"DLK" (space) message & send to 7575

اقوام متحدہ: امن کا فریب!

اقوام متحدہ موجودہ نظام اور اس کے لیڈروں کی بہترین راہ ہائے فرار میں سے ایک ہے۔ دائیں بازو اور سٹیٹس کو پر یقین رکھنے والے بائیں بازو کے سیاست دانوں کا ایک گمراہ کن طریقہ کار رہا ہے کہ جب بھی تنازعوں اور سفارت کاری کے معاملات ان کے قابوسے باہر ہوجاتے ہیں تو وہ ان کو حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ میں لے جاتے ہیں۔ اگرچہ ان کو خود بھی اس ادارے پر اعتبار نہیں ہے ۔ یہ ادارہ معاملات کو طول دینے اور عوام کو دھوکہ دے کر انہیں ٹھنڈا کرنے اور ان تنازعات کے بوجھ اور اثرات کے ذریعے انہیں مطیع رکھنے کے لیے ہے۔ 
پاکستان میں اقوام متحدہ پچھلی سات دہائیوں سے کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہی اور مشرقی بنگال کی1971ء کی جنگ میں بھی مکمل نااہلی دکھائی۔ کشمیر پر لاتعدادقرار دادیں آئیں اور اس طویل دورانیے کے بعد معاملات حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہو گئے ہیں۔مگر آج بھی ان لوگوں کے لیے جنہوں نے کشمیری عوام کی مظلومیت کو ختم کرنے میں مکمل نااہلی دکھائی ہے، پھر فرار کا راستہ اقوام متحدہ ہی ہے۔ 
اسی طرح کی صورت حال ہمیں افغانستان میں نظر آتی ہے جہاں امریکہ سمیت سامراجی طاقتوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو اپنی جارحیت کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا۔ حتیٰ کہ افغانستان کی بائیں بازو کی حکومت کے آخری صدر نجیب اللہ، جسے طالبان نے قتل کیا، کو یہ غلط فہمی تھی کہ کابل میں اقوام متحدہ کے دفتر میں رہتے ہوئے اسے کچھ نہیں ہوگا۔ افغانستان کے بائیں بازو اور قوم پرست رہنمائوں کو یہ یقین تھا کہ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان میں اقوام متحدہ کی موجودگی سے اس تباہ حال ملک میں امن قائم ہوگا۔آج پندرہ سال بعد افغانستان کی صورت حال اس سوچ کی نفی کرتی ہے۔
خارجہ پالیسی ہمیشہ اور ہر جگہ داخلہ پالیسی کا ہی تسلسل ہے۔ بورژوا سیاست دان جو فلاحی ریاست کو ختم کر کے ٹریڈ یونین اور احتجاج کے حق پر حملہ کرتے ہیں، اوریہی حربہ بیرونی ممالک میں وہ بینکوں اور بڑی کارپوریشنوں کے منافعوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ''سفارتکاری‘‘ کا مطلب ہے کہ دنیا کے محنت کشوں ، بالخصوص سابقہ نوآبادیاتی ممالک میں، سے لوٹی گئی دولت کو کس طرح تقسیم کیا جائے۔ اقوام متحدہ اس عالمی سفارتکاری کے اظہار کے لیے صرف ایک فورم مہیا کرتا ہے۔
اقوام متحدہ پر بڑی سامراجی طاقتیں براجمان ہیں اور یہ صرف اس وقت کام کرسکتی ہے جب یہ سب طاقتیں آپس میں متفق ہوں۔ اقوام متحدہ کی فوجیں سکیورٹی کونسل تعینات کرتی ہے جس میں پانچ روایتی ایٹمی طاقتوں( فرانس، چین،روس، برطانیہ اور امریکہ) کے پاس ویٹو کا اختیار ہے۔ بہت کم ایسے فوجی تنازعات ہیں جہاں یہ تمام طاقتیں ایک ہی نقطے پر متفق ہوں ۔ نتیجتاً اقوام متحدہ شاذ و نادر ہی کسی جگہ مداخلت کرتی ہے۔
اقوام متحدہ میں سب سے جمہوری ادارہ جنرل اسمبلی ہے۔ اس اسمبلی میں تمام تسلیم شدہ ممالک کے پاس ووٹ کا حق ہے اور اس لیے امریکہ اور دوسری بڑی طاقتوں کی مرضی کے خلاف بہت سی قراردادیں پاس ہوئی ہیں۔ مثلاً امریکہ کی جانب سے کیوبا کی ناکہ بندی کی لاتعداد قراردادوں کے ذریعے اسمبلی نے مذمت کی۔لیکن اس سے امریکہ پابندیوں سے باز نہ آیا ۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کی رپورٹوں اور قراردادوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ دراصل ہر طرح کی ہارس ٹریڈنگ جاری رہتی ہے جس میں حمایتوں کا تبادلہ ہوتا ہے۔ ایک حالیہ سکینڈل میں برطانیہ نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل میں عرب ملک کی حمایت کی۔ پس پردہ معاہدے اور کرپشن بورژوا سفارتکاری اور خارجہ پالیسی کا حصہ ہیں۔ 'عالمی برادری‘ کے اکٹھ میں اقوام متحدہ کو ستر سال ہوچکے ہیں۔لیکن کیا اس تمام عرصہ میں یہ ادارہ اپنے امن قائم کرنے کے دعوے کو ثابت کرسکا ہے؟
اقوام متحدہ کوزیادہ تر سکیورٹی کونسل میں پابندیوں سے متعلق قراردادوں کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ تاہم مختلف تنازعوں میں اس کی اپنی فوجیں براہ راست مداخلت کرتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی براہ راست مداخلت کا یہی وہ میدان ہے جہاں یہ اپنی خودمختار حیثیت کا اظہار سب سے واضح انداز میں کرتی ہے اور اگر یہ امن اور مصالحت کی ایک ایماندار فوج ہوتی تو یہی وہ جگہ ہے جہاں اسے واضح طور پر کارکردگی دکھانا چاہیے۔ لیکن اس کے ریکارڈ سے واضح ہے کہ اقوام متحدہ محض بڑی طاقتوں کے مفادات کے مطابق چلتی ہے۔ جیسا کہ ٹیڈ گرانٹ نے کہا تھا کہ ''دوسری جنگ عظیم کے بعد متعدد جنگیں ہوئی ہیں لیکن ہر جنگ میں اقوام متحدہ کوئی مؤثر اقدام کرنے میں ناکام رہی ہے۔‘‘ اقوام متحدہ کی' قیام امن‘ کی فوجوں کی مثال ایک ایسے شخص کی مانند ہے جو سیلاب کو اپنے ہاتھوں سے روکنے کی کوشش کرے۔ اقوام متحدہ کی 'قیام امن‘ کی قوتیںجہاں انہیں تعینات کیا جاتا ہے، نہ صرف کمزور ہوتی ہیں بلکہ وہاںان کامقصد امن کا حصول نہیں بلکہ بڑی سامراجی طاقتوں کے مفادا ت کا تحفظ ہے۔ 
بہت سے لوگوں نے سعودی عرب کی اقوام متحدہ کے انسانی حقوق پینل کے سربراہ کے طور پر تعیناتی، اس بات کو مدنظر رکھے بغیر کہ اس سے خود اقوام متحدہ کی حیثیت کا کیا ہوگا، پر تنقید کی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ سعودیوں کو یہ عہدہ دینا ایران کے ساتھ حالیہ معاہدوں کے بعد مغربی طاقتوں کی جانب سے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے کی ایک کوشش ہے۔
ایٹمی عدم پھیلائو کا معاہدہ مختلف ممالک کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے نہیں روک سکا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے قائم کردہ ماحولیاتی تبدیلی کے معاہدوں کو تمام آلودگی پھیلانے والے ممالک معمول کے طور پر نظر انداز کرتے ہیں۔ اسرائیل اقوام متحدہ کی باتوں کو نظرانداز کرتا ہے۔ اقوام متحدہ سعودی بمباری کے نتیجے میں انسانی تباہی کی المناک رپورٹیں جاری کرتی ہے لیکن اس کے لیے کچھ بھی نہیں کیا جاتا کیونکہ امریکہ اس کی حمایت کرتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اقوام متحدہ کو تمام کیمیائی ہتھیار حوالے کرنے کے وعدوں کے باوجود بشار الاسد نے انہیں استعمال کیا ہو لیکن اس کے خلاف کچھ بھی نہیں کیا جائے گا کیونکہ بڑی طاقتیں کسی اقدام پر متفق نہیںہو پاتی ہیں۔ 1960ء کی دہائی میں سیکرٹری جنرل نے بہت زیادہ شور مچایا لیکن اقوام متحدہ نے ویتنام جنگ کی نہ مخالفت کی اور نہ اس کے لیے کوئی اقدام کیا کیونکہ امریکہ حملہ آور تھا۔
یہ بات واضح ہے کہ سرمایہ داری کے نہ ختم ہونے والے تشدد کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ کے پاس اپنی کوئی طاقت یا مفاد نہیں ہے۔ وہ لوگ جو دوسرے ممالک پر سامراجی حملوں کو قانونی جواز فراہم کرنے لیے اقوام متحدہ کی منظوری کی بات کرتے ہیں وہ یقین رکھتے ہیں کہ اس موضوع پر کافی بحث نہیں ہوئی ہے اور یہ کہ ہم بہت جلد بازی کررہے ہیں۔ اقوام متحدہ بڑی طاقتوں کے درمیان نہ ختم ہونے والے ناکام مذاکرات کراتی ہے جو کبھی بھی آپس میں متفق نہیں ہوںگے کیونکہ ان کے مفادات متصادم ہیں۔
اقوام متحدہ کی میزبانی میں ہونے والی بحثوں کے پاس کوئی جادوئی طاقت نہیں ہے۔ یہ صرف وقت لیتی اور سرمایہ دارانہ طاقتوں کے سامراجی عزائم کو سفارتکارانہ شکل دیتی ہے۔یہ دلیل کہ حکومت غلطی پر ہے کیونکہ اس نے جنگ پر جانے سے پہلے اقوام متحدہ میں ضروری بحث نہیں کی ہے ‘ میںایک بات نظر انداز کردی جاتی ہے کہ دیگر سامراجی طاقتوں سے اجازت لے لینے سے ایک سامراجی حملہ کم سامراجی نہیں رہ جاتا۔ اقوام متحدہ کی قرارداد یہ غلط فہمی پیدا کرنے کے لیے کہ جنگ ٹھیک ہے۔ ٹراٹسکی نے درست طور پر کہا ہے:
''بورژوا ریاستیں اپنے آپ کو امن کے ''دوستوں‘‘ اور 'دشمنوں‘ میں تقسیم نہیں کرتے، کیونکہ ایسا 'امن‘ وجود نہیں رکھتا۔ ہر سامراجی ملک اپنا امن قائم کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے اور جتنی زیادہ دلچسپی رکھے گا یہ اس کے دشمنوں کے لیے ناقابل برداشت ہوگا۔ سٹالن، بالڈوین، لیون بلم اور دوسروں کا مشترکہ مؤقف کہ 'امن اس وقت قائم ہوگا جب تمام ریاستیں لیگ میں اس کے دفاع کے لیے متحد ہوں گی‘ جبکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ امن اس وقت قائم ہوگا جب اس کی خلاف ورزی کی وجوہ کا خاتمہ ہوگا‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں