پچھلے ہفتوں میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلبا یونین کے صدر کنہیا کمار، جو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے یوتھ ونگ کے رہنمائوں میں سے ہیں، کی بغاوت کے الزام میں گرفتاری اور ضمانت پر رہائی نے طلبا کی بغاوت کو جنم دیا‘ اور اس صورتحال نے ایسی سیاسی سرکشی پیدا کر دی کہ ہندوستانی عوام کے حقیقی مسائل میڈیا میں ابھر کر سامنے آ گئے۔ تہاڑ جیل سے 5 مارچ کو رہا ہونے کے فوراً بعد کیمپس میں طلبا کے وسیع اجتماع سے جوشیلا خطاب کرتے ہوئے اس نے کہا، ''ہمیں ہندوستان سے نہیں بلکہ ہندوستان کے اندر آزادی چاہیے۔ ملک کے اندر بدعنوانیوں سے آزادی چاہیے۔ آج میں پوری قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ آزادی سے ہماری کیا مراد ہے۔ ہمیں سرمایہ داری، برہمنیت اور ذات پات کے نظام سے آزادی چاہیے۔ ہمیں ہندوستان سے نہیں بلکہ ہندوستان کو لوٹنے والوں سے آزادی چاہیے۔ ہمیں بھوک، غربت اور ذات پات کے نظام سے آزادی چاہیے۔ آپ حکومت کے خلاف بات کرتے ہیں اور وہ جعلی ویڈیوز سامنے لاتے ہیں۔ یہ ایک لمبی لڑائی ہے۔ ہم اس لڑائی میں نہیں جھکیں گے۔ سوشلزم فرقہ پرستی اور سرمایہ داری پر فتح مند ہو گا۔‘‘ کمار نے اسی جگہ پر تقریر کی جہاں اپنی گرفتاری سے ایک دن پہلے اس نے طلبا سے خطاب کیا تھا۔ اس نے اپنی ایک گھنٹے کی تقریر کا آغاز اپنے ہمنوائوں اور یونیورسٹی کا شکریہ ادا کرکے کیا۔
بی جے پی کی حکومت بری طرح ننگی ہو چکی ہے۔ انہوں نے اس معاملے کو ہندوستان کی سالمیت کے خلاف طلبا کی بغاوت کے طور پر پیش کیا، انہیں پاکستانی جاسوس قرار دیا اور الزام عائد کیا گیا کہ اس نے افضل گرو، ایک کشمیری علیحدگی پسند جسے دہشت گردانہ حملے کے الزام میں پھانسی دی گئی تھی، کی برسی کے موقع پر ہندوستان مخالف نعرے لگائے تھے۔ لیکن کنہیا کی گرفتاری کے بعد مختلف ریاستوں میں‘ یونیورسٹیوں میں طلبا کے خود رو مظاہرے شروع ہو گئے۔ 27 فروری کو مقبوضہ کشمیر کا دارالحکومت سری نگر طلبا کے احتجاج کی حمایت میں ہونے والی ہڑتال کی وجہ سے مکمل جام تھا۔ بی جے پی کی جانب سے اس کے خلاف مظاہرے کیے گئے‘ اور کنہیا کی عدالت میں پیشی کے وقت اس کے وکلا کو طلبا پر تشدد کرتے ہوئے فلمایا گیا۔ ان محب وطن وکلا نے کنہیا سے بھی بدسلوکی کی۔ بی جے پی کا ایک سیاست دان تو اتنا گر گیا کہ اس نے جے این یو کے بائیں بازو کے طلبا کو بدترین اخلاقی پستی کا مورد الزام ٹھہرایا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ ہر روز کیمپس سے دو ہزار شراب کے بوتل اور تین ہزار استعمال شدہ کونڈم ملتے ہیں۔ سماج کی وسیع پرتوں نے اس بات کی مذمت کی۔ اس بیہودہ بیان پر ہندوستانی میڈیا بھی پریشان ہو گیا۔ لیکن جب بی جے پی کی غلط بیانی اور فریب‘ اور میڈیا کا جھوٹ بے نقاب ہوا تو غم و غصے کی ایک لہر پیدا ہوئی۔ یہ بات سامنے آ گئی کہ میڈیا کی طرف سے چلائی جانے والی سات ویڈیوز میں سے دو تحریف شدہ تھیں۔
اگرچہ حالیہ دور میں متعدد ایسے واقعات ہوئے‘ جنہوں نے مودی سرکار کی ناک میں دم کر دیا‘ لیکن حالیہ واقعہ، جس میں بحران کو طبقاتی مسئلے کے ساتھ جوڑ کر عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا گیا، سالوں میں پہلی مرتبہ ہوا۔ مودی ایک آئوٹ سائڈر کی طرح ہو گیا ہے‘ اور 34 سالوں میں پہلی مرتبہ یک جماعتی حکومت کی سربراہی کرنے کے باوجود ایسا لگتا ہے جیسے وہ حزب اختلاف کی مہم چلا رہا ہو۔ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو مظلوم بنا کر پیش کرتا ہے۔ لیکن سماج میں اضطراب بہت بڑھ چکا ہے اور حکومت کے خلاف شدید نفرت موجود ہے۔ حکومت کا شہری مڈل کلاس کی نمائندگی کرنے کا دعویٰ بھی پیٹی بورژوازی کو لاحق بحران کی وجہ سے کمزور ہو گیا ہے۔ اگرچہ ہندوستان 7.4 فیصد کی شرح ترقی کے ساتھ چین کو پچھاڑ کر دنیا کی تیز ترین ترقی کرتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک ہے‘ لیکن اس سے عوام کو کچھ بھی نہیں ملا۔ لامحدود ترقی معیشت دانوں، کاروباریوں اور سیاست دانوں کی خام خیالی ہے۔ اسے ترقی کا پیمانہ مانا جاتا ہے۔ نتیجتاً مجموعی داخلی پیداوار (جی ڈی پی)، جو قوموں کی دولت کا پیمانہ ہے، ہمارے زمانے میں سب سے طاقتور عدد اور غالب
نظریے کے طور پر سامنے آیا ہے؛ تاہم معاشی نمو اپنی پیدا کردہ غربت کو چھپاتی ہے۔ اکانومسٹ اپنے تازہ شمارے میں لکھتا ہے، ''دنیا کی سب سے تیز ترقی کرتی بڑی معیشت ہونے کے باوجود ہندوستان کے پاس عام لوگوں کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ بڑھتی ہوئی افرادی قوت کے لیے یہ مزید روزگار پیدا نہیں کر رہی۔‘‘ ہندوستان کی بورژوازی، جو اس کے سب سے اہم سپانسرز تھے، بھی اس سے خوش نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے ان سے کیے ہوئے 'اصلاحات‘ کے اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔ حال ہی میں ارون شوری، جو سابق بی جے پی حکومت کا وزیر خزانہ تھا، نے مودی سرکار کا مذاق اڑایا‘ اور اسے ''کانگریس اور گائے‘‘ کا خطاب دیا۔
لیکن اس اونچی شرح نمو کے شور میں سماجی اور معاشی حالات مزید بگڑ رہے ہیں۔ 870 ملین لوگوں کے لیے زندگی کسی جہنم سے کم نہیں۔ غربت، بھوک اور محرومی مزید بڑھ گئی ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھ گئی ہے۔ جاپان سے زیادہ ارب پتی ہونے کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں دنیا کی غربت کا سب سے زیادہ ارتکاز بھی ہے۔ سماجی حالات اور انفراسٹرکچر کی کیفیت مشترکہ اور ناہموار ترقی کی واضح مثال ہے۔ ہندوستان کی بورژوازی صنعتی اور جمہوری انقلاب کا ایک فریضہ بھی ادا کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ اس کیفیت نے سماج کی نام نہاد جدیدیت اور پسماندگی کے درمیان تضاد کو مزید شدید کر دیا ہے۔ مذہبی جنونیت، کالا جادو اور توہمات اپنے عروج پر ہیں۔ فرقہ وارانہ اور مذہبی جھگڑے اور فسادات بڑھ گئے ہیں۔ سماجی انفراسٹرکچر کی حالت یہ ہے کہ صاف پانی، نکاسیء آب اور حفظان صحت آبادی کی بڑی اکثریت کے لیے ایک ناقابل
برداشت عیاشی بن گئی ہے۔ واٹر ایڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ''اگر گھریلو ٹوائلٹ کے باہر کھڑے ہوئے ہندوستان کے لوگ ایک لائن میں لگ جائیں تو یہ لائن زمین سے چاند تک، حتیٰ کہ اس سے بھی آگے، جائے گی کیونکہ ہندوستان میں 774 ملین لوگوں کے پاس اپنا ذاتی ٹوائلٹ نہیں ہے۔ اگر ہر شخص ٹوائلٹ میں چار منٹ بھی رہے تو اس لائن کو ختم ہونے میں 5892 سال لگیں گے۔ نکاسی آب کی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے صحت کا بحران ایک سنجیدہ مسئلہ ہے کیونکہ ہر سال پانچ سال سے کم عمر کے 140000 بچے ڈائریا کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔‘‘
سیاسی افق پر حاوی اپوزیشن کے پاس ان سرمایہ دارانہ پالیسیوں کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ بائیں بازو کی قیادت نے جمہوریت اور سیکولرازم کے نام پر ہندوستانی عوام کے مسائل کو سوشلسٹ تبدیلی کے ذریعے حل کرنے کے فریضے کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ نریندر مودی کا ابھار اس پالیسی کی ناکامی ہے‘ لیکن یہ صورت حال عوام کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ ہندوستانی پرولتاریہ نے ستمبر 2015ء میں ایک عام ہڑتال کی‘ جس میں پندرہ کروڑ مزدور شریک ہوئے۔ یہ تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتال تھی۔ قیادت نے اسے آگے لے جانے سے انکار کر دیا۔ میڈیا نے مزدوروں کی اس ہڑتال کی خبر کو دبایا‘ لیکن جے این یو کی بغاوت شہ سرخیوں میں آ گئی کیونکہ یہ واقعہ ملک کی سب سے مشہور یونیورسٹی میں ہوا تھا۔ اس یونیورسٹی سے طبقاتی جدوجہد کا پیغام ہندوستان کی سرحدوں سے بھی دور جائے گا۔ یہ آنے والے طوفان خیز واقعات اور انقلابی ابھار کا پیش خیمہ ہے۔