پیپلز پارٹی پر مسلط ٹولے نے پارٹی کو سیاسی اور سماجی بنیاد فراہم کرنے والے محنت کش اور غریب عوام کو جس طرح سے دھتکارا‘ اس کا مکافات عمل اب نظر آ رہا ہے۔ محروم اور بے کس طبقات کو رسوا کرنے والے آج تماشا بنے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ کہنا بھی غلط ہو گا کہ پارٹی کا یہ حشر اکیلے زرداری صاحب نے کیا ہے۔ پارٹی کے بنیادی نظریات سے انحراف کا آغاز بے نظیر بھٹو نے ہی کر دیا تھا۔ زرداری صاحب نے تو بے نظیر کی پالیسیوں کو منطقی انجام تک پہنچایا ہے۔ آصف علی زرداری کو پارٹی اور اس کے ''لیڈر‘‘ ہی وراثت میں ملے تھے، ان کے پاس بے نظیر جیسی موروثی اتھارٹی اور میڈیا کی تخلیق کردہ شخصیت نہیں تھی‘ لیکن جو کچھ بھی ان کے ہاتھ آیا اس کے ساتھ جو کچھ کیا گیا‘ اس نے پارٹی کو سخت نقصان پہنچایا۔
بینظیر بھٹو نے 1980ء کی دہائی میں سوشلزم کو اس لئے پارٹی پروگرام سے نکال دیا تھا کہ اس کی وجہ سے ''لوگ‘‘ بدک جاتے ہیں‘ اور پارٹی ''الیکٹ ایبل‘‘ نہیں رہتی۔ پارٹی کی نظریاتی اساس کو غرق کرنے کے بعد جو اقتدار ملے‘ ان کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ اس سے عوام میں جو مایوسی، بدظنی اور سیاست سے بیزاری پیدا ہوئی‘ اس کا خمیازہ ہم موجودہ اقتدار کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔ محنت کش طبقے کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر ''الیکٹ ایبل‘‘ ہونے کے لئے سرمایہ داری، نجکاری، ریاستی اسٹیبلشمنٹ سے مصالحت اور سامراج کی اطاعت کی جو پالیسیاں اختیار کی گئیں‘ اس سے پیپلز پارٹی کا وجود ہی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ رہی سہی کسر قیادت کی بدعنوانی، کرپشن اور نااہلی نے پوری کر دی۔ پیپلز پارٹی کی تنظیمی، سیاسی اور نظریاتی شکست و ریخت آج انتہا کو پہنچ چکی ہے۔
سندھ کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ضلع بدین میں ذوالفقار مرزا کے کلین سویپ سے پیپلز پارٹی کے ''سندھ کارڈ‘‘ پر شدید ضرب پڑی۔ زرداری اور ان کے حواری کوئی نہ کوئی ''کارڈ‘‘ کھیلنے کی کوشش کرتے رہیں گے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ ریاستی اور سامراجی آقائوں سے ساز باز کے باوجود، جب کسی پارٹی کی سیاست ہی قیادت کی کرپشن کے دفاع تک محدود ہو جائے تو اس کی ساکھ عوام میں کب تک قائم رہ سکتی ہے؟ اقتدار کی مراعات اور مال میں حصہ داری سے کتنوں کو راضی رکھا جا سکتا ہے؟
جہاں تک کرپشن کا تعلق ہے تو حکمران بھی اس سے پاک نہیں۔ کرپشن کے خلاف وقتاً فوقتاً سرگرم ہونے کا تاثر دینے والی ریاستی مشینری کیا خود کرپشن کے زنگ سے کھوکھلی نہیں ہو چکی؟ عوام سب جانتے ہیں‘ ان کے لئے کرپشن اب کوئی مسئلہ نہیں رہا‘ کیونکہ اس کرپٹ نظام میں انہیں کرپٹ حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں میں سے ہی انتخاب کا موقع ملتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ ووٹروںکی اکثریت ووٹ بیچنے کو ترجیح دیتی ہے۔
بدین میں ووٹ‘ ذوالفقار مرزا کی حمایت میں نہیں زرداری کے خلاف پڑے۔ مرزا صاحب اگرچہ خود اسی نظام کا حصہ اور اسی سیاست کے کھلاڑی ہیں لیکن زرداری پارٹی کے خلاف کوئی اور متبادل بھی موجود نہ تھا۔ زرداری ٹولہ اس شکست کا ذمہ دار ایجنسیوں کو ٹھہرا رہا ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہو سکتی ہے‘ لیکن پھر باقی سندھ میں ایجنسیوں نے یہ واردات کیوں نہیں کی؟ سندھ کے حکمرانوں کے پاس اس کا جواب نہیں ہے۔
ذوالفقار مرزا کا المیہ یہ ہے کہ وہ پارٹی کے بنیادی نظریات سے نابلد ہیں اور عاری بھی۔ وہ بے نظیر اور ذوالفقار علی بھٹو، دونوں کی ''نظریاتی‘‘ پالیسیوں کی بات کر رہے ہیں اور اس بنیادی حقیقت سے بے بہرہ ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی بنیادی معاشی پالیسی نیشنلائزیشن پر مبنی تھی‘ جبکہ بے نظیر کو فخر تھا کہ وہ ایشیا میں نجکاری متعارف کروانے والی پہلی وزیر اعظم ہیں‘ جبکہ دونوں پالیسیاں ایک دوسرے کی ضد ہیں‘ اسی معاشی پروگرام پر کسی پارٹی کا سیاسی اور سماجی کردار اور لائحہ عمل تشکیل پاتا ہے۔
شیخ رشید کی طرح اب ذوالفقار مرزا کی تڑی بازی کو گھٹیا سیاسی طنز و مزاح کا ذریعہ بنا کر کارپوریٹ میڈیا اپنی ریٹنگ بڑھانے میں مصروف ہے اور نئے نئے شوشے چھوڑے جا رہے ہیں۔ مرزا نے پہلے ارباب رحیم وغیرہ سے الحاق کیا، پھر پیر پگاڑا کی فنکشنل لیگ سے اتحاد بنایا‘ اور اب یہ بیان داغ دیا ہے کہ مرتضیٰ بھٹو کے خاندان کو اپنی ''نئی پارٹی‘‘ میں شامل کریں گے۔
یہ درست ہے کہ مرتضیٰ بھٹو کے المناک قتل کے بعد ان کی بیوہ غنویٰ نے بہت جدوجہد کی اور کر رہی ہیں، اپنی پیپلز پارٹی کو ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی بنانے کے بیانات بھی دیے اور سوشلزم کا تذکرہ بھی کئی بار کیا۔ لیکن وہ ایک طرف زرداری حاکمیت کے جبر اور دوسری جانب مالیاتی سیاست کے روایتی جغادریوں کے غلبے میں ریاستی تحفظ کے حصول کے واسطے متضاد کیفیت میں پھنس گئیں۔ علاوہ ازیں جمود کے ایسے منفی منظر میں ریڈیکل بیانات کے باوجود وسیع عوامی بنیاد حاصل کرنے کے امکانات کم تھے۔ معروضی حالات‘ سیاسی عوامل میں فیصلہ کن کردار کے حامل ہوتے ہیں۔ 30 نومبر 1967ء کے تاسیسی اجلاس میں چند سو کا مجمع دیکھ کر ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ ''بڑی تاریخی پارٹیوں کی شروعات اسی طرح چھوٹی ہوا کرتی ہے‘‘۔ بعد ازاں پیپلز پارٹی کا ابھار 1968-69ء میں عوامی قوت کے طور پر ہوا تھا‘ جب ملک کے طول و عرض میں انقلابی طوفان برپا تھا۔ چیئرمین بھٹو کسی سیاسی وراثت کے ذریعے یا اپنے والد شاہ نواز بھٹو کے نام پر مزدوروں، کسانوں اور نوجوانوں کے رہنما نہیں بنے تھے، بلکہ اس کے برعکس انہوں نے کئی مرتبہ اپنے خاندانی اور طبقاتی پس منظر کو مسترد کرتے ہوئے اس سے بغاوت کا اعلان کیا تھا۔ یہ سوشلزم اور روٹی، کپڑا، مکان کے نعرے تھے جنہوں نے ایک انقلابی تحریک کی باگ ڈور بھٹو کے ہاتھ تھما دی تھی۔
زرداری پارٹی موروثی بنیادوں پر بلاول کو ابھارنے کی کوشش میں ہے‘ لانچنگ میں کافی گڑ بڑ بھی ہوئی ہے۔ بلاول بھی اس نظریے کا نام لینے پر تیار نظر نہیں آتا‘ جس کی بنیاد پر پیپلز پارٹی عوام کی روایت بنی تھی۔ لیکن وہ اگر سوشلزم کا نام لے بھی‘ تو ضروری نہیں کہ فوراً اپنے نانا کی طرح مقبول ہو جائے۔ بدعنوانی کا جو پُشتارہ وہ اٹھائے پھر رہا ہے اس کے پیش نظر پارٹی کی ساکھ میں جزوی بحالی کے امکانات بھی واضح نہیں۔
ذوالفقار مرزا اور پیپلز پارٹی قیادت کے مخالف دوسرے دھڑے جلد از جلد ایک بڑی پارٹی بنانا چاہتے ہیں اور اقتدار میں آکر عوام کے حالات ٹھیک کرنے کے دعویدار بھی ہیں۔ مگر ان کے پاس کوئی ٹھوس نظریہ، لائحہ عمل اور برداشت کا جوہر نہیں ہے۔ فاطمہ بھٹو کچھ نہ سمجھ آنے والی وجوہ کی بنا پر سیاست سے کنارہ کش ہیں۔ اسی طرح ذوالفقار جونیئر کی دلچسپی سیاست میں کم ہی محسوس ہوتی ہے۔ ذوالفقار مرزا انہیںکسی نئی پارٹی میں شامل کرکے سیاست میں متحرک کرتے ہیں تو بھی واضح رہنا چاہیے کہ ریت کی دیواروں پر حالات کا رخ موڑ دینے والی ٹھوس سیاسی تحریکیں استوار نہیں کی جا سکتیں۔ شہادتوں اور قربانیوں پر مبنی موروثی لیڈروں کے زور پر مریدین تو مل سکتے ہیں لیکن سیاسی کارکن اور نظریاتی کیڈر نہیں بنائے جا سکتے۔ پارٹیاں نظریات پر بنتی ہیں، نظریات پارٹیوں کے مطابق نہیں ڈھالے جا سکتے۔ ذاتی رنجش اور انفرادی نفرت پر مبنی مختلف شخصیات کا اتحاد عوام کو کوئی متبادل نہیں دے سکتا۔
زوال پذیری کے بعد پیپلز پارٹی جس نہج پر آج پہنچی ہے اس سے کھرب پتی پارٹی قیادت اور اس کے ارب پتی حواریوں کو تو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا لیکن غربت، بیروزگاری اور محرومی میں گھرے عوام کی سیاسی نمائندگی کا خلا تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی پر براجمان سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور ضیا الحق کی باقیات نے محنت کشوں کی منزل کے نشاں مٹا دینے کی ہر ممکن کوشش کی ہے‘ لیکن شدت اختیار کرتے ہوئے طبقاتی تضادات ‘محنت کش طبقے کو ناگزیر طور پر طبقاتی شعور اور ادراک دے رہے ہیں۔ وہ بخوبی آگاہ ہیں کہ سرمائے کی اس سیاست پر حاوی تمام مذہبی، سیکولر اور لسانی پارٹیاں حکمران طبقے کی نمائندہ ہیں۔ لیکن اس سماج کے مستقبل کا حتمی فیصلہ‘ معاشرے کا مزاج اور سیاست کا کردار یکسر بدل ڈالنے والی تحریک ہی کرے گی۔ محنت کش طبقے کے تاریخی مفادات کی نمائندہ انقلابی قوت کو منزل کے راستے خود تراشنے ہوں گے۔؎
ہم خود تراشتے ہیں منازل کے سنگ راہ
ہم وہ نہیں جنہیں زمانہ بنا گیا!