"DLK" (space) message & send to 7575

سفارتی پردہ داری!

ایران کے صدر حسن روحانی کے دورہ پاکستان کے دوران حکمرانوں کے نمائندگان اور کارپوریٹ میڈیا کے تجزیہ کاروں کی کوریج اور رویے دیکھنے والے تھے۔کچھ اخبارات اس دورے کو پاکستان میں توانائی کے بحران کے حل کے لیے اہم سنگ میل قرار دے رہے ہیں تو دوسری جانب یہ بھی خبریں اُچھالی جا رہی ہیں کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے ایران کو بھارتی خفیہ ایجنسی کو کسی قسم کی کوئی ایسی گنجائش فراہم کرنے پر تنبیہ کی ہے کہ اس کو برداشت نہیں کیا جاسکے گا۔ لیکن ان تنازعات اور تضادات کا پس منظرکچھ اورہے۔ تقریباً ہر ملک سے تعلقات اور خارجہ پالیسی میں پاکستانی ریاست اور حکمران طبقات کے مختلف داخلی پالیسیوں پر مفادات میں تضاد بھی واضح نظرآتے ہیں۔ ایران پاکستان کا ہمسایہ بھی ہے اور ان دونوں خطوں کے درمیان صدیوں سے تہذیبی ثقافتی اور اقتصادی بندھن بھی موجود ہیں۔ جہاں حکمرانوں اور جنگجوئوں نے اس خطے کو تاراج کیا‘ جیسے نادر شاہ نے مارچ 1739ء میں لاہور اور دوسرے ثقافتی مرکز کو برباد کرکے زمین بوس کیا تھا وہاں فارسی شاعری سے لے کر زبان تک نے برصغیر کے خصوصاً مغل بادشاہتوں میں درباروں سے لے کر ریاستی اداروں تک میں کلیدی کردار بھی ادا کیا تھا۔ جہاں کبھی فارسی سے یہاں تمدن اور تہذیب کو تقویت ملا کرتی تھی، فنون لطیفہ کی ترقی میں اس تہذیب کا ایک کردار ہوا کرتا تھا وہاں پھر جب انگریز سامراج نے مذہب کی بنیادوں پر برصغیر کے عوام کو تقسیم کرنے کی چالیں
شروع کیں تو ایران کے معلموں نے بھی اس خطے میں اپنے مسلک کی بنیادیں استوار کیں۔ لیکن آج کے عہد میں بہت سے تہذیبی اور ثقافتی ورثے اور رجحانات محض کاغذی یادیں بن کر رہی گئی ہیں۔ تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیوں تک کو بھی ان حکمران ریاستوں کے مفادات اور طاقت کی کشمکش کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان اور ایران تجارت اور اپنے معدنیات اور مہارتوں کے تبادلے سے ایک دوسرے کے لیے بہت ہی مفید ثابت ہوسکتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سفارتی تعلقات ہوں یا مذہبی مسلکوں سے ناتے ہوں‘ تجارت ہو یا امداد دوستی ہو یا دشمنی سب کے معیار ماضی کے جذباتی و تہذیبی رشتوں سے بدل کر سرمائے اور دولت کے مفادات کے لیے مختص ہو کر رہ گئے ہیں۔ اور پھر اگر ان مفادات کا جائزہ لیا جائے تو یہ ان ممالک کے عوام کے کم اور حکمرانوں کے بالادست طبقات کے مفادات زیادہ ہوتے ہیں۔ اس نظام زر کی سفارت‘ دفاع‘ تجارت اور ثقافت میں جو روپ بھی ہوں ان کو اپنی دولت کے سیٹھوں اور سامراجی حکمرانوں کے مفادات کے تابع ہونا پڑتا ہے۔ ظاہری طور پر سیاست اور حاکمیت کی مختلف شکلیں ہوسکتی ہیں ۔ کہیں جمہوریت اور لبرل ازم کے نام پر اس محنت کے استحصال کو ایک منافقانہ پارلیمانی جواز فراہم کرکے مسلط رکھا جاتا ہے۔ کہیں عوام میں جنون کو ابھار کر زندگی کے تلخ حقائق کو اس کی وحشت میں غرق کرکے مذہبیت اور فرقہ واریت کی سیاست کے ذریعے اقتدار اور دولت کے مزید حصول کے راستے ہموار کیے جاتے ہیں تو کہیں قوم پرستی اور قومی شاونزم کے ذریعے دوسری قوموں کے خلاف نفرت کے انگارے ابھار کر قوم کے عام انسانوں اور انہی اقوام کے حکمران طبقات اپنا جبر وتسلط جاری رکھ کر وہی کچھ کر رہے ہوتے ہیں جو دوسرے مختلف رویوں میں حکمران مختلف ممالک میں کر رہے ہوتے ہیں۔ عربی عجمی کا تضاد پیدا کرکے حاکمیت حاصل کی جائے یا ہندومسلمان کا تضاد پیدا کرکے اقتدار حاصل کیا جائے۔مسلکوں کے تحت جبر کی حاکمیتیں ہوں یا بی جے پی کی ہندو بنیاد پرستی کی عصبیت سے معاشرے کو زہرآلود کرکے حکمرانی کی
جائے۔ یہودیت کی مظلومیت کے تحت ظلم وجبر کا بازار گرم کیا جائے یا عیسائی بنیاد پرستی کے ذریعے اسلام دشمنی کو فروغ دے کر محنت کشوں کے خلاف یلغار کی جائے، حقیقت یہ ہے کہ ان سب تعصبات کے متحارب اور متنازع ہونے کے باوجود ان سب حکمرانوں اور پارٹیوں کی سیاست‘ سفارتکاری اور سب سے اہم معاشی واقتصادی پالیسی ایک ہی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ تمام تر اقتدار اور ریاستی ڈھانچوں کی بنیادیں اسی نظام زر میں پیوست ہیں جو دنیا بھر میں نسل انسان کو اکیسیویں صدی میں بھی محرومی اور ذلت میں غرق کیے ہوئے ہیں۔ اس پس منظر میں اگر ہم پاکستان اور ایران کے تعلقات کا جائزہ لیں تو دونوں ممالک میں عوام میں محرومی اور محکومی کا ایک رشتہ پایا جاتا ہے اور دونوں ممالک کے بالادست طبقات میں اپنی دولت اور طاقت کی اندھی روش کی تسکین کے لیے ایک کشمکش مسلسل جاری وساری ہے ۔ لیکن پھر دوسری جانب اگر اس خطے کی دوسری بڑی طاقت سعودی عرب کا جائزہ لیا جائے تو ایرانی ملا اشرافیہ اور عرب بادشاہتوں کے درمیان تنازعات کو کبھی عربی اور عجمی کا تنازعہ قرار دیا جاتا ہے تو کبھی اس کے مختلف سیاسی مسلکوں اور تہذیبوں کے تصادم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کے پاس ان دونوں ممالک کی نسبت کم قدرتی وسائل خصوصاً تیل کی وجہ سے جہاں ایک اقتصادی کمزوری پائی جاتی ہے وہاں پاکستان کی ریاست اور فوج وسائل کی نسبت کہیں زیادہ بڑی اور طاقتور ہے، اس لیے اس سفارتی تناسب میں پاکستان کا کردار بھی اہمیت کا حامل بن جاتا ہے۔ لیکن ان سفارتی تعلقات میں پاکستان کے سرمایہ دار حکمران اپنے مالی مفادات کے راستے تلاش کرتے ہیں، اپنے فائدے دیکھتے ہیں۔ اگر ہم پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کے اس سفارتی تنازعے میں کردار کا جائزہ لیں تو ان کی تاریخ اور جغرافیہ واضح کرتے ہیں کہ ان کا جھکائو کس جانب ہوگا۔ لیکن پھر وہ ایران سے بگاڑنا بھی نہیں چاہتے کیونکہ پاکستان اور ایران کی میلوں لمبی سرحد ہی ایک ایسا عنصر بن جاتی ہے جس کی وجہ سے تعلقات کو ایک حد سے زیادہ خراب کرنا حکمرانوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس طرح داخلی پالیسیوں کی طرح حکمرانوں کی خارجی پالیسیاں نہ صرف متضاد ہوجاتی ہیں بلکہ مسلسل عدمِ استحکام اور انتشار کا شکار بھی رہتی ہیں۔ ایک کا ساتھ دیں تو ودسرے سے حاصل ہونے والے مفادات جاتے ہیں اس لیے یہ حکمران اور ان کی ریاست خود بھی ان مفادات کی اندھی دوڑ میں ایک دوسرے سے نبرد آزما ہونے لگتے ہیں۔ اس کو جتنا بھی پوشیدہ رکھا جائے لیکن بیرونی حکمرانوںکے بھی ایک ہی دارالحکومت میں دو دفتروں میں حاضری بہت کچھ بے نقاب کر جاتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب تک داخلی انتشار ختم نہیں ہوتا تمام سفارتی اور خارجی استحکام اور سچائی سامنے نہیں آسکتے۔ اس نظام میں تو یہ بحران بڑھے ہی گا۔ اس کی موجودگی میں نہ ملک میں چین ہے نہ ہمسایوں میں کوئی امن اور دوستی کی گنجائش ہو سکتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں