کرپشن کا موضوع ٹیلی وژن پر مسلسل ایک ایشو بنا ہوا ہے۔ کئی پروگرام تو صرف ''کرپشن بے نقاب‘‘ کرنے کے لئے وقف نظر آتے ہیں۔ جب کوئی دوسرا ایشو نہ ہو تو ایسے موضوعات کو ہی حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
نیب پر وزیر اعظم نواز شریف کی تنقید سے کرپشن کا ایشو پھر سے بھڑک اٹھا ہے۔ جب سے یہ ملک بنا ہے کوئی ایسا وقت اور کوئی ایسی حکومت نہیں رہی جس میں بدعنوانی نہ ہوئی ہو۔ معیشت اور ریاست کی زوال پذیری کے ساتھ یہ عمل شدت پکڑتا گیا ہے۔ حالیہ سالوں پر اس پر کچھ زیادہ ہی شور مچنا شروع ہو گیا ہے۔ طرح طرح کے اینٹی کرپشن ادارے بنے، مہمات چلائی گئیں لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکمران اور ان کے ذرائع ابلاغ جتنا زیادہ شور مچاتے ہیں کرپشن اتنی ہی پھلتی پھولتی ہے۔
ریاست کا ہر ادارہ کرپٹ ہے، سماج کے رگ و پے میں کرپشن سرایت کئے ہوئے ہے، سیاست اور صحافت میں اس کی بھرمار ہے۔ بڑے بڑے ''ایماندار‘‘ حکمران شریک اقتدار ہو کر کرپشن کے ہاتھوں ہی بدنام ہوئے۔ ان میں کچھ نے شاید اتنی بھاری کرپشن نہ کی ہو، لیکن پانی میں رہ کر گیلے تو سبھی ہوتے ہیں۔ مختلف 'نظریات‘ اور رجحانات کی حکومتیں یہاں موجود رہی ہیں، فوجی آمریتیں بھی اور جمہوریت بھی، ملاں بھی اور لبرل بھی، لیکن بدعنوانی سے کوئی بچ نہیں سکا۔ ایسے میں اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی، یا پھر سمجھا بھی گیا ہے تو پردہ پوشی کی جاتی ہے کہ اتنے متضاد طرز حکومت کے باوجود ہر اقتدار میں کرپشن اگر مسلسل پھلتی پھیلتی رہی ہے تو کوئی مشترک قدر ہر حاکمیت میں موجود رہی ہے۔ یہ مشترک قدر کیا ہے؟ آج معاشرے کی شریانوں میں خون بن کے دوڑنے والے اس زہر کا ماخذ کیا ہے؟ کرپشن کیا نظام کو خراب کرتی ہے یا پھر یہ نظام کرپشن کو پیدا کرتا ہے؟ بدعنوانی کی کیا کیا اشکال ہیں اور کیا معیار ہیں؟ کیا معاشرے کی کم یا غیر مراعت یافتہ پرتوں سے تعلق رکھنے والے شوق سے کرپشن کرتے ہیں؟ ذرا غور کیا جائے تو ایسے سوالات بہت تکلیف دہ بن جاتے ہیں۔
کرپشن محض اخلاقیات کا معاملہ نہیں‘ جیسا کہ اس نظام کے 'اہل دانش‘ پیش کرتے ہیں۔ کوئی روٹی روزی کے لئے کرپشن کرتا ہے تو کوئی بچوں کی تعلیم کے لئے ہیرا پھیری کر لیتا ہے۔ کسی کو مستقبل میں کچھ استحکام کی ضمانت چاہئے تو کسی نے اپنے بزرگوں کا علاج کروانا ہے۔ غرضیکہ جس معاشرے میں محرومی اس قدر بڑھ جائے، انسان سماجی اور اقتصادی ذلت میں مسلسل ڈوبتے چلے جا رہے ہوں، وہاں لوگوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ''دیانتداری‘‘ کے پیش نظر بھوکے اور لاعلاج مرنا پسند کریں گے بڑی احمقانہ سوچ ہے۔
جس معاشرے میں بھی معیشت اور ریاست بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی میں ناکام ہو جاتے ہیں اور کوئی وسیع عوامی تحریک سماج کو یکسر بدل ڈالنے کے لئے ابھر نہ رہی ہو، تو ایسے حالات میں افراد اتنے مجبور اور بے دھڑک ہو جاتے ہیں کہ جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے ہر جائز و ناجائز راستہ اپناتے ہیں۔ جب شناختی کارڈ سے لے کر ایف آئی آر تک، رشوت کے بغیر کچھ بھی ممکن نہ رہے تو انسان کیا کرے؟ انصاف کے دروازوں کو کھٹکھٹانا تو دور کی بات، ان تک رسائی کا راستہ بھی جب کرپشن سے ہو کر گزرتا ہو تو بدعنوانی معمول ہی بن جاتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان مصائب اور مجبوریوں کو جنم دینے والا کون ہے؟ اس محرومی اور ذلت کا ذمہ دار کون ہے؟
عام طور پر کرپشن کی بات ہوتی ہے تو اسے واپڈا کے لائن مین، سرکاری کلرک، وکیل کے منشی یا پولیس کانسٹیبل کے ساتھ نتھی کر دیا جاتا ہے۔ اب چونکہ حکمرانوں کے آپسی تضادات کے پیش نظر کافی شور مچ گیا ہے، میڈیا کی ریٹنگ کا بھی مسئلہ ہے لہٰذا بڑے افسران، سیاست دانوں‘ حتیٰ کہ سابق جرنیلوں کی کرپشن کا تذکرہ بھی مل رہا ہے۔ لیکن پھر یہ کرپٹ اشرافیہ اپنے ہی طبقے کے مخالف دھڑوں کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ ہر سیاسی پارٹی دوسری کو کرپٹ قرار دیتی ہے، ایسے میں یہ بحث لایعنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ پھر جب کوئی تحریک ابھرتی ہے یا عوام کا کوئی ایشو زور پکڑتا ہے تو کرپشن کا ایشو ایک نئی شدت کے ساتھ ابھارا جاتا ہے۔ محروم طبقات کے لئے کرپشن اگرچہ مجبوری ہے لیکن حکمران طبقات کے لئے یہ ایسی بدمست ہوس جس کے بغیر وہ اپنا بالادست سماجی وجود اور پُرتعیش زندگی ہی برقرار نہیں رکھ سکتے۔
یہ بھی ایک فریب ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں کرپشن نہیں ہوتی۔ اس کی تعریف، طریقہ کار اور اشکال مختلف ہو سکتی ہیں لیکن بڑی معیشتوں میں کرپشن بھی بھاری ہوتی ہے۔ مثلاً ٹیکس چوری ہی کی مثال لی جا سکتی ہے، ملٹی نیشنل کمپنیاں امیر ممالک میں اربوں ڈالر کے ٹیکس ہر سال چوری کرتی ہیں‘ لیکن ان ممالک میں چونکہ محرومی کی شدت یہاں جیسی نہیں ہے لہٰذا سرکارمی محکموں یا روزمرہ زندگی میں یہ مسئلہ زیادہ اجاگر نہیں ہوتا۔
جب معاشی نظام کا تاریخی کردار ہی محرومی میں مسلسل اضافہ بن جائے تو اس پر قائم معاشرہ کبھی بھی شفاف اور مستحکم نہیں ہو سکتا۔ اس نظام میں کرپشن کے خاتمے کی باتیں محض دھوکہ دہی اور فریب ہے‘ لیکن جبر و استحصال میں مسلسل اضافے سے کبھی انتشار، کبھی رجعت اور بعض غیر معمولی حالات میں مخصوص کیفیات کے تحت انقلابات جنم لیتے ہیں؛ تاہم عام حالات میں جب آگے کا راستہ نظر نہ آئے تو لوگ ماضی میں پناہ تلاش کرتے ہیں۔
پاکستان جیسے پسماندہ ممالک کا حکمران طبقہ اپنے جنم سے ہی کنگال اور بدعنوانی کے بغیر اپنی شرح منافع ہی برقرار رکھنے سے قاصر تھا۔ ایسے میں سرکاری خزانے لٹتے گئے، بینکوں کے قرضے معاف ہوتے گئے، بجلی اور گیس کی چوری ان صنعتکاروں کی جبلت بن کے رہ گئی جو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر یہاں کے سیاسی حاکم بھی ہیں۔ یہ ٹیکس دینے کی بجائے ریاست سے ٹیکس لینے والا طبقہ ہے۔ اس سے نہ صرف ریاست کنگال ہوئی بلکہ ریاستی اہلکار بھی اس بہتی گنگا میں غوطے لگانے لگے۔ بالخصوص افغانستان میں جہاد کے آغاز کے بعد، منشیات اور دوسرے جرائم کا کالا دھن بڑے پیمانے پر معیشت میں سرایت کرنے لگا‘ جس سے ایک متوازی سیاہ معیشت پروان چڑھی اور ریاستی مشینری کو کھوکھلا کرتی چلی گئی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ کالے دھن کا حجم سرکاری معیشت سے بھی بڑا ہے اور کرپشن کے بغیر منڈی کا یہ سائیکل چل ہی نہیں سکتا جس پر یہ نظام کھڑا ہے۔
جو نظام کرپشن کے زور پر چلتا ہو وہ بھلا کرپشن کو کیسے مٹا سکتا ہے؟ کرپشن، بدعنوانی، جرائم اور دھاندلی اس نظام کی ناگزیر پیداوار ہیں جو تاریخی طور پر متروک ہو کر کوئی صحت مند سماجی کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ کرپشن کے اس نظام کا خاتمہ ہی کرپشن سے نجات کی ضمانت بن سکتا ہے۔