"DLK" (space) message & send to 7575

’’ سنگیں فصیلوں کوتو جنبش تک نہیں آئی‘‘

یہاں زلزلہ کیا آیا ہے حکمرانوں اور میڈیا نے زلزلے کو تماشہ ہی بنا کر رکھ دیا ۔ ریٹنگ کی دوڑ میں صرف میڈیا ہی نہیں بلکہ سیاست دانوں سے لے کر ریاستی اداروں کے سربراہان اور کھلاڑیوں سے لے کر فنکاروں تک، سب بھاگ رہے ہیں۔ ہر ''قدرتی‘‘ آفت کی طرح اس زلزلے میں بھی حکمرانوں کی کیمرہ شوٹنگ شروع ہو گئی ہے۔کہیں ''قومی یکجہتی‘‘ کا شور ہے تو کہیں متاثرین کے لئے ''پیکج‘‘ جاری کرنے کے بلند و بانگ دعوے ہیں۔ سیاست کا ہر جگادری مریضوں کی عیادت کے فوٹو سیشن کروا کے خود کو ''ہمدرد‘‘ اور ''پارسا‘‘ بنا رہا ہے۔ ''مخیر حضرات‘‘ تو ویسے ہی تاک میں ہوتے ہیں کہ کب کوئی آفت آئے اور خیرات کا دھندا چالو کیا جائے۔سرکاری محکموں کا کام ریلیف سے زیادہ کاغذی کارروائیوں کی تشہیر معلوم ہوتا ہے۔
''نیکی کر دریا میں ڈال‘‘ پر عمل پیرا کتنے لوگ ہیں؟نمائش پارسائی کی شرط بن گئی ہے۔ دکھاوے کے بغیر اچھائی کرنا ہی معیوب سمجھا جانے لگا ہے۔ منافقت کے اس بحر میں کوئی پوچھنے والا ہے کہ 2005ء کے لاکھوں متاثرین میں سے کتنوں کو دوبارہ وہ زندگی میسر آ سکی ہے جو وہ زلزلے سے پہلے گزار رہے تھے؟ الیکشن ہوں یا اس طرح کی آفات، عام لوگ اب اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ جو کچھ ملتا ہے لے لو کیونکہ بعد میں کچھ نہیں ملے گا۔ نادار اور بے بس عوام کا اس سیاست اور ریاست پر سے اعتماد بہت پہلے کا اُٹھ گیا ہے۔ طویل عرصے سے پیپلز پارٹی کی قیادت محنت کش طبقے اور عوام کی نمائندہ پارٹی ہونے سے خود انکاری ہو کر سرمایہ داروں اور سامراج کی گماشتگی میں غرق ہے۔ 
زلزلے کو ''قہر خداوندی‘‘ قرار دینے والوں کی بھی کمی نہیں 
ہے۔ یہ لوگ ایسی ہر آفت کے بعد سرگرم ہو جاتے ہیں۔ ان کی بات پر غور کیا جائے تو یہاں قہر خداوندی بھی طبقاتی ہی ہے۔ سیلاب ہوں یا زلزلے، برباد غریب ہی ہوتے ہیں۔ یہی محروم طبقہ اجڑتا ہے۔ یہی بے کس آفات کے بعد بھی دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور رہتے ہیں۔ ان فتووں کے مطابق یہ حکمران انتہائی نیک، دیانتدار اور متقی ہیں جنہیں کوئی قہر چھو کر نہیں گزرتا۔ دہائیاں قبل ضلع جہلم کے ایک گمنام عوامی شاعر امداد ہمدانی نے ایسے ہی ایک قہر خداوندی کے بارے کہا تھا:
تیری سنگیں فصیلوں کو تو جنبش تک نہیں آئی
ہوائیں لے اڑیں جن کو وہ اپنے جھونپڑے ہوں گے!
چند انسانوں کی ہوس پر مبنی سرمائے کے اس نظام کے تحت جو معاشرہ اور سماجی ڈھانچہ تشکیل پاتا ہے اس میں آبادی کی وسیع اکثریت کی بنیادی ضروریات زندگی کے وسائل ہی میسر نہیں ہوتے۔ محنت کش طبقے پوری عمر بقا کی جدوجہد میں ہی گزار دیتے ہیں۔ روٹی، کپڑا، مکان، علاج، تعلیم، روزگار کا حصول ہی ناممکن ہوتا ہے۔ اس محرومی اور ذلت میں سے جو مجروح زندگی برآمد ہوتی ہے اس پر بھی دہشت گردی اور آفات کی ضربیں لگتی رہتی ہیں۔ 
اب کے بار بھی چند دنوں تک یہ زلزلہ اور اس کی تباہی شہ سرخیوں میں رہیں گے۔ امدادوں کی تشہیر ہوگی۔ حکمران اور ''مخیر حضرات‘‘ نیک نامی خریدیں گے۔ پھر یہ سب کچھ شہ سرخیوں اور ٹیلی وژن سکرینوں سے غائب ہو جائے گا۔دربدر ٹھوکریں کھاتے متاثرین اور لواحقین ماضی کی آفات کی طرح اس نظام کی اندھیرنگری میں دھکیل دئیے جائیں گے۔لیکن اس سے پہلے جب تک ریٹنگ ملتی جائے گی اس ایشو کو کھینچا جائے گا۔ حکمرانوں کے مختلف دھڑے سطحی انتظامی معاملات تک محدود ہو کر ایک دوسرے پر تنقید کر رہے ہیں۔ تجزیہ کار اس متروک نظام کو ٹھیک کرنے کی تجاویز پیش کر رہے ہیں، لیکن کوئی ''ماہر‘‘ یا ''دانشور‘‘ اس نظام کو چیلنج کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا جو اس سماج کی زبوں حالی کی بنیادی وجہ ہے۔نسل انسان کو برباد کرنے کا نظام بھلا ان بربادیوں کا مداوا کر سکتا ہے؟ جہاں 60فیصد آبادی غذائی قلت سے دوچار ہے، وہ ریاست اس تباہی کی ''تعمیر نو‘‘ کرے گی؟ 
نسل انسان کا سفر بنیادی طور پر تسخیر قدرت کا سفر ہے۔ لاکھوں سالوں کی محنت سے انسان نے وہ ٹیکنالوجی، اوزار اور ذرائع پیداوار تخلیق کئے ہیں جن سے زندگی کو لاحق خطرات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ آج ٹیکنالوجی جس سطح پر ہے اس کے پیش نظر بھوک، قلت اور محرومی جیسے مسائل سراسر مصنوعی اور رائج الوقت معاشی نظام کی پیداوار ہیں۔اسی طرح سیلاب ہوں یا زلزلے، یا پھر موسم کی شدت، ہر طرح کی قدرتی آفات پر قابو پایا جا سکتا ہے اور نقصان کو ختم نہیں تو نہ ہونے کے برابر ضرور کیا جاسکتا ہے۔ بیماریوں کے علاج دریافت ہو سکتے ہیں، سیلابوں کو روکنے کے لئے بند اور ڈیم بنائے جا سکتے ہیں، زلزلوں کو مات کرنے کے لئے شاک پروف طرز تعمیر اپنایا جا سکتا ہے۔ ان تمام اقدامات کے لئے وسائل ناپید نہیں لیکن ایک مخصوص طبقے کے ہاتھوں یرغمال ضرور ہیں۔ مارکس نے سرمایہ داری کو ''بہتات کے بیچوں بیچ قلت‘‘ کے نظام سے تعبیر کیا تھا۔آج ملٹی نیشنل اجارہ داریاں اور بڑے سرمایہ دار 32ہزار ارب ڈالر کسی پیداواری عمل میں صرف کرنے کی بجائے آف شور بینکوں کی تجوریوں میں چھپائے ہوئے ہیں۔ 150ارب ڈالر سے دنیا بھر کی غربت مٹائی جا سکتی ہے لیکن اس سے دس گنا زیادہ رقم جنگوں اور اسلحہ سازی پر خرچ ہو رہی ہے۔ صرف اسی سرمائے کو منافع کی ہوس کی بجائے انسانی ضروریات کی تکمیل اور سماجی ترقی کے لئے بروئے کار لایا جائے تو چند سالوں میں جنت ارضی تعمیر کی جاسکتی ہے۔ 
ہالینڈ کا 26فیصد رقبہ سطح سمندر سے نیچے ہے۔ وہاں موجود یورپ کا دوسرا سب سے مصروف ہوائی اڈہ بھی سطح سمندر سے نیچے ہے۔ لیکن انسانی محنت اور کاوش نے یہ رقبہ بند بنا کر سمندر سے چھینا ہے۔ ہالینڈ میں دنیا کا پہلا صنعتی انقلاب برپا ہوا تھا۔ لیکن دوسری طرف آج اسی ہالینڈ میں یورپ کے دوسرے ممالک کی طرح عوام کو حاصل ریاستی سہولیات چھینی جا رہی ہیں اور ریسرچ میں ریاستی سرمایہ کاری ختم کی جا رہی ہے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں تحقیق اور تخلیق کے لئے مختص رقوم میں سرمایہ داری کے معاشی بحران کے تحت کٹوتیاں کی جا رہی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں منافع خوری کا یہ نظام، جس نے ایک وقت میں ذرائع پیداوار کو ترقی دی تھی، آج تاریخی طور پر دیوالیہ ہو کر انہی ذرائع پیداوار کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ یہ سرمایہ داری کی متروکیت کی علامت ہے کہ تخریب میں تعمیر کی نسبت شرح منافع بلند ہے اور زلزلوں کے بغیر بھی سامراجی جنگیں آبادیوں کو تاراج کر رہی ہیں۔ 
اگر ترقی یافتہ ممالک میں صورتحال یہ ہے تو پاکستان جیسے پسماندہ ممالک کی مفلوج سرمایہ داری سے کیا امید وابستہ کی جا سکتی ہے؟ حکمرانوں کو سب پتا ہے۔قدرتی آفات سے ہٹ کر ''معمول‘‘ کے ادوار میں بھی یہاں 1132بچے ہر روز بھوک اور قابل علاج بیماریوں سے مرتے ہیں، 5لاکھ خواتین طبی امداد نہ ملنے کے باعث زچگی کے دوران ہر سال دم توڑ دیتی ہیں، 80فیصد آبادی غیر سائنسی علاج اور اس سے بھی زیادہ مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہے۔ غریبوں کے گھر زلزلوں کے بغیر بھی تباہ حال ہیں، سکول اجڑے اور ہسپتال دوائیوں سے محروم ہیں۔ اب صحت اور تعلیم کی نجکاری سے یہ برائے نام آسرا بھی عوام سے چھینا جا رہا ہے۔ لیکن حاتم طائی بنے ان حکمرانوں کی شاہ خرچیوں کا تماشا دیکھیں، ان کی پارسائی کے کرتب، حرکات اور تکرار کے موضوعات دیکھیں!
اب بے حس حکمرانوں پر بھی ایک قہر نازل ہو گا۔ یہ آسمانوں کا نہیں، اس زمین پر بسنے والی خلق کا قہر ہو گا جو سوشلسٹ انقلاب بن کر ان حکمرانوں کو ان کے نظام سمیت نیست و نابود کرے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں