"DLK" (space) message & send to 7575

اسلامی ناٹو؟

وزیراعظم میاں نواز شریف اور فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے حالیہ دورہ سعودی عرب کے دوران جہاں مشترکہ فوجی مشقوں کے مظاہرے دیکھے وہاں سعودی حکومت نے یہ تجویز بھی رکھ دی ہے کہ ان ''مسلمان اتحادی ممالک‘‘ کے درمیان ایک ''ـمسلم ناٹوـ‘‘ کے فوجی و''دفاعی‘‘ اتحاد کا قیام بھی عمل میں لایا جانا چاہیے۔ حکومت پاکستان نے اس تجویز پر تہہ دل سے غور کرنے کا وعدہ کر دیا ہے۔ 
اگر ہم موجودہ ناٹو (NATO)کاجائزہ لیں جس کی سربراہی زیادہ تر مغربی سامراجی ممالک کے پاس ہے تو یہ اتحاد 2 اپریل 1949ء کو بنا تھا۔ اِس میںاس وقت 28ممالک شریک ہیںاور اس کے بیانیہ مقاصد کسی ممبر ملک میں بیرونی مداخلت کی صورت میں اس کا دفاع کرنا ہے۔بیلجیم کے شہر برسلز میںناٹو کا ہیڈ کوارٹرہے اور انگریزی میں ' شمالی بحراوقیانوس معاہدے کی تنظیم‘ کا مخفف NATOہے۔ اس اتحاد کی تشکیل کا حقیقی پس منظر دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی سامراج اور ماسکو کے سٹالنسٹ راہنمائوں کے درمیان امن معاہدے تھے جن کی اصلیت یہ تھی کہ دستخطوں کی سیاہی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ ان دونوں طاقتوں کے درمیان ایک سرد جنگ کا آغاز ہو چکا تھا ۔ ناٹو کے مقابلے میں سوویت یونین نے مشرقی یورپ میں اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر عسکری اتحاد کی بنیاد رکھی۔ اس پر 1955ء میں سمجھوتہ پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں ہوا تھا اس لیے یہ فوجی اتحاد'' وارسا پیکٹ‘‘ کے نام سے جانا جاتاتھا۔ 1991ء تک سرد جنگ کے تنائو میں اتار چڑھائو چلتا رہا جس سے ناٹو کی کسی حد تک اہمیت بھی قائم رہی اور اس کے فوجی اخراجات پربھاری رقوم بھی صرف ہوتی رہیں۔ لیکن دیوارِ برلن کے گرنے اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد ناٹو کا وجود ختم ہونے نہیں دیا گیا اور اس کو مختلف حیلے بہانوں سے سامراجی جارحیت کے لیے زیادہ تر نو آبادیاتی ممالک میں استعمال کیا گیا۔ افغانستان جیسے ممالک میں امریکی سامراجی جارحیت کے لیے دوسرے چند ممالک کے کچھ فوجی تعینات کراکے اس کو ناٹو اورISAF کی کاروائی قرار دیا گیا۔
سرد جنگ کے دوران ناٹو نے کوریا اور ویتنام سمیت دوسرے کئی ممالک میں سامراجی جارحیت کے آلہ کارکا کردار ادا کیا ۔ سوویت یونین کے انہدام اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بھی ناٹو کے اس اوزار کو یوگوسلاویہ کو توڑنے ، لیبیا پر جارحیت ، شام میں مداخلت اور دوسرے کئی ممالک میں کارروائیوں کے لئے استعمال کیا گیا۔ ناٹو کے قیام کا بنیادی مقصد وہ نہیں تھا جو پیش کیا جاتا رہا ہے۔سٹالنسٹ حکمرانوں کی مصالحت پرستانہ پالیسیوں (امن برائے بقائے باہمی) اور سوشلزم کے نام پر قوم پرستی کو تقویت دینے کی غیر مارکسی پالیسیوں کے تحت ان کا تقریباً ہر مسئلے میں آخری مرحلے پر ہی سہی لیکن سامراج سے سمجھوتہ ضرورہو جاتا تھا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب تک سوویت یونین اور وارسا پیکٹ کا وجود قائم تھا سامراج کے لیے جارحیت اور مداخلت کرنا کہیں زیادہ مشکل تھا اور وہ سوویت یونین کی فوجی طاقت سے خوفزدہ بھی تھے۔سوویت یونین کے انہدام کے بعد انہوں نے بے لگام اوربے دھڑک بدمعاشی کا سلسلہ شروع کیاجو ہمیں دنیا بھر میں نظر آتی ہے۔
ناٹو کی فوجی طاقت ان ممالک کے لیے ایک خوف اور خطرہ کے طور پر بھی ابھاری گئی جن کا استحصال سامراجی ممالک کرتے رہے ہیں اور آج بھی یہ عمل جاری ہے۔سابق نو آبادیاتی ممالک میں سامراج اور سرمایہ داری کے خلاف ہونے والی بغاوتوں اور سامراج کے خلاف تحریکوں کو کچلنے کے لیے CIAکی سازشوں کے ذریعے فوجی بغاوتوں (Coups)کے ساتھ ساتھ براہ راست فوجی مداخلت کا استعمال بھی کیا جاتا رہا ہے۔ سوویت یونین کے سٹالنسٹ حکمران ان حالات میں اپنی پالیسی مارکسی بین الاقوامیت کی بجائے اپنے قومی مفادات کے تحت استوار کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ کئی جگہوںپر سامراجی جارحیت کو روکنے کے لیے وارسا پیکٹ نے کوئی کارروائی نہیں کی ۔ اس عرصے میں ناٹو اور امریکہ کی فوجی طاقت اس معاشی عروج کی بدولت بڑھی تھی جس سے امریکہ تاریخ کا سب سے طاقتور فوجی اور اقتصادی سامراج بن گیا تھا۔یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ فوجی طاقت کی بنیاد آخری تجزئیے میں معاشی قوت ہوتی ہے۔ سرمایہ داری کو مغربی ممالک میں دوسری عالمی جنگ کے بعد بڑے معاشی فائدے اور بلند شرح منافع حاصل ہوئی تھی، اس سلسلے میں جنگی تباہ کاریوں کی تعمیر نو، گلوبلائزیشن اور عالمی تجارت میں تیز اضافہ اور نئی صنعتوں کے قیام جیسے محرکات کارفرما تھے۔لیکن دوسری جانب اس فوجی جبر کا مقصد جس سامراجی استحصال کے تسلسل کو جاری رکھنا تھا اس کے پیش نظر غریب ممالک میں ترقی نہیں ہو سکی اور ان سے براہ راست سامراجی حاکمیت کے دور سے بھی کہیں زیادہ دولت لوٹی گئی۔
آج کا معاشی منظر نامہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کی دہائیوں سے کم و بیش متضاد ہے۔ سرمایہ داری عالمی سطح پر بدترین بحران کا شکار ہے۔ ایسے میں ناٹو کی فوجی طاقت اب کھوکھلی پڑ چکی ہے۔ مالیاتی اور اقتصادی زوال ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔تیسری دنیا میں سامراج کی لوٹ مار آج بھی جاری ہے لیکن عالمی معیشت زائد پیداوار کے جس بحران کا شکار ہے اس کا حل سرمایہ داری کی حدود میں ممکن نہیں ہے۔سوویت یونین کے انہدام کے بعد ناٹو کی سامراجی قوتوں کوجارحیت کی کھلی چھوٹ ملی تھی لیکن اب ان کے لئے المیہ یہ بن گیا ہے کہ اندر سے وہ اقتصادی طور پر کھوکھلے ہوکر ماضی والی فوجی طاقت سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔
اگر اس حوالے سے مسلم یا اسلامی ناٹو کی تجویز کا جائزہ لیں تو یہاں بھی پہلے ہمیں ان ممالک کی اقتصادی حالت کو مد نظر رکھنا پڑے گا۔اس تناظر میں سعودی عرب، جو سب سے امیر ملک گردانا جاتا ہے، اس کی امارت بھی تیزی سے زائل ہورہی ہے ۔ تیل کی قیمتیں گرنے سے سعودی معیشت روزانہ کروڑوں ڈالر کا نقصان اٹھا رہی ہے اور اس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔یمن اور شام میں فوجی مداخلت بھاری مالیاتی نقصان کاموجب بن رہی ہیں ۔اسی طرح 2011ء میں ابھرنے والے عرب انقلاب کے طوفان سے بچائو کے لئے سعودی حکومت نے عوام، بالخصوص مڈل کلاس کو جو مالیاتی مراعات دی تھیں وہ بھی معیشت پر بھاری بوجھ بنی ہوئی ہیں۔اس سال اپنی جدید تاریخ میں پہلی بار سعودی عرب نے نجی سامراجی بینکوں سے قرضہ لیا ہے۔ سعودی معیشت کے خون یعنی تیل کی سرکاری کمپنی آرامکو (ARAMCO) کی نج کاری کا شروع کیا گیا عمل ظاہر کرتا ہے کہ اقتصادی صورتحال کس قدر سنگین ہوتی جارہی ہے۔ اس سب کے باوجود سعودی عرب بڑے پیمانے پر مہنگا اسلحہ خریدنے والے ممالک کی فہرست میں نمایاں نظر آتا ہے۔ 
دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ یہ''ا سلامی ناٹو‘‘ آخرکس کے خلاف بنائی جا رہی ہے؟یہاں کوئی سوویت بلاک تو کیا کوئی بھی ایسا فوجی اتحاد نہیں ہے جس سے فوری اور دفاعی نوعیت کا خطرہ ہو ۔ عراق جیسے تاراج ملک کے چند ریاستی و غیر ریاستی دستوں،لبنان کی حزب اللہ ، ایران اور بشارالاسد وغیرہ کے ساتھ تنائو اور دوسرے ممالک میں پراکسی جنگ تو چل سکتی ہے لیکن براہ راست تصادم کی کوئی گنجائش یا خواہش کسی فریق کو نہیں ہے۔پاکستان پہلے ہی پراکسی جنگوں میں جو بربادی سمیٹ چکا ہے اس کے پیش نظر یہاں کے ریاستی پالیسی ساز کسی بھی بیرونی جنگ میں براہ راست فوجی مداخلت سے گریز کریں گے۔یہ ہم یمن کے معاملے میںدیکھ چکے ہیں ۔ پھر کیا یہ اسلامی اتحاد کسی ایک مسلک کے ملکوں کا اتحاد ہے ؟اور اس مسلک کے اندر کتنے مسلک ہیں؟حقیقت یہ ہے کہ ایسے اتحادوں کے پلان ملائوں کی تقاریر میں ولولہ تو پیدا کر سکتے ہیں لیکن حقیقت میں بے سود ہیں۔نہ ہی مالیاتی صلاحیت ہے اور نہ ہی فوجی کارروائی پر اثر ہو سکتی ہے۔ ان ممالک کے عوام کو جنگیں نہیں امن اور روٹی درکار ہیں، تاہم حکمرانوں کے مفادات عوام سے بالکل متضاد ہیں۔ یہ بے دریغ اخراجات انسانی تباہی کے آلات کی بجائے روٹی ، کپڑا، مکان، تعلیم ، علاج اور روزگار کی انسانی ضروریات کے لیے صرف کرنے کی ضرورت ہے۔اس نظام زر کی ترجیحات میں عام انسانوں کے مفادات بہر حال کوئی مقام نہیں رکھتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں