"DLK" (space) message & send to 7575

عراق کا تاراجی کون؟

برطانیہ میں سات سال کی طویل 'چلکوٹ انکوائری‘ کے بعد جو پورٹ شائع کی گئی ہے اس میں2001ء سے2009ء تک کے عرصے میں عراق میں برطانوی مداخلت کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔اس رپورٹ میں غلط انٹیلی جنس اور سیاسی فیصلہ سازی کی جانب اشارہ کیا گیا اور منصوبہ بند ی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ چند خفیہ اداروں کے اعلیٰ افسران، فوجی اشرافیہ کے ممبران اور حکومتی وزیروں کے نام اس سلسلے میں سامنے آئے ہیں۔ اسی طرح 26 لاکھ الفاظ پر مشتمل رپورٹ میں ٹونی بلیئر بھی اس تنقید کی زد میں آتا ہے جو جارحیت کے وقت برطانیہ کا وزیر اعظم تھا۔ لیکن برطانوی سامراج کے حکمران طبقات اور قدیم ترین سرمایہ دارانہ ریاست کے اداروں کی عیاری اور منافقت اس رپورٹ میں بھی نظر آتی ہے۔ 
اگر ہم برطانوی سامراج کی تاریخ کا جائزہ لیں تو جہاں اس نے دنیا کے مختلف خطوں پرجارحیت کی ‘ کروڑوں انسانوں کو محکومی میں جکڑا، نوآبادکاری کے ذریعے ان ممالک اور خطوںکی دولت اور وسائل کوبڑے پیمانے پر لوٹا گیا۔ اگر ہم ماضی میں نہ بھی جائیں تو کم از کم موجودہ دور میں عراق اور مشرقی وسطیٰ میں ہونے والی امریکی قیادت میں سامراجیوں کی مداخلت کے وقت ٹونی بلیئر کی سربراہی میںلیبر پارٹی برطانیہ کی حکمران جماعت تھی۔ المیہ یہ ہے کہ لیبر پارٹی برطانوی محنت کش طبقے کی روایتی جماعت رہی ہے ،لیکن لیبر پارٹی بھی دوسرے ممالک کی روایتی عوامی پارٹیوں کی طرح اپنا کردار بدلتی رہی ہے۔ چونکہ یہ پارٹیاں اصلاح پسندی پر یقین رکھتی ہیں دوسرے الفاظ میں یہ سرمایہ داری میں عوام کی بہتری کے راستے تلاش کرنے کے نظریات پر عمل پیرا ہوتی ہیں ۔ جب بھی اس نظام میں تھوڑا بہت ابھار ہوتا ہے تو محنت کشوں کو کچھ رعائتیں اور اصلاحات دے کر ان کی طبقاتی جدوجہد کو کند کرنیکی کوشش کی جاتی ہیں۔دوسری عالمی جنگ کے بعد جب مغربی سرمایہ داری کو ایک نستباً طویل عرصے(جو تقریباً25سے30 سال پر محیط تھا) کا ابھار حاصل ہوا تو صحتNHS سمیت بہت سی اصلاحات کی گئیں، جس سے طبقاتی کشمکش کوکند کرنے کی واردات کی گئی۔ یہ صورتحال ہمیں اس دورمیں‘ تقریباً اسی طرز پر باقی یورپ میں بھی ملتی ہیں۔ لیکن 1980ء کی دہائی کے آغاز سے جب سرمایہ داری کا بحران بڑھا اور برطانیہ میں محنت کشوں کی جدوجہد ابھری تو اسکی پہلی عکاسی لیبر پارٹی میں ہوئی ۔ 1984ء کے بعد برطانیہ کی تاریخی کا نکنوں کی ہڑتال کو جب مارگریٹ تھیچر نے انتہائی مکاری اور دوسرے ٹریڈیونینوں کے لیڈروں کی غداری سے کچلا تو اس سے لیبر پارٹی کے اندر ابھرنے والی انقلابی رجحانات پر بھی کاری ضربیں لگیں۔ لیبر پارٹی میں تقریباً8 ہزارافراد پر مشتمل ''ملیٹینٹ‘‘ کے مارکسی رحجان کی ٹوٹ پھوٹ میںدوسرے عناصر کے ساتھ ساتھ کانکنوں کی حریت پسند تحریک کو کچلنے جانے کاعنصر بھی بہت اہمیت کا حامل تھا۔اس کے بعد لیبر پارٹی دائیں جانب کے رجحانات کے تسلط میں آنا شروع ہوگئی۔ جب مارگریٹ تھیچر ناکام اور ٹوری پارٹی حکومت ذلت آمیزشکست کا شکار ہوئی تو اس کے بعد لیبر پارٹی کی حکومت ٹونی بلیئر کی سربراہی میں ــبنیـ۔اس کو محنت کش اور نوجوانوں کی ہراول پرتیں '' ٹوری بلیئر‘‘ کے بدنام زمانہ نام سے پکارنے لگیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹونی بلیئر کی پالیسیاں ٹوری پارٹی اور تھیچر کی پالیسیوں کا ہی تسلسل تھیں ۔ اس نے لیبر پارٹی کے قوانین، قوائد وضوابط کو اس طرح تبدیل کیا کہ بائیں بازو کا اس پارٹی میںابھرنے کا ہر امکان ختم کردیا جائے۔ اسکی بڑی وجہ عالمی طور پر سوویت یونین کے انہدام کے بعد بائیں بازو کے رحجانات کی تنزلی اور برطانیہ میں محنت کش تحریک کا جمود اور کسی حد تک پسپائی ہی تھی۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ تنگ نظر قوم پرستی کی جکڑ بھی ایسے اقدامات اور سوشلزم کبھی پنپ نہیں سکتے۔طبقاتی کشمکش کی بین الاقوامیت پر مبنی نظام‘ قومی ریاست کی قیود میں دم توڑ دیتا ہے۔ یہی سوویت یونین اورچین میں ہواتھا۔ صدام حسین نے آمریت کے جبر کو مسلط کرنا تو شروع کردیا لیکن اصلاحات کے اقدامات واپس لینے کی اس میں ہمت نہ تھی۔ سامراجیوں نے کردوں اور عراقی عوام پر مظالم کے دوران صدام کی پشت پناہی کی۔ ایران کے خلاف جنگ میں اسکی بھرپور فوجی مدد کی، لیکن جب صدام نے سامراجیوں کو ہی آنکھیں دکھانا شروع کیں اور انکے مفادات میں ٹکرائو پیدا ہوا ،تو پھر جارج بش نے ''وسیع بربادی کے اسلحہ‘‘ کے الزامات لگا کر عراق پر جارحیت کردی۔ ٹونی بلیئر اس کا سب سے بڑا حمایتی تھا۔ صدام کا تختہ الٹ دیا گیا ۔لیکن اس جنگ کے دوران 15لاکھ عراقی فوجی اور سویلین عوام کا خون بھی کیا گیا ۔ دریائے فرات کا پانی لہو سے سرخ ہوگیاتھا۔لیکن انہوں نے ـ''باتھ پارٹی‘‘ کی فوج کو بھی برطرف کردیا ،جبکہ سامراجی فوجوں کے علاوہ وہ عراق کی کوئی قومی فوج کھڑی کرنے میں ناکام رہے۔ جس سے عراق میں اس شدید بحران نے مختلف لٹیروں کے گروہوں کے سرداروں کے درمیان علاقوں کی بندر بانٹ اور لوٹ مار پر خونریزی کو جنم دیا۔ آج عراق کی ریاست ٹوٹ پھوٹ گئی ہے۔ لیکن تاریخ کا مکافاتِ عمل بھی ہوتا ہے ۔ آج برطانوی لیبر پارٹی میں پھر سے ایک بائیں بازو کا ابھار ہے۔ لیبر پارٹی کے نئے منتخب شدہ لیڈر جیرمی کوربن نے کہا ہے کہ ٹونی بلیئر ایک جنگی جرائم کا مجرم ہے اور لیبر پارٹی نے اس سامراجی بغاوت کے لیے عراق کے عوام اور برطانیہ کے سپاہیوں سے معافی مانگی ہے۔ اسی طرح سامراجی شکست کھا کر اوبامہ کی سربراہی میں فرار اختیار کرچکے ہیں۔لیکن عراق پر جو زخم لگا گئے ہیں، اس سے لہو رس رہا ہے۔ اس خانہ جنگی اور خونریزی کی انتہائوں میں بھی عراق میں طبقاتی بنیادوں پر فرقہ واریت سے پاک محنت کشوں کی بکھری ہوئی تحریکیں اور مظاہرے ہمیں بغداد ‘ بصرا اور دوسرے شہروں میں نظر آتی ہیں ۔ کسی فوجی جارحیت یا مذاکراتی معاہدوں سے فرقہ واریت کی خونریزی عراق میں ختم نہیں ہوگی۔آج اگرکوئی ان سامراجیوں، ان کے دلالوں اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کا خاتمہ کرکے‘ اس نظام زر کی ہولناک اذیت سے عراق کے معاشرے کو نکال سکتا ہے، خوشحالی دے سکتا ہے تو یہی طبقاتی یکجہتی اور جدوجہد کرنے والی تحریکیںہیں، جو ایک انقلابی فتح حاصل کرکے اس بربریت کا راستہ بھی روک سکتی ہیں اس کو پاش پاش بھی کرسکتی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں