"DLK" (space) message & send to 7575

شام: مغربی سامراج کی تضحیک

شام میں امریکہ اور خلیجی حکمرانوں کے کٹھ پتلی دہشت گروہوں پر کچھ ہفتے قبل شروع ہونے والی روسی طیاروں کی بمباری کے بعد اب بشار الاسد کے اچانک دورئہ روس پر مغربی حکمران خوب تلملا رہے ہیں۔ مغربی میڈیا پر تنقید کا شور ہے جس میں بے بسی عیاں ہے۔ بشار الاسد کے دورے کا اعلان روس نے اس وقت کیا جب ان کا طیارہ واپس شام میں لینڈ کر چکا تھا۔ہمیشہ کی طرح سی آئی اے اسد کی فوج کو شکست دینے کے لیے جہادیوں کی تیاری میں اتنی مگن تھی کہ وہ ماسکو میں ہونے والے واقعات پر توجہ ہی نہ دے سکی۔خبر ملنے پر امریکی دانت پیستے رہ گئے اور وائٹ ہائوس نے بشارالاسد کے لئے سرخ قالین بچھانے کی ''مذمت‘‘ کی۔2011ء میں شام میں خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے یہ بشارالاسد کا پہلا غیر ملکی دورہ تھا۔ماسکو میں صدر بشارالاسد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے شام میں روس کی عسکری مداخلت پر شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد 22اکتوبر کو روسی پارلیمنٹ کے اراکین نے بھی دمشق میں بشارالاسد اور شامی پارلیمنٹ کے سربراہ سے ملاقات کی۔ 
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے بشارالاسد کے ہمراہ مشترکہ اعلامیہ میں بیان دیا ہے کہ شام کے مسئلے کا ''دور رس حل سیاسی عمل سے ممکن ہے جس میں ملک کی تمام سیاسی قوتوں اور لسانی اور مذہبی گروہوں کو شامل کیا جائے۔‘‘شامی صدر کی میزبانی کرکے پیوٹن نے مغرب کو واضح پیغام دیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں روس ایک اہم فریق ہے اور شام کے تنازعے کا کوئی حل اس کی مداخلت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک عہدیدار نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ دورہ ہمارے لئے حیران کن نہیں تھا لیکن ہماری تشویش روس کی شام کو مسلسل عسکری امداد پر ہے جس سے بشارالاسد کی حکومت مضبوط ہوئی ہے اور اس سے خانہ جنگی طوالت اختیار کرے گی۔ 
پیوٹن کو نیٹو اور مغربی سامراجیوں کی جانب سے سوویت یونین کے انہدام کے بعد روس کے گھیرائو اور تذلیل کی خاصی خلش ہے۔ اب جبکہ روس کو موقع مل رہا ہے تو حساب چکتا کیا جا رہا ہے۔شام میں روس کی عسکری طاقت کے بے رحم مظاہرے کے پیچھے یہی عنصر کارفرما ہے۔ پیوٹن نے پہلے جارجیا، کریمیا ، یوکرین اور اب شام میں نیٹو کو مات کیا ہے۔ روس پر مغربی ممالک کی معاشی پابندیاں بے سود ثابت ہوئی ہیں اور اس سے داخلی سطح پر پیوٹن کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ شام میں دہشت گردوں پر روسی بمباری کے بعد نہ صرف روس بلکہ دنیا بھر میں پیوٹن کی مقبولیت تاریخ کی بلند ترین سطح پر جا پہنچی ہے۔ وہ اپنی مستحکم پوزیشن کا خوب فائدہ اٹھا رہا ہے اور یقینی بنا رہا ہے کہ عالمی میڈیا کی توجہ اس پر مرکوز رہے۔ اس نے کئی سالوں بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب اور بعد میں امریکی صدر کے ساتھ سرد مہر مصافحہ اسی سلسلے میں کیا تھا۔ 
شام میں براہِ راست عسکری مداخلت اور دوسری چالبازیوں کا بنیادی مقصد بشارالاسد کی حکومت کو مستحکم کرنا ہے۔ شام کی موجودہ ریاست کے ساتھ روس کے تعلقات کی تاریخ سوویت دور سے شروع ہوتی ہے۔ بشارالاسد کے والد حافظ الاسد کی حکومت مشرق وسطیٰ میں سوویت یونین کی سب سے قریبی حلیف سمجھی جاتی ہے۔ بشارلاسد نے سرمایہ داری کا خاتمہ کرکے شام کی معیشت کو سوویت ماڈل پر ازسر نو ترتیب دیا تھا جس سے تیز صنعتکاری اور معاشی ترقی ہوئی اور تعلیم و صحت جیسی بنیادی سہولیات عوام کو میسر آئیں۔ اس دور میں بڑے پیمانے پر عسکری، تکنیکی اور معاشی امداد شام کو سوویت یونین سے ملتی تھی اور سوویت فوجی تنصیبات شام میں قائم کی گئیں۔ دونوں ممالک کے لوگوں کے درمیان شادیاں عام تھیں۔شام میں فی الوقت موجود روس کا بحری بیڑہ اسی زمانے میں یہاں آیا تھا جو آج دنیا میں روس کی حدود سے باہر واحد روسی بحری بیڑہ ہے۔ 
کچھ مہینے قبل تک چار برسوں کی خانہ جنگی نے بشارالاسد حکومت کو خاصا کمزور کر دیا تھا اور وسیع علاقے حکومت کے ہاتھ سے نکل کر مختلف دہشت گرد گروہوں کے قبضے میں جا رہے تھے۔شامی ریاست کو بڑے پیمانے پر روسی اسلحے کی فراہمی سے بھی صورتحال نہیں سنبھل رہی تھی چنانچہ ان حالات میں روس کو براہِ راست مداخلت کرنا پڑی جس کاآغاز 30ستمبر کو داعش، نصرہ فرنٹ، نام نہاد ''فری سیرین آرمی‘‘ اور دوسرے دہشت گرد گروہوں کے ٹھکانوں پر بمباری سے ہوا۔ بعد ازاں عسکری طاقت کے مظاہرے کے طور بحیرئہ قزوین (Caspian Sea) میں موجود چار روسی بحری جہازوں سے 26 کروز میزائل 1500 کلومیٹر دور شام میں داعش کے ٹھکانوں پر داغے گئے۔ امریکی بمباری کے برعکس روسی بمباری خاصی تباہ کن اور موثر رہی ہے۔روزانہ درجنوں کے حساب سے فضائی حملے تاحال جاری ہیں جس سے داعش کے ساتھ ساتھ امریکہ، قطر اور ترکی کے پراکسی گروہوں کو بھاری نقصان ہوا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں جہادی ترکی بھاگ رہے ہیں۔ 
روس کی بمباری سے بلاشبہ بشارالاسد حکومت عسکری طور پر مضبوط ہوئی ہے اور شامی فوج کے گرتے ہوئے مورال میں بھی نئی جان پڑ گئی ہے۔ امریکیوں کو سب سے زیادہ تکلیف اس بات سے ہے کہ داعش کے ساتھ ساتھ اس کے حمایت یافتہ نام نہاد ''معتدل باغیوں‘‘ (Moderate Rebels)کو بھی بُری طرح نشانہ بنایا جا رہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ شام میں کوئی ''معتدل‘‘ یا ''جمہوری‘‘ گروہ موجود نہیں ہے اور بشارالاسد حکومت سے برسر پیکار تمام گروہ مذہبی جنونیوں پر مشتمل ہیں۔ داعش اور ان گروہوں میں صرف نام کا ہی فرق ہے۔ نام نہاد ''فری سیرین آرمی‘‘ میں شامل مختلف گروہ بھی امریکی ہتھیاروں کو القاعدہ تک پہنچانے کے چینل کا کام ہی کر رہے ہیں۔ امریکیوں نے کچھ عرصہ قبل اعلان کیا تھا کہ وہ بیک وقت داعش اور بشارالاسد سے لڑنے کے لئے کئی ملین ڈالر خرچ کر کے پانچ ہزار ''معتدل‘‘ جنگجوئوں پر مبنی گروہ تشکیل دے رہے ہیں۔ اب وہ اعتراف کر رہے ہیں کہ پانچ ہزار میں سے پانچ ہی باقی بچے ہیں اور باقی اپنا اسلحہ دوسرے گروہوں کو بیچ کر پتلی گلی سے نکل گئے ہیں۔ بچ جانے والے یہ پانچ جنگجو اب کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں یہ امریکی ہی بہتر جانتے ہوں گے۔ مشرق وسطیٰ سے متعلق امریکی پالیسی اس قسم کی مضحکہ خیز حرکتوں تک محدود ہو گئی ہے۔ 
روس کی فضائی بمباری شمال مغربی شام میں شامی فوج کی پیش قدمی کے ساتھ مربوط ہے۔ شامی فوج کے چیف آف سٹاف جنرل علی عبداللہ ایوب نے ''دہشت گرد گروہوں کو کچلنے کے لئے وسیع پیش قدمی‘‘کا اعلان کیا ہے۔ شامی فوج کو روسی طیاروں کے ساتھ ساتھ ایرانی فوج، حزب اللہ اور عراق سے رضا کار مسلح ملیشیائوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ 
دوسری عالمی جنگ کے بعد سے عالمی تعلقات میں اتنا تنائو شاید پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں ملا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکی سامراج کے توسیع پسندانہ عزائم نے بلقان سے لے کر مشرق وسطیٰ اور وسط ایشیا سے لے کر پاکستان اور شمالی افریقہ تک ہر جگہ خونریزی اور انتشار کو جنم دیا ہے۔ یہی انتشار اب امریکی سامراج کے قابو سے باہر ہو کر انہی کے لئے عذاب بن گیا ہے۔ عالمی سطح پر یہ عدم استحکام آخری تجزئیے میں سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخی متروکیت اور نااہلی کی غمازی کرتا ہے۔ تضادات سے بھرپور سے یہ کیفیت مسلسل دھماکہ خیز واقعات کو جنم دیتی چلی جائے گی جس کا مطلب ہے کہ دنیا ایک نئے عہد میں داخل ہو چکی ہے۔ یہ عہد جنگوں، انقلابات اور رد انقلابات سے لبریز ہوگا۔ ناگزیر طور پر جلد یا بدیر،یہ حالات کسی ایک ملک یا خطے میں محنت کش طبقے کو اقتدار پر قبضہ کرنے پر مجبور کریں گے۔ 2011ء کا عرب انقلاب اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ پایا جس کا نتیجہ پورے خطے میں مزید عدم استحکام کی شکل میں برآمد ہوا ہے۔ لیکن سامراجی جارحیت، بنیاد پرستانہ وحشت اور ''مذاکرات‘‘ بھی کسی مسئلے کا حل نہیں ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو دوبارہ بغاوت کر کے 2011ء کو بلند پیمانے پر دہرانا ہو گا اور جبر و استحصال کے راج کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں