"DLK" (space) message & send to 7575

وجود زن کب ہو گا آہن؟

پنجاب اسمبلی میں پاس ہوکر قانون بننے والا 'وومن پروٹیکشن بل‘ (خواتین کی حفاظت کا بل) سیاسی اور مذہبی تنازعے کا باعث بن رہا ہے۔ ہر ذی شعور اور نارمل انسان اسے یقینا مثبت اقدا م ہی سمجھے گا لیکن مذہبی سیاست کرنے والے اس کے خلاف مسلسل بیان بازی کر رہے ہیں۔ اس قانون کے مطابق گھریلو مار پیٹ، نفسیاتی تضحیک، معاشی جبر اور جنسی طور پر حراساں کرنے جیسے اعمال کو خواتین پر تشدد کے زمرے میں رکھا جائے گا اور اس پر سزا دی جا سکتی ہے۔ ایسے واقعات رپورٹ کرنے کے لئے ادارے قائم کیے جائیں گے اور دوسرے متعلقہ اقدامات کئے جائیں گے۔ 
رجعتی عناصر اس قانون کے خلاف قدامت پرستی اور مردانہ تسلط پر مبنی سوچ ابھارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لئے مردانہ جبر کو مذہبی عقائد اور ثقافت کی پسماندہ اقدار کے ذریعے فروغ دیا جارہا ہے۔ ذلت اور محرومی سے بھرے اس معاشرے میں خواتین کی زندگی پہلے ہی بہت تلخ ہے۔ وہ دوہرے استحصال کا شکار ہیں۔ مذہب کے نام پر انہیں چادر اور چار دیواری میں قید کرنا بنیادی طور پر عورت کو ملکیت اور جنس سمجھنے والی نفسیات کی عکاسی ہے جس کو استعمال کے بعد تجوری یا گھر میں ''تحفظ‘‘ دینے کی بات کی جاتی ہے۔ یہ ملاں اس حقیقت کو بھی فراموش کر دیتے ہیں کہ حکمران یا بالائی متوسط طبقے میں تو اس چادر اور چار دیواری کے لئے مالیاتی وسائل دستیاب ہوتے ہیں لیکن محنت کش اور غریب طبقات کے پاس اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ عورت کو صرف گھریلو مشقت تک محدود کر کے گھر چلایا جاسکے۔ محنت کش خواتین کے علاوہ اب تو تیز معاشی تنزلی کی شکار مڈل کلاس میں بھی اجرتی محنت خواتین کی مجبوری بن چکی ہے۔ 
مردانہ تعصب اور تسلط کی نفسیات ایک مخصوص سطح پر ذہنی بیماری اور سماج دشمنی کی شکل اختیار کر لیتی ہے کیونکہ یہ رویہ تہذیب اور انسانیت کی تاریخ سے ہی متصادم ہے۔ لیکن معیشت کا بحران سماجی بحران بن جاتا ہے اور وقت کے ساتھ ثقافت کی تنزلی میں بھی اپنا اظہار ناگزیر طور پر کرتا ہے۔ ایسے میں مرد اپنی فرسٹریشن بیشتر اوقات عورت پر تشدد کر کے نکالتے ہیں۔ لیکن یہ مسئلہ صرف معیشت تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ہر طبقے میں اس تشدد کے رجحانات پائے جاتے ہیں۔ یہ پورے معاشرے کی بیماری ہے جو سماج کی عمومی زوال پذیری کی علامت ہے۔ اس کی بنیادی وجہ رائج الوقت اقتصادی اور سماجی نظام کی ناکامی اور نامرادی ہے کیونکہ یورپ وغیرہ کے برعکس تیسری دنیا میں سرمایہ داری کی نحیف اور مسخ شدہ جدت جب پسماندگی کو مٹا نہیں پاتی تو پسماندگی زیادہ بھیانک ہو کر سامنے آتی ہے اور سماج جدت اور پسماندگی کا عجیب ملغوبہ بن جاتا ہے۔ یہ کیفیت گھٹن، تعفن، پراگندگی اور پرتشدد رویوں کو جنم دیتی ہے۔ تعلقات منافقت اور خود غرضی سے زہر آلود ہو جاتے ہیں۔ 
ملائوں کا یہ مفروضہ سراسر بے بنیاد ہے کہ ''ہمارے‘‘ خاندانی ڈھانچے کو اس قانون سے کاری ضرب لگے گی۔اس نام نہاد خاندانی ڈھانچے میں پہلے کونسا خلوص، رضاکارانہ احترام اور سچائی پر مبنی جذبات باقی رہ گئے ہیں؟زر کی سرایت نے ہر ناطے کو مطلب پرستی کے تابع کر دیا ہے، پیسہ ہی عظمت اور ذلت کا معیار بن چکا ہے، دولت کی بنیاد پر رتبے بنتے اور ٹوٹتے ہیں۔ایسے میں مخصوص تاریخی عوامل کے تحت عورت چونکہ پہلے سے سماجی، معاشی اور سیاسی طور پر کمزور پوزیشن میں ہے لہٰذا اس پر ڈھائے جانے والے نفسیاتی، جذباتی یا جسمانی ستم زیادہ شدت اختیار کر جاتے ہیں۔ 
قدامت پرست رجحانات کے برعکس لبرل حلقے ہیں جو مغرب میں عورت کی آزادی کا خوب شور مچاتے ہیں۔ یہ بذات خود ایک سراب اور دھوکہ ہے اور چادر اور چار دیواری کے سکے کا دوسرا رخ ہی 
ہے جہاں عورت کو بازار کی جنس بنا دیا جاتا ہے۔ اپنی ترقی یافتہ شکل میں سرمایہ داری انسان کو زیادہ بیگانگی کا شکار کر دیتی ہے۔ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں نہ صرف خواتین کی اجرتیں کم ہیں بلکہ معاشرے میں بھی ان کا کردار مجروح ہی ہے۔ جہاں کہیں صورتحال کچھ بہتر ہے تو ایسا بھی محنت کش طبقے، اور بالخصوص اس طبقے کی خواتین کی صدیوں پر مبنی جدوجہد کے نتیجے میں ہی ہے۔ اسی نظام کی مغربی اقدار میں عورت کے استحصال کی سب سے غلیظ شکل اسے اشتہاروں کی جنس بنانا ہے۔ یوں ملائیت اور لبرل ازم، اسی نظام کے رکھوالے ہیں اور ان میں عورت کا استحصال مختلف اور بعض اوقات متضاد طریقوں سے جاری رہتا ہے۔ 
اہم مسئلہ ہے کہ دولت کے یہ حکمران ایوان چاہے کتنے بل پاس کریں، کتنے ہی قانون جاری کریں، لیکن جس ریاستی مشینری نے ان پر عمل درآمد کروانا ہے اس کا اپنا کردار انتہائی رجعتی اور کرپٹ ہے۔ یہاں علاج اور تعلیم کی طرح انصاف بھی ایک بازاری جنس ہے جسے خریدنے کی سکت آبادی کی وسیع ترین اکثریت میں نہیں ہے۔ آئین اور قانون میں پہلے سے ہی مرد و زن پر جبرو تشدد اور کسی بھی انسان کو کسی بھی طریقے سے زدو کوب کرنے کی سزائیں موجود ہیں۔ ان پر آج تک کتنا عمل درآمد ہو پایا ہے؟ پیسے کے زور پر امرا ہمیشہ پارسا اور غریب ہمیشہ مجرم ہی ثابت ہوتے آئے ہیں۔ 
میڈیا اکثر اوقات حقیقی ایشوز کو بھی کچھ عرصے میں نان ایشوز بنا ڈالتا ہے۔ بنیادی حقائق اور وجوہ سے ہٹا کر بحث کا رخ ثانوی نکات اور ذاتی حملوں کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔ طبقاتی، قومی اور مذہبی جبر کی طرح جنسی جبر و استحصال بھی اس نظام میں بڑھ ہی سکتا ہے۔ ظلم کے خلاف اجتماعی جدوجہد کے بغیر اس سے نجات کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔ ایسے میں سطحی قوانین پر بالادست اور درمیانے طبقے کی خواتین یا ''سول سوسائٹی‘‘ کا جشن تو وقتاً فوقتاً جاری رہتا ہے لیکن فیکٹریوں، کھیتوں، امرا کے گھروں اور جھونپڑ پٹیوں میں دن رات زندگی کی ناقابل برداشت تلخیوں سے نبرد آزما خواتین کو شاید ان کی خبر بھی نہیں ہوتی۔ 
ٹراٹسکی نے لکھا تھا کی کسی بھی سماج کا بنیادی یونٹ ماں ہوتی ہے، جب تک ماں آزاد نہیں ہوگی سماج آزاد نہیںہو سکتا۔ عورت کی محرومی پورے معاشرے کی محرومی ہے۔عورت کی آزادی آخری تجزئیے میں اس کی معاشی آسودگی اور مشقت سے نجات سے مشروط ہے۔ اسی صورت میں وہ اپنی مرضی سے گھر کے اندر یا باہر ایک بھرپور سماجی کردار ادا کرسکتی ہے اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکتی ہے۔ موجودہ نظام میں ایسا نہ صرف ناممکن ہے بلکہ جوں جوں اس کا بحران بڑھے گا، بربادیوںمیں اضافہ ہی ہو گا۔ اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد عورت کی متحرک شمولیت کے بغیر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ انقلاب فرانس سے لے کر بالشویک انقلاب تک، محنت کش خواتین کا کردار نہ صرف ہراول تھا بلکہ ان دونوں انقلابات کا آغاز ہی خواتین نے کیا تھا۔ وجود زن طبقاتی جدوجہد سے آہنگ ہو کر ہی آہن ہو گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں