پچھلے کچھ برسوں سے پاکستان میں جتنی زیادہ جمہوریت فروغ پا رہی ہے، اتنی ہی پاکستان کی سیاست پر کرپشن صرف مالیاتی طور پر ہی قابض نہیں ہوئی بلکہ پوری سیاست کا پروگرام ، لائحہ عمل، سیاسی حکمت عملی اور اصول بھی اسی کے گرد گھوم رہے ہیں۔ اس سیاست کے بڑے بڑے کھلاڑی اور بھاری دولت و سرمائے کے مالک سیاسی جگادری اسی کرپشن کے خلاف مسلسل سیخ پا ہو رہے ہیں۔کرپشن کے خلاف ان کے غم و غصے کا عالم یہ ہے کہ کرپشن کے بارے میں بولتے ہوئے ان کے منہ سے جھاگ ٹپکنے لگتی ہے۔ لیکن اس سرکس میں سب سے تعفن آمیز حرکت یہ ہو رہی ہے کہ کرپشن کے خلاف یہ واویلا کرنے والے خود نہ صرف کسی نہ کسی طرح کالی دولت کے دھارے میں اپنے ہاتھ رنگ رہے ہیں بلکہ ایک شرمناک ڈھٹائی سے اپنے طبقے کے حلیفوں اور حریفوں پر کرپشن کے الزامات کی بوچھاڑ کر رہے ہیں اور اپنے آپ کو پارسا، ایماندار اور نیک دل انسان ثابت کرنے کے لیے دلائل کے انبار لگا رہے ہیں۔ ان حکمرانوں اورشہرت زدہ انسانوں کی ''ریپوٹیشن‘‘ ان کے لیے کتنی اہم ہوتی ہے، عام طور پر یہ ڈائیلاگ سننے کو ملتا ہے کہ عزت و ناموس کی خاطر ہم جان گنوا سکتے ہیں لیکن بدنامی قبول نہیں کر سکتے۔ اس نظام ِ زر میں وہ نیک نامی حاصل کرنے کے لیے کروڑوں صرف کرتے ہیں کیونکہ اس کالے کاروبار میں نیک نامی سے بڑا کوئی موثر اور رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والا حربہ نہیں ہے۔ یہ نیک نامی حاصل کرنے کے لیے گاہے سوشلزم اور کمیونزم جیسے سرمایہ دشمن نظام ِ ریاست کو ہدف بنایا جاتا ہے۔ اس سے زیادہ مذہب اور عوام کے عقائد سے فائدہ اٹھا کر اپنی نیک نامی کی دھاک بٹھائی جاتی ہے۔ کرپشن کے آقائوں کے نیک نامی کی نادر مراعات حاصل کرنے کے لیے ویسے تو طرح طرح کے منصوبے اور حکمتِ عملیاں ہیں لیکن پاکستان جیسے ممالک میں زیادہ تر دو طریقے ہیں۔ ایک تو خیرات اور ٹرسٹ بنانے کا ہتھکنڈہ ہے جو باقاعدہ ایک صنعت بن چکا ہے جبکہ دوسرا مذہبی عقائد پر عملدرآمد کی مختلف طریقوں سے تشہیر، نیک نامی کے حصول کا اہم ذریعہ ہے۔
امراء طبقات روزے کھلواتے ہیں، مفت لنگر تقسیم کرتے ہیں، فطرانے دیتے ہیں، زکوٰۃ اور خیرات کے مہینوں میں دور دراز سے اپنے دیہات یا آبائی گھروں کو لوٹتے ہیں، جہاں ان کو زیادہ لوگ جانتے ہیں اور ان کی سخاوت کا عملی نظارہ کرتے ہیں۔ امیر طبقہ بالعموم یہ اعمال لوگوں میں اپنی نیک نامی کی دھاک بٹھانے کے لیے انجام دیتا ہے۔ چند دہائیاں پیشتر پورے سال میں زیادہ سے زیادہ چھ سے سات مذہبی تہوار ہوا کرتے تھے، اب پورا سال کسی نہ کسی مذہبی فرقے کا کوئی خاص دن ہوتا ہے۔ جتنی فرقہ واریت ضیاء دور میں بڑھی اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مختلف مالیاتی سرمائے کے دھڑے ایک نئی مذہبی توجیہہ سے اپنے لیے الگ مقام حاصل کر سکتے تھے۔ ان مذہبی فرقوں کے خاص ایام میں جہاںدولت مند اپنی دولت کی بھرپور نمائش کرتے ہیں وہاں اس سے بہت سی نیک نامی بھی حاصل کرتے ہیں۔
آج یہ رشوت اور خیرات کا بندھن دوسرے فتنوں کی طرح جدید ٹیکنالوجی سے بہت زیادہ ایڈوانس ہو گیا ہے۔ حاوی سامراجی اجارہ داریوںمیں اب اس کو کمپنیوںکی جدید اکائونٹ سازی میں ایک مکمل اور اہم شعبے کا صنعتی مقام دے دیا گیا ہے جس کے بغیر حساب کتاب کی رپورٹ مکمل نہیں ہو سکتی۔ انسانی تباہی کے آلات اور بھاری اسلحہ ساز کارپوریشنوں سے لے کر ادویات اورمرہم بنانے والی سامراجی اجارہ داریوں تک ہر کارپوریٹ گروپ میں خیرات اور کمیشن کے نام پر کرپشن کا شعبہ مستقل اور مارکیٹنگ کے لیے سب سے فعال تصور کیا جانے لگا ہے۔ اب پاکستان جیسے ممالک سے جو افراد ان شعبوں سے مصنوعات ''مادر وطن‘‘ کے لیے خریدتے ہیں انہیں ''انڈر دی ٹیبل‘‘ یا کسی خفیہ اشارے کنائے کی ضرورت نہیں رہتی، نہ ہی اس کرپشن پر کوئی لین دین کی گنجائش ہو سکتی ہے کیونکہ ہر چیز کی قیمت کی طرح اس شعبے کے کاروبار کے بھی فکس ریٹ ہیں۔ اگر ان کمپنیوں کے نام ظاہرکر دیے جائیں جو بہت سے غیر ملکی جرائد میں چھپ چکے ہیں تو پھر ہر شعبے کے ہر بڑے نیک دامن اور ایماندار حاجی صاحب کا نام آئے گا۔
لیکن اگر اس ملک کی ساری سیاست اور ریاست کرپشن کی بیان بازی کی سیاست اور حاکمیت تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے تو اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ حکمران اور بالادست طبقات کے سیاست دانوں، جرنیلوں، ججوں اور بیوروکریٹوں نے اس ملک کا پچھلے 68 سالوں میں جو حشر کیا ہے، اس بربادی نے اس نظام میں رہتے ہوئے کسی بہتری کی ہرگنجائش کو ختم کر ڈالا ہے۔ اس لیے سیاسی، معاشی و سماجی خلفشار اور بغاوت کے خوف سے وہ ادھر ادھر کے موضوعات کے گرد ہی ساری سیاست اور دانش کو محو رکھنا چاہتے ہیں۔کار پوریٹ میڈیا جو خود اس سرمائے کے جال کا تانہ بانہ ہے وہ اس میںفعال ترین کردار ادا کرتا ہے۔کرپشن کی ہنگامہ خیزی کا ناٹک کر کے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکا جا رہا ہے۔ اس کھلواڑ میں وہ ایک دوسرے کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ اس دولت میں حصہ داروں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔ لیکن جب کرپشن کے معاملے پر حکمران طبقات کے سیاسی و ریاستی نمائندے ایک دوسرے پر شدید الزامات لگا رہے ہوتے ہیں تو یہی وہ لمحات ہوتے ہیں جب یہ نادر سچ بول رہے ہوتے ہیں۔
کسی پارٹی کی کوئی دولت مند قیادت ایسی نہیں ہے جو کرپشن کے الزامات سے مبرا ہو۔ لیکن کسی ''موٹی اسامی‘‘ کو سزا کبھی کبھار ہی ہوتی ہے۔ پچھلی تین نسلوں نے تو ایسا کوئی عدالتی انصاف ہوتا نہیں دیکھا۔ اگر پیپلز پارٹی کا ایک سیٹھ کراچی میں پکڑا گیا ہے تو اس کی حیثیت ایک پیادے کی سی ہے۔ وہ پیپلز پارٹی کے نو دولتیوں کو بلیک میل کرنا چاہتے ہیں، ان کا خاتمہ نہیں چاہتے۔ اصل ان داتا دندناتے پھر رہے ہیں۔ ان کو کوئی پکڑنے والا نہیں کیونکہ اقتدار میں ہر فرد اندر سے چور ہے اور ڈرا ہوا ہے کہ اس کے یہ حریف اس کے پول نہ کھول دیں۔
کرپشن کی اس نورا کشتی کا کوئی اور فائدہ ہو نہ ہوکچھ لوگ پہچانے گئے، ان کے اصل کردار بے نقاب ہو گئے۔ رضا ربانی کا یہ پٹا ہوا پرانا بیان کہ صرف سیاست دانوں کا احتساب نہیں ہونا چاہیے دوسرے اداروں کا بھی احتساب کرنا ہو گا، حوصلہ کی پستی ظاہر کرتاہے، کھل کر جرنیلوں کا نام لینے سے رضا ربانی گریزاں ہیں۔ لیکن پھر دوسری جانب اسی پیپلز پارٹی کے لیڈر اپنے اندر کے خوف سے اتنے ڈرے ہوئے ہیں کہ جو بیان مذہبی یا دائیں بازو کی پارٹیوں کو دینا چاہیے وہ پیپلز پارٹی کے قائد ''حزب اختلاف‘‘ خورشید شاہ نے دے دیا اور جنرل راحیل شریف کو آج اندلس (سپین) کے فاتح طارق بن زیاد سے تشبیہ دے ڈالی۔ لیکن دونوں بیانات کا مقصد ایک ہی تھا کہ زرداری اور اس کے حواریوں سے درگزر کیا جائے۔ دراصل یہ قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف اور سینٹ کے لیڈر کی جی ایچ کیو کے در پرفریادیں ہیں۔ ایک نے بزدلانہ دھمکی کا پانی چڑھایا اور دوسرے نے کاسہ لیسی کی انتہا کردی۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کرپشن کا واویلا کرنے سے کرپشن ختم نہیں ہو گی، اتنا طویل منافقانہ اور فرسودہ ڈرامہ کرنے کی حکمرانوں کو کیا ضرورت ہے۔ وہ سب جانتے ہیں کہ کرپشن کے بغیر یہ نظام چل نہیں سکتا۔ کرپشن اس نظام ِ زر کے بحران کی وجہ نہیں ہے، اس کی ضرورت اور پیداوار ہے۔کرنا تو انہوں نے پھر بھی وہی ہے جو وہ کر رہے ہیں۔ پھر اگر مان لیں تو ان کا کیا جائے گا؟صرف ان کا یہ ایشو ختم ہو جائے گا اور عوام کے روٹی سے بجلی اور تعلیم سے علاج کے اصل ایشوز ابھرنے لگیں گے۔ ان کا ڈر جائز ہے لیکن اس کرپشن کے واویلے سے نو جوانوں اور عوام کی انقلابی بغاوت کو ہمیشہ کے لیے دبا کر نہیں رکھا جا سکتا۔