اس مرتبہ پاناما لیکس کا پُر ہیجان تھیٹر کچھ زیادہ ہی لمبا چل گیا ہے۔ اتنا شور ہے اور ہونا ہوانا شاید کچھ بھی نہیں۔ اگر نواز شریف کا اقتدار ختم بھی ہو جاتا ہے تو کرپشن میں کونسی کمی آجائے گی، بلکہ نئے آنے والے جو اس دولت اور لُوٹ کی ہوس میں اتنے عرصے سے سسک رہے ہوں گے وہ بدعنوانی اور لوٹ مار کا پہلے سے بھی زیادہ گرم بازار لگا لیں گے۔ عمران خان کا یہ بیان کہ اگر اب کچھ نہ ہوا تو پھر کرپشن عام ہو جائے گی مضحکہ خیز ہی نہیں، عوام کے دکھوں اور بدعنوانی کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ کیا ابھی تک کرپشن مخصوص اور محدود ہے؟ اس کو کون مانے گا، اس معاشرے میں رہنے والا عام انسان جانتا ہے کہ نظام زر کے بحران میں کرپشن کے بغیر کسی سطح پر گزارہ ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کرپشن کے شور سے عوام کے کان پک گئے ہیں اور حکمران طبقات کے مختلف دھڑے اس سے مالا مال بھی ہو رہے ہیں اور اس کے خلاف واویلا اس لیے کر رہے ہیں کہ اس سے نظام زر کے زیادہ سنگین گھائو جو محنت کشوں پر لگائے جاتے آرہے ہیں ان سے ان کی تو جہ بھی ہٹائی جا سکے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ اشرافیہ اور ریاست نہ کرپشن ختم کرسکتی ہے اور نہ ہی کرنا چاہتی ہے۔ لیکن نیچے سماج کے مسائل ہیں کہ سلگتے ہی جا رہے ہیں، ان کا درد، ان کی تکلیف بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ محرومی کی ذلت نے معاشرتی زندگی کو ایک عذاب مسلسل بنا دیا ہے۔
کسی بھی انسانی معاشرے میںغذا کے علاوہ تعلیم سے بھی زیادہ اہم ضرورت صحت اور علاج ہوتے ہیں۔ اگر ہم آج کے پاکستانی سماج کا جائزہ لیں تو اس میں علاج کی عدم فراہمی اور صحت کی خرابی ایک معاشرتی عارضہ بن چکی ہے۔ اس کی سب سے المناک وجہ یہ ہے کہ مسیحائی اس معاشرے کی بڑی منافع بخش تجارت بن چکی ہے۔ اس کاروبار میں سرمایہ دار طبقات کی مداخلت بڑھتی جا رہی ہے۔ ماضی کے صنعت کاراب فیکٹریاں لگانے کی بجائے سیون سٹار ہسپتال بنا رہے ہیں۔ فارما سیوٹیکل (ادویات) کی کمپنیوں کی چاندی ہے۔ نہ صرف وہ برانڈ ناموں کی وجہ سے عام ادویات پر بھاری منافعے لے رہی ہیں بلکہ ڈاکٹروں کے غول در غول مختلف ممالک کی سیر پر جارہے ہیں۔ مصنوعی میڈیکل کانفرنسوں کے نام پر ڈاکٹروں کو پرتعیش ماحول فراہم کرکے رشوت ستانی کے نئے نئے انداز متعارف کروائے جا رہے ہیں تاکہ نسخوں میں ان کی اتنی اضافی ادویات لکھی جائیں جن کی شاید ضرورت بھی نہ ہو۔ یہی حالات ''ٹیسٹوں‘‘ کی لیبارٹریوں کی کمپنیوں کا ہے جو مقابلہ بازی کی اس دوڑ میں زیادہ پیسہ پھینک کر دوسری کو پچھاڑتی جاتی ہیں اور درمیانی یا چھوٹے درجے کی اجارہ دارکمپنیز بنتی جا رہی ہیں۔ یہ کاروبار اتنا وسیع ہو چکا ہے کہ اس میں منافع کی شرح دوسری بیشتر سرمایہ کاریوں سے کہیں زیادہ ہے۔ لیکن اس منافع خوری میں عام معالج اور مریض دونوں کا استحصال بڑھ رہا ہے۔ جونیئر ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرا میڈیکل سٹاف کو زندگی گزارنے کے لیے دو سے تین ملازمتیں کرنی پڑ رہی ہیں جبکہ درمیانے طبقے کے مریضوں کے ورثا بھی شدید بیماریوں میں گھر گھاٹ اجاڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ لیکن نجی علاج وصحت کا طبقاتی نظام سب سے زیادہ محنت کش طبقے کو کچل رہا ہے۔ اگر بڑے بڑے سرمایہ کار سیون سٹار ہسپتال بنا رہے ہیں تو چھوٹے دکاندار عام انسانوں کی بستیوں، گلی محلوں میں علاج کی چھوٹی موٹی ہٹیاں کھول کر علاج کے نجی طریقہ کار کو عام کیے ہوئے ہیں۔ لیکن بھاری اکثریت کسی بھی مناسب اور حسب ِ ضرورت سائنسی علاج سے محرومی ہوتی جا رہی ہے۔
صورت حال اس حد تک المناک ہوگئی ہے کہ میڈیا پر تازہ ترین اعداد و شمار آنا بھی بند ہوگئے ہیں۔ دو سال قبل کے مقابلے میں نسبتاً مستند اعداد و شمار کے مطابق 82 فیصد آبادی سائنسی علاج سے محروم تھی۔ یہ کیفیت اب زیادہ ہوئی ہے کیونکہ عام انسانوں کے لیے درست اور مکمل علاج ایک ایسی عیاشی بنا دی گئی ہے جس کو وہ
افورڈ نہیں کرسکتے۔ سب سے بڑا المناک ظلم یہ ہے کہ عوام میں پچھلی کئی دہائیوں سے یہ سوچ مسلط کردی گئی ہے کہ مہنگا علاج ہی بہتر علاج ہوتا ہے۔ ایسے ڈاکٹر جو کم فیس لیتے ہیں ان کو اچھا ڈاکٹر ہی نہیں سمجھا جاتا۔ ایسے ڈاکٹر بھی ہیں جن کا عملہ ان کو مجبور کرتا ہے کہ ''فیس بڑھائو تاکہ کلینک چلے‘‘! لیکن اس معاشرے میں انسانی صحت اور زندگیوں کے ساتھ جو یہ بھیانک کھلواڑ ہو رہا ہے اس پر حکمرانوں اور سیاسی و ریاستی اشرافیہ کا رویہ نہ صرف منافقت سے بھرپور ہے بلکہ تضحیک آمیز اور غریبوں سے ان کی حقارت کی غمازی بھی کرتا ہے۔ نہ صرف مختلف پارٹیوں کی مختلف صوبائی حکومتیں پورے ملک میں سرکاری علاج کی فراہمی کو مسلسل سکیڑتی چلی آرہی ہیں بلکہ موجودہ سرکاری ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کو پسماندہ اور دیہی علاقوں میں بھی نجی شعبے میں ٹھیکوں پر دے کر عوام سے یہ معمولی سی سہولت بھی چھن رہی ہیں۔ سرکاری ڈسپنسریوں اور سکولوں کو این جی اوز کے حوالے کرنے کا نجکاری کا نیا فیشن شروع کیا گیا ہے جس سے محرومی میں مزید اضافہ ہوگا۔
اگر شہباز شریف کی علاج کے بارے میں دعوے سنیں اور اس کے ساتھ زندگی کی کوکھ میں مریضوں کو بے یار و مددگار دم توڑتے اور بیماری ودرد میں کراہتے دیکھیں تو ان کی نعرہ بازیوں سے گھن آنے لگتی ہے۔ عمران خان نے تعلیم اور علاج دینے کے بڑے دعوے کئے تھے لیکن پختونخوا میں مسیحائی کی تجارت زوروں پر ہے جو ہر طرف جاری ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے سب سے پہلے سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کا سہرا اپنے سر سجایا تھا۔ چونکہ بلوچستان میں حکومت کی رٹ اور پہنچ بہت محدود ہے اس لیے وہاں کے بڑے شہروں میں نجی علاج کا کاروبار حکومتی سرپرستی میں ہوتا ہے جبکہ باقی علاقوں میں مافیا گروہوں کو بھتے دے کر نجی علاج کا بیوپار جاری رکھا جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ عوام کو علاج اس صورت میں مل سکتا ہے کہ علاج کا تمام اہتمام و انتظام سرکاری طور پر محنت کشوں کی ریاست کے کنٹرول میںہو۔
1972ء میں جب پیپلز پارٹی کے بابائے سوشلزم شیخ رشید کو وزیر صحت بنایا گیا تو انہوں نے ادویات کا جنرک سسٹم رائج کیا جس سے برانڈ کی بجائے ڈبی یا بوتل پر دوائی اور اصلی نام درج ہوتا تھا۔ اس سے ادویات کی قیمتوں میں حیرت ناک کمی واقع ہوئی، لیکن ایک سرمایہ دارانہ ریاست اور نظام حکومت میں ان اجارہ داریوں نے چند ہفتوں میں اس پالیسی کو خارج کروا دیا۔
جب تک نجی علاج کا یہ طبقاتی نظام رہے گا عوام کو کبھی علاج میسر نہیں آسکے گا۔ اس لیے اگر یہ سیاست دان جو خودسرمایہ دارانہ نظام کو ایک مقدس صحیفہ سمجھتے ہیں اور علاج کی فراہمی کے دعوے کرتے ہیں تو محض عوام کے زخموں کو کریدتے ہیں۔ علاج کا کسی معاشرے میں کاروبار انسانی نہیں حیوانی فعل ہے۔ درد اور زخموں کا نیلام کسی انسانی سوچ اور جذبے سے عاری ہے۔ لیکن اکیلا علاج اس نظام میں سرکاری شعبے میں نہیں لیا جاسکتا۔ پورا نظام بدلنا اور سرمائے کا ہر کاروبار ضبط کرکے اس کے جبر کو توڑنا ہوگا۔ یہ کام سرمائے کی ریاست نہیں کرسکتی، اس کے لیے مزدور ریاست ہی درکار ہوگی!