30 اکتوبر 2011 ء کو لاہور کے منٹو پارک میں ہونے والے جلسے کو تحریک انصاف کے ایک نئے جنم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔شرکا کی تعداد جو بھی ہو، انہیں جیسے بھی لایا گیا ہو یا وہ خود آئے ہوں، لیکن یہ اس قسم کے ادوار میں ایک بڑا سیاسی جلسہ تھا۔ اس جلسے میں تقریرکے دوران عمران خان نے کہا تھا کہ زرداری نے پیپلز پارٹی کو برباد کر دیا ہے، یوں بالواسطہ طورپر عمران خان کا اشارہ تھا کہ 1967ء میں اپنے جنم کے بعد پیپلز پارٹی کے ابھار کی طرح اب تحریک انصاف بہت جلد ایک متبادل پارٹی کے طور پر ملک گیر سطح پر ابھرے گی‘لیکن نہ تو عمران خان ذوالفقار علی بھٹو ہیں ، نہ تحریک انصاف کے پاس پیپلز پارٹی کی بنیادی دستاویز جیسا کوئی انقلابی پروگرام تھا‘ اور نہ ہی 1968-69ء کی طرح سماج میں کوئی انقلابی تحریک موجود تھی۔
تحریک انصاف کی بنیاد میں موجود تضادات اور پروگرام اور نعروں میں موجودتذبذب سے قطع نظر بھی ایک بات طے ہے کہ تحریک انصاف نے کبھی بھی محنت کش طبقے کی پارٹی ہونے کا نہ دعویٰ کیا، نہ ایسا کوئی پروگرام دیا‘ اور نہ ہی اس نے طبقاتی کشمکش کو اپنے نظرئیے اور نصب العین کے مطابق سمجھا یا پیش کیا ۔اس کے برعکس جب پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی تو اس کے منشور اور تاسیسی دستاویزات میں بغیر کسی شک وشبہ کی گنجائش کے اسے محنت کش طبقے کی پارٹی قرا ر دیا گیا تھا۔ان دستاویزات میں طبقاتی جدوجہد کوپیپلز پارٹی کے مقصد اور لائحہ عمل کے طور پر پیش کیا گیا اور اس ملک پر قابض غاصب سرمایہ دار، جاگیردار خاندانوں کے خلاف کھل کر اعلان جنگ کیا گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پیپلز پارٹی کی بنیادی دستاویزات میں واضح اور ٹھوس انداز میں سائنسی سوشلزم کو پارٹی کا بنیادی نظریہ قرار دیا گیا تھا‘ یوں اس ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ محنت کش طبقے کی سیاست کا آغاز وسیع تر بنیادوں پر ہوا تھا۔
پیپلز پارٹی کی بنیادی دستاویزات میں پرشگاف الفاظ میں درج تھا کہ ''پارٹی کا حتمی مقصد طبقات سے پاک سماج کا حصول ہے جو ہمارے عہد میں صرف سوشلزم کے ذریعے ممکن ہے‘‘۔اس کے برعکس تحریک انصاف جس سیاست کی پیداوار ہے اس میں ویسے ہی منشور وغیرہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے، سوشلزم کا لفظ تو ویسے بھی تحریک انصاف جیسی پارٹیوں کے لئے شجر ممنوعہ ہے ۔ اگر نظریاتی طور پر دیکھا جائے تو بایاں بازو تو دور کی بات تحریک انصاف کا سیاسی رجحان یا پروگرام نحیف سی سوشل ڈیموکریسی کے بھی قریب نہیں پہنچتا۔سرمایہ دارانہ سرمایہ کاری پر مبنی ''معاشی ترقی‘‘ کا یہ پروگرام انتہائی دائیں بازو کی ٹریکل ڈائون اکنامکس پر مبنی ہے جو دنیا بھر میں دائیں بازو کی پارٹیوں کا کلیدی اقتصادی نظریہ ہے۔
اسی طرح مذہب کو سیاست میں لانے کے رجحان کو نہ صرف تحریک انصاف نے جاری رکھا ہے بلکہ اس کو نئی شکلوں میں تقویت بھی دی ہے۔ تحریک انصاف کا نہ صرف جماعت اسلامی جیسی رجعتی پارٹی سے اتحاد ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جلسوں میں لبرل ازم کے روپ بھی دھارے جاتے ہیں۔ لبرل ازم اور مذہبیت کے ملاپ کایہ تضاد اس پارٹی کی طبقاتی بنیادوں کو بھی اجاگر کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف بنیادی طور پر ایم کیو ایم کی طرح درمیانے طبقے کی پارٹی ہے اور جس طرح درمیانے طبقے کی نفسیات اور کردار انتہائی ظاہر پرستی، انفرادیت، عدم استحکام اور ہیجان پر مبنی ہوتے ہیں اسی طرح اس کی پارٹیاں بھی آدھا تیتر آدھا بیٹر جیسی ہوتی ہیں۔
پیپلز پارٹی کے بانیوں نے مذہب سے متعلق یہاں کے معروض کو مد نظر رکھتے ہوئے جو موقف اختیار کیا‘ وہ عوام میں مقبول ہوا تھا۔ انہوں نے مذہب کے مسئلہ کو یوں مخاطب کیا تھا'' یہاں مسلمان مسلمان کا استحصال کررہا ہے اس لیے یہاں اسلام اور کفر کی نہیں بلکہ استحصالی اور استحصال زدہ، ظالم اور مظلوم کی جنگ ہے‘‘۔ مزید برآں پیپلز پارٹی نے سیکولرازم اور جمہوریت کی نعرہ بازی کی بجائے بنیادی مسائل پر بات کرتے ہوئے روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ دیا تھا‘ اور سوشلزم کا پیغام سناکر محنت کش عوام اور نوجوانوں کے دل موہ لئے تھے۔ تحریک انصاف نے زیادہ زور انصاف، بدعنوانی اور دھاندلی کے موضوعات پر ہی لگایا اور انہی نعروں کے گرد تحریک چلانے کی کوشش کی لیکن درمیانے طبقے کے جلسوں اور دھرنوں کو محنت کش عوام کی بھاری اکثریت ٹیلی ویژن سکرینوں پر تماشائی بن کر دیکھتی تو رہی لیکن اس میں کبھی بھی شراکت کی تمنائی نہیں ہوئی۔
اگرچہ پیپلز پارٹی کے بنیادی منشور میں انصاف اور دوسرے ایشوز پر بات کی گئی تھی لیکن ساتھ ہی انہیں سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار قرار دیا گیا تھا اور ناانصافی کے خاتمے کو اس نظام کے خاتمے سے مشروط کیا گیا تھا۔حقیقت بھی یہی ہے کہ جب تک انصاف، جمہوریت اور انتخابات کو دولت کے غلبے اور آمریت سے آزاد نہیں کروایا جاتا‘ اس وقت تک ان کے حصول اور عملی طور پر فعال ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس بے انصافی، دھاندلی، کرپشن کی معاشی بنیادوں کو تبدیل کرنے پر تحریک انصاف کی طرف سے کبھی بات نہیں کی گئی کیونکہ ان کی سوچ، نظریہ اور مفادات سرمایہ دارانہ نظام میں پیوست ہیں! تحریک انصاف میں جہانگیر ترین سے لے شاہ محمود قریشی تک، جو بھاری سرمایہ دار، جاگیردار اور پیر وغیرہ شامل ہیںنہ صرف ان کو اپنی اس دولت اور طبقے پر غرور ہے بلکہ ان کی کاروباری کامیابیوں کو مثال بنا کر عمران خان اس کو تحریک انصاف کی سیاسی کامیابی سے تعبیر کرتا رہتا ہے۔ محنت کشوں کو بھلا ایسے اقدار اور نظریات کیسے متاثر کرسکتے ہیں؟
یہ درست ہے کہ بھٹو سمیت پیپلز پارٹی کے آغاز میںجاگیر دار ضرورت شامل تھے، سرمایہ دار اگرچہ نہ ہونے کے برابر تھے، لیکن بھٹو اور دوسرے جاگیرداروں کو اپنے اس طبقاتی پس منظر کو بار بار مسترد اور اس کی مذمت کرنا پڑتی تھی۔پیپلز پارٹی کے آغاز میں پارٹی کے اندر ایسی طبقاتی بنیادوں کو باعث ندامت سمجھا جاتا تھا اور ان کو یہ اعلان کرنا پڑتا تھا کہ یہ جاگیردار اپنے طبقے کو مسترد کرکے یا اپنے آپ کو ''ڈی کلاس‘‘ کرکے غریبوں اور محنت کشوں کے طبقے میں شامل ہونے آئے ہیں۔70ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے10 فیصد ٹکٹ ہولڈر ز بھی ''الیکٹیبل‘‘ نہیں تھے۔ لیکن ان انتخابات میں32 روپے کی رقم خرچ کرنے والے بھی ایم این اے بنے تھے۔پیپلز پارٹی کے جلسے جلوسوں میں سرمایہ دار،کاروباری حضرات، ٹھیکیدار اور امرا اپنی فاضل دولت سے بسوں، ویگنوں اور گاڑیوں میں لوگ بھر کر نہیں لایا کرتے تھے بلکہ غریب لوگ اپنی پونجی سے اس انقلابی لہر کی سیاست میںحصہ لیتے تھے۔ جن کے پاس پیسے بالکل نہیں ہوتے تھے وہ پیدل یا سائیکلوں پر طویل سفر کر کے ان جلسے جلوسوں کو لاکھوں کے مجمع میں بدل دیتے تھے۔ اس کے برعکس ہزاروں کے جلسے پر کروڑوں کے اخراجات نہ صرف تحریک انصاف بلکہ آج کی حاوی سیاست کا معمول ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی نظریات اور طریقہ واردات میں تحریک انصاف کا مسلم لیگوں، موجودہ پیپلز پارٹی اور سیاست پر حاوی دوسری پارٹیوں سے قطعاً کوئی فرق نہیں ہے۔ درمیانے طبقے کی چند پرتوں میں اس لئے تھوڑی بہت مقبولیت ہے کہ پہلے وہ کبھی ا قتدار میں آئی نہیں، اس گھٹن زدہ اور تفریح کے مواقع سے عاری معاشرے میں دل لگی کرنے بھی بہت سے لوگ آتے ہیں ۔
ٹائم میگزین میں شائع ہونے والے PEW کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میںصرف 12 فیصد آبادی سیاست میں دلچسپی لیتی ہے یا اس حوالے سے متحرک ہے۔باقی 88 فیصدحکمرانوں کے اس تماشے کو صرف دیکھ ہی نہیں رہے اس کی آگ میں سلگ بھی رہے ہیں۔ تحریک انصاف رائج الوقت سیاست میں کوئی تبدیلی پیدا کرنے میں نہ صرف ناکام رہی ہے بلکہ اس کی پیداوار اور لازمی جزو ہے۔ اس وقت سیاست سے الگ اور بیزار اس ملک کے کروڑوں محنت کش جب سیاست کے میدان میں اتریں گے تو 1967ء یا 68-69ء کی نسبت کہیں زیادہ ریڈیکل اور انقلابی رجحانات سیاست میں ابھریں گے۔