جمعہ 13 نومبر کو پیرس میں ڈھلتی ایک رنگین شام کو بدترین دہشت گردی نے خون رنگ کر دیا۔ یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد فرانس میں ہونے والی سب سے بڑی خونریزی ہے‘ جو کئی گھنٹوں تک جاری رہی۔حملے کی جگہ پر موجود فرانس کے صدر اور دوسرے اعلیٰ عہدیداران کو ہنگامی طور پر محفوظ مقامات پر پہنچایا گیا۔ پورے فرانس میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا‘ اور ایمرجنسی نافذ ہے۔ دہشت گردوں نے چھ مقامات کو نشانہ بنایا۔ اب تک کی سرکاری اطلاعات کے مطابق جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 129 ہے‘ جبکہ 300 سے زائد زخمی ہیں۔ 80 زخمیوں کی حالت نازک ہے۔
اس ہولناک واقعے کے بعد پورے یورپ میں صدمے کی سی کیفیت ہے‘ لیکن المیہ یہ ہے کہ یورپ کے سامراجی حکمران اور دائیں بازو کے نیم فسطائی گروہ اس غم و غصے کو بالواسطہ طور پر عوام کے خلاف استعمال کریں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کہیں جنگ، دہشت گردی یا بربادی کا واقعہ رونما ہوتا ہے‘ تو حکمران طبقے کا دایاں بازو اسے رجعت اور قومی و نسلی تعصبات کو بھڑکانے کے لئے استعمال کرتا ہے۔
2008ء کے بعد پوری دنیا کی طرح فرانس اور یورپ میں بھی سرمایہ داری کے معاشی بحران کا بوجھ عوام کے کندھوں پر ہی ڈالا گیا۔ پچھلے 70 برسوں میں ان ترقی یافتہ صنعتی ممالک کے محنت کشوں نے جو سہولیات اور مراعات اپنی جدوجہد کے ذریعے حاصل کی تھیں، انہیں واپس چھینا جا رہا ہے‘ لیکن مزاحمت نہ صرف احتجاجی مظاہروں اور ہڑتالوں کے ذریعے جاری ہے بلکہ انتخابی میدان میں آسٹیریٹی مخالف بائیں بازو کی پارٹیوں کی مقبولیت بھی بڑھ رہی ہے۔ سیاسی اور ٹریڈ یونین قیادت کی تمام تر غداری اور موقع پرستی کے باوجود محنت کش جدوجہد کر رہے ہیں‘ جو اتار چڑھائو کے ساتھ آنے والے عرصے میں شدت اختیار کرے گی۔
محنت کش عوام کی تحریک کو توڑنے کے لئے رنگ، نسل، قوم اور خصوصاً مذہب کے تعصبات کا استعمال حکمرانوں کا پرانا وتیرہ ہے۔ ایسے واقعات کا فوری فائدہ سامراجی ریاستوں کو ہی ہوتا ہے۔ ایک طرف مذہبی منافرت کو ہوا ملتی ہے جس سے محنت کشوں کی یکجہتی پر ضرب پڑتی ہے تو دوسری طرف ان ریاستوں کو بیرونی جنگوں اور داخلی جبر کے جواز میسر آتے ہیں۔ داعش اگرچہ کنٹرول سے باہر ہو جانے کے بعد اپنے آقائوں کے لئے درد سر بنی ہوئی ہے‘ لیکن اپنے ممالک کے عوام کو خوفزدہ کرنے اور حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے وہ اسے خوب استعمال بھی کر رہے ہیں۔ یورپ میں دائیں بازو اور قدامت پرست پارٹیوں نے پہلے ہی نسل پرستی اور مذہبی منافرت کا زہر اگلنا جاری رکھا ہوا تھا۔ حالیہ واقعے کے بعد وہاں رہنے والے عام مسلمانوں کی زندگیاں اجیرن ہو جائیں گی۔ اس فسطائیت کا سب سے زیادہ شکار پھر شام جیسے ممالک کے بے کس پناہ گزین ہی ہوں گے۔
مالیاتی مفادات کے لئے سامراجی یا ریاستی قوتوں کے آلہ کار بن کر دہشت کا درس دینے والے سب سے پہلے عام مسلمانوں کے مجرم ہیں‘ جنہیں اس دہشت گردی کا رد عمل پوری دنیا میں برداشت کرنا پڑتا ہے۔ فرانس میں شمالی افریقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد مقیم ہے۔ الجیریا سمیت افریقہ کے وسیع خطے فرانس کی نوآبادیات میں شامل رہے‘ اس لئے ان ممالک کے افراد بڑی تعداد میں نسلوں سے فرانس میں زندگی گزار رہے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد کی کچھ دہائیوں میں، جب سرمایہ دارانہ معیشت تیزی سے پھیل رہی تھی، غیرملکی محنت کشوں کا یورپ اور امریکہ وغیرہ میں رہنا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اس عہد میں نسل پرستی کم و بیش ناپید ہو چکی تھی‘ لیکن جوں جوں سرمایہ دارانہ نظام کا بحران بڑھتا‘ اور روزگار، رہائش وغیرہ کے مسائل میں اضافہ ہوتا ہے تو حکمرانوں کو اپنے معاشی حملوں کے لئے تعصبات کو ابھارنے کا موقع بھی ملتا ہے۔
فرانس اور برطانیہ کے درمیان مشرق وسطیٰ سے متعلق 1916ء میں ایک معاہدہ ہوا تھا‘ جسے ''سائیکس پیکوٹ ایگریمنٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ معاہدے پر فرانس کے وزیر خارجہ فرانسوا جیورجیس پیکوٹ اور برطانوی سفارتکار سر مارک سائیکس نے دستخط کئے تھے۔ اس کے تحت انہدام سے دوچار سلطنت عثمانیہ کے صوبے 'لیوانٹ‘ کی بندر بانٹ کی گئی تھی۔ خطہ لیوانٹ کو موجودہ عراق، شام، اسرائیل، قبرص، اناتولی اور فلسطین وغیرہ میں تقسیم کرنے کا عمل اسی وقت شروع ہوا تھا۔ ان ممالک میں سامراجی لوٹ کھسوٹ، استحصال اور سیاسی مداخلت آج بھی ہمیشہ کی طرح جاری ہے۔ جن حکومتوں کی طرف سے مزاحمت ہوتی ہے‘ انہیں جبر یا جارحیت کے ذریعے اکھاڑ دیا جاتا ہے۔
حافظ الاسد کے دور سے ہی شام ان سامراجی قوتوں کی آنکھ میں کھٹکتا رہا ہے۔ حافظ الاسد کی سربراہی میں 'عرب سوشلسٹ بعث پارٹی‘ نے شام میں سے سرمایہ داری کا خاتمہ کیا تھا‘ اور سامراجیوں کی چھٹی کروا کے سوویت طرز کی منصوبہ بند معیشت استوار کی گئی تھی۔ اس عہد میں تیز معاشی ترقی ہوئی‘ جس سے بلند ثقافت کا حامل جدید معاشرہ تشکیل پایا۔ 2000ء کے بعد سے بشارالاسد اگرچہ معیشت کو سرمایہ داروں کے لئے رفتہ رفتہ کھول رہا تھا‘ لیکن ریاستی سیکٹر اور ریگولیشن معاملات معیشت پر حاوی تھے۔ بشارالاسد حکومت کے قریبی افراد اگرچہ خاصا مال بنا رہے تھے‘ لیکن مغربی کارپوریٹ کمپنیوں کو کچھ خاص نہیں مل پا رہا تھا۔ ایسے میں 2011ء کے عرب انقلاب کا ریلا شام میں داخل ہوا‘ اور حکومت کے خلاف عوام کے کچھ حصوں نے پُرامن تحریک چلائی۔ امریکہ، فرانس، قطر اور ترکی جیسی علاقائی اور عالمی طاقتوں کی مداخلت سے انقلابی کردار کی حامل یہ سیاسی تحریک ایک رد انقلابی خونریز خانہ جنگی میں تبدیل ہو گئی‘ لیکن لیبیا کی طرح پالتو جنگجو گھسا کر ریاست کو اکھاڑا نہیں جا سکا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بشارالاسد کی بنیادیں کسی حد تک سماج میں موجود تھیں‘ اور لیبیا کے برعکس شامی ریاست کے ڈھانچے خاصے مضبوط تھے۔ بشارالاسد نے بیرونی مداخلت کو جواز بنا کر اصل تحریک کو مختصر عرصے میں ہی کچل دیا‘ لیکن خانہ جنگی تاحال جاری ہے۔
مذکورہ بالا سامراجی ریاستوں نے بشارالاسد کو ہٹانے کے لئے پوری دنیا سے خونخوار مذہبی جنونیوں کو اکٹھا کر کے شام بھیجا۔ بعض خلیجی حکمران بالخصوص اربوں ڈالر کا اسلحہ اور امداد ان دہشت گردوں کو اب بھی دے رہے ہیں۔ فرانسیسی حکومت کی جانب سے
کچھ بنیاد پرست پراکسی گروہوں کو بھاری مالی اور عسکری امداد دینے کی خبریں بھی ایک سے زیادہ بار عالمی میڈیا پر گردش کر چکی ہیں۔ ''اسلامک سٹیٹ‘‘ یا داعش کا جنم اسی کھلواڑ کے نتیجے میں ہوا۔
ستمبر 2011ء کے بعد تو نیٹو ممالک نے افغانستان پر چڑھائی میں ذرا دیر نہیں کی تھی۔ بعد میں عراق کو بھی تاراج کر دیا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا حالیہ واقعے کے بعد یہ عالمی پولیس مین ان ممالک پر بھی حملے کریں گے‘ جن کی مالی اور عسکری پائپ لائن کے منہ داعش، النصرہ فرنٹ اور اسلامک فرنٹ جیسے گروہوں کی طرف کھلے ہوئے ہیں؟ شام میں لگی آگ پر مسلسل تیل چھڑکنے والے سب کے سب امریکہ اور یورپی طاقتوں کے گماشتے اور ''اتحادی‘‘ ہیں۔ اسی خطے کے کئی دوسرے ممالک کے معاملے میں انہیں ''جمہوریت‘‘ یاد آتی ہے‘ نہ ''انسانی حقوق‘‘ کا خیال رہتا ہے!
پیرس میں جو کچھ ہوا وہ یقینا افسوسناک اور قابل مذمت ہے‘ لیکن یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ ایسے واقعات شام، عراق اور افغانستان میں معمول کا درجہ اختیار کر چکے ہیں‘ اور اس کے براہ راست ذمہ دار وہی سامراجی حکمران ہیں جو کارپوریٹ میڈیا پر بیٹھ کر اب مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔ لیون ٹراٹسکی نے لکھا تھا کہ ''فسطائیت سرمایہ داری کا نچڑا ہوا عرق ہے‘‘۔ یہ سرمایہ داری ہی ہے جس کے منافعوں کی ہوس نے آج مشرق وسطیٰ کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے۔ پیرس میں دہشت گردی کو اگرچہ حکمران اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کریں گے لیکن اس سے پورے یورپ کے محنت کش عوام بھی نتائج اخذ کریں گے، سامراجی ریاستوں کی مکروہ حقیقت ان پر کھل کر آشکار ہو گی‘ جن کی خارجہ پالیسیاں اب داخلی قتل و غارت گری میں ڈھل رہی ہیں۔ یہ ادراک ناگزیر طور پر سامراج اور اس کے نظام کے خلاف بغاوت کا ایندھن بنے گا!