام میں امریکہ کے پیدا کردہ مسائل سے نکلنے اور امن کی پیشکش کر رہا ہے، لیکن اپنی شرائط پر۔ وہ چاہتا ہے کہ روس کو ایک برابر کی عالمی طاقت تسلیم کیا جائے۔شامی مہاجرین کی وجہ سے یورپی یونین کا سیاسی نظام غیر مستحکم ہو رہا ہے اور ان پر آنے والے اخراجات اٹھانے کے سوال پر یورپی حکمران طبقہ منقسم ہو رہا ہے۔روس کے خلاف پابندیوں سے یورپ کی کمزور معیشت بالخصوص جرمنی کی معیشت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔کئی یورپی لیڈر بشار الاسد کے استعفے کے مطالبے سے پیچھے ہٹنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔
روس کی مداخلت سے مشرق وسطیٰ کی صورتحال میں کوئی معیاری تبدیلی نہیں آئے گی۔اس سے صرف یہ حقیقت مزید واضح ہو گی کہ بشار الاسد کی حکومت اور ایران ہی وہ قوتیں ہیں جو شام اور عراق میں داعش کا مقابلہ کر سکتی ہیں، نہ کہ مغرب کے روایتی اتحادی جو اس عدم استحکام کی بنیادی وجہ ہیں۔جو فیصلہ امریکی خود نہیں کر پا رہے تھے وہ روس نے ان کے لیے کر دیا ہے۔
شام میں بربریت کی جڑیں امریکی سامراج اور اس کے اتحادیوں، ترکی اور خلیجی ریاستوں کی افغانستان، عراق ، شام اور لیبیا میں مداخلت میں پائی جاتی ہے۔امریکی قابضین کی جانب سے فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم سے لاکھوں افراد ہلاک اور اس سے کہیں زیادہ در بدر ہو چکے ہیں۔ ان کے پیدا کردہ ان کے لیے عذاب بن گئے ہیں۔
پیوٹن شام کو سودے بازی کے لیے استعمال کر رہا ہے جس کا مقصد روس کو دنیا اور مشرقِ وسطیٰ میں ایک طاقت کے طور پر تسلیم کروانا ہے۔روس کی مداخلت سے مذہبی بنیاد پرست کمزور ہو سکتے ہیں لیکن اس سے ایک آزاد ، جمہوری اور عوامی شام قائم نہیں ہو سکتا۔آج بشار الاسد بنیاد پرستوں کیخلاف لڑ رہا ہے لیکن اسے ماضی میںالقائدہ سمیت شام کے مذہبی بنیاد پرستوں سے کوئی مسئلہ نہیں تھا جب تک وہ انہیں عراق میں امریکہ پر دبائو ڈالنے کے لیے استعمال کر رہا تھا۔آج بھی ایران اور روس کامجوزہ منصوبہ بنیادی طور پر شام کے انتہائی رجعتی گروپوں کے ساتھ شراکتِ اقتدار کی ایک ڈیل ہے۔
2011ء میں شام میں اٹھنے والے انقلاب کی قوتوں کو سامراجیوں نے بہت پہلے ہی کچل دیا ہے۔بلا شبہ طبقاتی جدوجہد ختم نہیں ہو گی، لیکن فی الوقت شامی عوام کی نجات خطے میں کہیں اور سے اٹھنے والی انقلابی تحریکوں کے ساتھ منسلک ہو چکی ہے۔سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے مشرقِ وسطیٰ کے بحرانوں کا کوئی حل نہیں ہے۔روس اگر شام میں مذہبی بنیاد پرستی کے خلاف لڑے گا تو اس کا مقصد طبقاتی سماج اور سرمایہ دارانہ استحصال کا دفاع ہو گا۔عوام کے مفادات سے مخلص واحد قوت عوام خود ہیں۔ عوام کو درپیش کوئی بھی مسئلہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر حل نہیں ہو سکتا۔ سرمایہ داری کے خلاف سارے خطے کی انقلابی جدوجہد ہی سے مشرقِ وسطیٰ سے فرقہ واریت، غربت اور محرومی کی بربریت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔