"DLK" (space) message & send to 7575

کرپٹ نظام میں کرپشن کا شور!

پچھلے چند برسوں کے دوران بڑھتے ہوئے عدم استحکام سے اس ملک کے حکمرانوں کی آپسی الزام تراشی، ہلڑ بازی اور تکرار میں بھی شدت آ گئی ہے۔ سیاسی ٹکرائو اگرچہ ایک 'حد‘ میں رہ کر کئے جاتے ہیں، لیکن بڑھ گئے ہیں۔ ایک تواتر کے ساتھ حکمران ریاست اور سیاست کے داخلی اور آپسی تضادات پھوٹتے ہیں اور سماج میں جمود کے باوجود جو ارتعاش جاری ہے جس کا اظہار بالائی ڈھانچوں میں ہوتا ہے۔ 
سندھ حکومت کا رینجرز کے اختیارات محدود کرنے کا اقدام، محدود پیمانے پر ہی سہی لیکن سماج کے بالائی ڈھانچوں کے آپسی تصادم کا اظہار ہے۔ ظاہری طور پر اسے ''جمہوریت‘‘ کی بالادستی بنا کر پیش کیا جا رہا ہے‘ لیکن یہ بھی کوئی راز نہیں رہا کہ پیپلز پارٹی اور سندھ کی صوبائی حکومت پر براجمان ٹولے کا مقصد اور محور زرداری اور اس کے حواریوں کی بدعنوانی اور کرپشن کو تحفظ فراہم کرنا ہی رہ گیا ہے۔ ''جمہوریت‘‘ کے نام پر عوام کا جو معاشی اور سماجی بلادکار ہوا ہے اور ہو رہا ہے اس کے پیش نظر حکمران طبقے کی سیاست سے لوگوں کا اعتبار ہی اٹھ گیا ہے۔ جمہوریت کا لفظ المناک مذاق بن گیا ہے۔ پیسے، بدعنوانی، دھونس اور ضمیر فروشی کی اس سیاست سے اکتاہٹ اور حقارت وسیع تر عوامی نفسیات میں سرایت کر گئی ہے۔ پچھلے سال PEW ریسرچ سنٹر کی جانب سے کئے گئے ایک عالمگیر سروے کے مطابق پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں سیاست میں عوام کی مداخلت کم ترین ہے، صرف 12 فیصد آبادی سیاست میں کچھ دلچسپی یا عملی سرگرمی رکھتی ہے اور صرف 4 فیصد لوگ خود کو کسی سیاسی پارٹی کا سرگرم کارکن سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس عرب انقلاب کی پسپائی کے باوجود مصر میں یہ شرح بالترتیب 53 فیصد اور 41 فیصد تھی۔ 
جہاں تک رینجرز کا تعلق ہے تو کارپوریٹ میڈیا، ریاستی دانشوروں اور دائیں بازو کے سیاست دانوں کی گفتگو سے محسوس ہونے لگا ہے کہ ان کے پاس جادو کی کوئی چھڑی ہے جسے گھما کر جرائم، کرپشن اور خونریزی کا خاتمہ کیا جا رہا ہے۔ تاثر یہی دیا جا رہا ہے کہ کراچی کے عوام نے سکھ کا کچھ سانس لیا ہے۔ کاروباری اور درمیانے طبقے کے لئے تو شاید یہ درست ہو لیکن کروڑوں محنت کش تو دن بھر مزدوری کرتے ہیں اور زندگی کی ہر ذلت کا شکار بھی ہیں، ان کے حالات کوئی بہتر ہوئے ہیں؟ جنہیں پینے کا پانی خریدنا پڑتا ہے، دو وقت کی روٹی کے لئے جو ترستے ہیں، بیماری میں علاج کے وسائل نہیں، تعلیم جن کے بچوں کے لئے خواب بن چکی ہے، اجرتوں میں مسلسل کمی اور مہنگائی میں اضافہ ہے، ہر آنے والا دن گزرے ہوئے کل سے تلخ ہے، اس بھاری اکثریت کو معاشی جارحیت کے اس نظام میں کوئی آسودگی مل سکتی ہے؟
جمہوریت آمریت کی بے معنی تکرار اس کھوکھلی سیاست میں مسلسل جاری ہے جس کے پاس نان ایشوز بھی کم پڑ چکے ہیں۔ آئین، قانون اور مروجہ سیاسی ڈھانچوں سے عوام کا کوئی تعلق ہے نہ انہیں کوئی غرض۔ حقیقت یہ ہے کہ ان سیاسی پارٹیوں کا نحیف سا وجود صرف میڈیا کے بل بوتے پر قائم رکھا جا رہا ہے۔ معاشرے میں ان کی جڑیں موجود ہی نہیں ہیں۔ ایسے میں سیاسی اشرافیہ کے یہ جغادری کب تک فضا میں معلق ہو کر ٹیلی وژن کے ذریعے سماج پر مسلط رہ سکتے ہیں؟ اب تو مڈل کلاس نے بھی ٹاک شوز دیکھنا چھوڑ دیے ہیں۔ 
سیاست کے اس تعفن اور بوسیدگی کی بنیادی وجہ مسلسل تنزلی کا شکار یہ معیشت ہے جس کا غیر اعلانیہ دیوالیہ عرصہ قبل نکل چکا ہے۔ قرضوں کے سٹیرائیڈز پر اسے چلایا جا رہا ہے لیکن یہ سلسلہ ہمیشہ کے لئے چل نہیں سکتا۔ بدعنوانی اور جرائم کا کالا دھن پاکستان کی معیشت کا بنیادی ستون ہے جس کے ذریعے رہی سہی معاشی سرگرمی جاری ہے۔
کرپشن کی اس سیاست میں سب سے زیادہ شور بھی ''کرپشن کے خاتمے‘‘ کا مچایا جاتا ہے۔ جوں جوں یہ واویلا بڑھتا جا رہا ہے، کرپشن بھی خوب ترقی کر رہی ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ریاست کا داخلی انتشار اور زوال پذیری بھی بڑھ رہی ہے۔ ریاستی رِٹ کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ بجلی کے بِلوں کی وصولی کے لئے بھی 'آپریشن‘ کرنا پڑتا ہے۔ جمہوریت کی اس ناکامی میں بہت سے تجزیہ نگار فوج کو مسلسل خراج تحسین پیش کر رہے ہیں، اس طرح عوام کی پسماندہ پرتوں میں فوج کے براہ راست اقتدار میں آنے کی 'رائے عامہ‘ استوار کی جاتی ہے‘ لیکن فوج کے سنجیدہ پالیسی ساز کچی گولیاں نہیں کھیلتے۔ وہ بخوبی جانتے ہیں شدید بحران کے شکار معاشرے میں براہ راست اقتدار خود کشی کے مترادف ہے۔ مارشل لا لگ تو جائے گا، لیکن چلے گا کیسے؟ ویسے بھی جو اختیارت، مراعات اور کاروبار میں مداخلت انہیں اس وقت حاصل ہے، ایسے میں کوئی مہم جوئی کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ 
پیپلز پارٹی کی کرپشن تو ضرب المثل کا درجہ اختیار کر چکی ہے لیکن نواز لیگ، تحریک انصاف اور دوسری پارٹیوں نے بھی کسر کوئی نہیں چھوڑی۔ طریقہ واردات بہرحال مختلف ہو سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی پر ہاتھ ڈالنے سے اسی لئے گریز کیا جاتا ہے کہ سلسلہ چل نکلا تو پتا نہیں کہاں تلک جائے گا کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ سیاست میں بدعنوانی کی بھرمار ہے تو کمی دوسرے ''معتبر‘‘ ریاستی اداروں میں بھی نہیں ہے۔ بدعنوانوں سے بدعنوانی کا خاتمہ کروانے سے اس کا حجم مزید پھیلتا ہی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ایک نظام کے ایک شعبے کو 'ولن‘ اور دوسرے کو ہیرو بنانے کا یہ ناٹک کب تک چلے گا؟ کالا دھن خون کی طرح گردش کر کے اس نظام کو زندہ رکھے ہوئے ہے‘ لیکن اس طرح کے ناٹک مسلسل جاری رکھ کے عوام کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ انہیں لوٹنے والوں کا 'احتساب‘ ہو 
رہا ہے۔ آف شور بینکوں میں پڑے سینکڑوں، یا شاید ہزاروں ارب ڈالر تو واپس آنے سے رہے۔ اس حقیقت سے عوام بھی بخوبی آشنا ہیں، لہٰذا حکمران طبقے کے کسی دھڑے پر انہیں کوئی یقین اور اعتماد نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ لٹیروں کی ان آپسی لڑائیوں سے، جو جمہوریت اور آمریت یا پھر لبرل ازم اور مذہب کے لیبل لگا کر لڑی جائیں، آبادی کی وسیع اکثریت کو کوئی سروکار نہیں ہے۔ 
موجودہ صورتحال اس قدر نازک ہے کہ حکمران چہرے بدلنے سے بھی خوفزدہ ہیں۔ ریاستی ڈھانچے اس قدر زنگ آلود اور کھوکھلے ہو چکے ہیں لیکن ہلکا سا جھٹکا انہیں گرا سکتا ہے۔ یہ جھٹکا نیچے سے اٹھنے والی بغاوت بھی ہو سکتی ہے، اور اوپر کے تضادات کا ایک خاص حد سے بڑھ جانا بھی۔ حکمران طبقے کے سنجیدہ پالیسی ساز بھی حیران ہیں کہ ''بات اب تک بنی ہوئی ہے‘‘۔ اسی لئے بندر بانٹ کی چپقلش میں کوشش کی جاتی ہے کہ بڑھک بازی تک ہی محدود رہا جائے وگرنہ استحصال اور ڈاکہ زنی کا پورا نظام ہی دھڑام ہو سکتا ہے۔ سوال ہے کہ آگے کیا ہو گا؟ ایک طرف نظام زر اور اس کے اداروں کی مزید ٹوٹ پھوٹ یا انہدام معاشرے کو وحشت اور بربریت کی جانب دھکیل سکتا ہے۔ دوسری ممکنہ صورت یہ ہے کہ محنت کش طبقہ اور نوجوان اس پسپائی سے سنبھل کر بغاوت کر سکتے ہیں۔ بربریت یہاں بچی کھچی تہذیب ہی مٹا دے گی‘ جبکہ محنت کشوں اور نوجوانوں کی تحریک ایک انقلاب میں بدل کر ریاست، سیاست اور معیشت کے نئے ڈھانچے تعمیر کرے گی، جن کے تحت محرومی سے پاک بلند تہذیب و تمدن کا حامل سماج پروان چڑھے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں