قندیل بلوچ کے اپنے بھائی کے ہاتھوں بہیمانہ قتل کے بعد اب پاکستانی نژاد برطانوی خاتون سمیعہ کے سابقہ خاوند کے اعتراف قتل کی خبرمیڈیا پر چل رہی ہے۔ یہ ایک تسلسل ہے جس میں میڈیا جنسی سکینڈلز سے لے کر 'غیرت‘ کے نام پر قتل کے ایسے اندوہناک جرائم کی سنسنی کو اس جنسی پراگندگی کے شکار سماج میں ریٹنگ بنانے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ مذہبی بنیاد پرست اور 'لبرل‘ سول سوسائٹی اس تکرار کے ذریعے اپنی پوائنٹ سکورنگ میں محو ہیں۔ لیکن غیرت کے نام پر اس قتل عام کی مادی بنیادوں کا کوئی سائنسی تجزیہ پیش کرتا ہے نہ ہی کسی کے پاس کوئی حل موجود ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ معاشرے کو لاحق سماجی، اقتصادی اور ثقافتی بحران اور انتشار اتنا بڑھ چکا ہے کہ اس سے نجات حاصل کئے بغیر اس طرح کی سماجی و نفسیاتی بیماریوں اور ان کی علامات کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ لبرل ازم اور بنیاد پرستی، دونوں نظریات سرمایہ داری کی حدود و قیود سے آگے دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ غذائی ضروریات سے لے کر جذبات اور احساسات تک، یہ معاشرہ بنیادی طور پر قلت اور محرومی سے دو چار ہے۔ بڑھتی طبقاتی تفریق، تنگ ہوتے ہوئے حالات زندگی اور سیاسی افق پر کسی انقلابی متبادل کی عدم موجودگی نے اس نفسا نفسی، پراگندگی اور خلفشار کو اور بھی اذیت ناک بنا دیا ہے۔
یورپ اور ترقی یافتہ مغربی ممالک میں پلنے بڑھنے والے سمیعہ جیسے پاکستانی نژاد نوجوانوں کا جائزہ لیں تو وہ مسلسل متضاد ثقافتی اور سماجی رشتوں کی کشمکش میں رہتے ہوئے ذہنی دبائو اور تنائو کی زندگی گزارتے ہیں۔ ان حالات میں مہم جوئی اور انتہا پسندی کے رجحانات بھی پنپتے ہیں اور عادات و اطوار اور رویوں میں منافقت بھی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ وہاں آباد بہت سے پاکستانی خاندان بچیوں کے جوان ہوتے ہی 'وطن‘ واپسی کا سوچنے لگتے ہیں۔ لیکن عملی طور پر یہ قدم اٹھانے کے بعد کم ہی لوگ ایسے ہوں گے جو بعد میں پچھتاتے نہ ہوں۔ کیونکہ عام طور پر جس وطن کو وہ کئی دہائیاں پہلے چھوڑ کر گئے تھے وہ اب ایک خواب اور سراب ہی بن چکا ہوتاہے۔ اس بحران زدہ نظام کی جس تیز سرائیت نے پاکستان جیسے ممالک میں سماجی و ثقافتی معیاروں اور اقدار کو بدلا ہے، بلکہ مسخ کیا ہے، وہ نہایت ہی بے ہنگم اور بیہودہ ہے۔ ایک طرف جدیدیت کا شور اور ترقی کے دعوے ہیں اور دوسری جانب ذلت اور غربت کا وسیع ہوتا ہوا بحر ہے۔ سرمایہ داری کی جدیدیت نے یہاں کی پسماندگی کو ختم کرنے کی بجائے زیادہ مسخ کر کے اسے مزید اذیت ناک بنا دیا ہے۔ بجلی سے لے کر ٹریفک، سیوریج، تعلیم اور علاج تک، انفراسٹرکچر مسلسل زبوں حال ہے، اس کی بنیادیں گل سڑ چکی ہیں اس کے بیچو ں بیچ امارت اور عیاشی کے جزائر ہیں۔ لالچ اور ہوس اتنے بڑھ چکے ہیں کہ آسرا سمجھے جانے والے ہر رشتے اور تعلق میں یہ زہر گھس کر اس کو مطلب پرستی اور منافقت سے متعفن کر رہا ہے۔
بیشتر شادیاں اور رشتہ داریاں، خصوصاً درمیانے اور نچلے طبقات میں ، 'لڑکے‘ کے ملک سے باہر جانے کی سلگتی خواہش پر مبنی ہوتی ہیں۔ دوسری طرف مغربی معاشرے آج جس شدید معاشی زوال پزیری اور سماجی بحران کا شکار ہیں اس کا بوجھ سب سے پہلے تارکین وطن پر ہی پڑتا ہے۔ ایسے میں وہاں آباد 'دیسی کمیونٹی‘ زیادہ سے زیادہ اپنے اندر ہی سکڑ کر قدامت پرستی میں پناہ تلاش کرتی ہے۔ لیکن جس سماج میں آپ زندگی گزار رہے ہوں اس سے زبردستی کٹنے کی کوشش کا انجام پھر نئی نسل میں انتہا پسندی اور گھروں سے باغی ہونے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ سمیعہ جیسی خواتین کے غیرت کے نام پر وحشیانہ قتل سماجی وثقافتی ٹکرائو کے اسی مظہر کا ہی نتیجہ ہوتے ہیں۔مغربی ممالک میں تارکین وطن میں موجود عدم تحفظ کے احساس اور سماج سے ان کے کٹنے کے عمل کا فائدہ اٹھا کر ملاں (اور دوسرے مذہبی پیشوا) بھی اپنی دکانداری خوب چمکاتے ہیں اور داعش جیسی مذہبی جنونی تنظیمیں بھی کئی نوجوانوں کو بربادی کے راستے پر گامزن کر دیتی ہیں۔
بیرون ملک آباد تارکین وطن تو ان حالات سے دوچار ہیں ہی لیکن پاکستان جیسے معاشروں میں بھی سماجی بیگانگی ہر آنے والے دن کے ساتھ گہری اور اذیت ناک ہوتی جا رہی ہے۔ سرمائے کے اس نظام نے انسان کو انسان کے مد مقابل لا کھڑا کیا ہے۔اس کا اظہار مختلف شکلوں میں ہمارے سامنے ہوتا ہے۔ ایک طرف مذہب اور روایات کی آڑ میں غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں جن کے زیادہ تر محرکات مذہب یا 'غیرت‘ پر مبنی نہیں بلکہ مالی معاملات کے تنازعات ہوتے ہیں۔دوسری طرف عورت کی ''آزادی‘‘ کو جسم کی نمائش اور عورت کو منڈی کی جنس بنا دینے سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات نچلے طبقات کی خواتین جب حادثاتی طور پر اس نام نہاد 'فیشن‘ کی دنیا میں پہنچ جاتی ہیں تو ان کی زندگیوں کو بالادست طبقات کی خواتین ( جن کی دولت ان کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہے) سے کہیں زیادہ خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
یہاں سرمایہ دارانہ نظام کے بے ہنگم اور بیہودہ طرز ارتقا نے سماج کی قدامت پرستی کو ختم کرنے کی بجائے زیادہ زہریلا اور خونخوار بنا دیا ہے۔ نہ یہاں یورپی طرز کی روایتی اور کلاسیکی جاگیرداری رہی ہے اور نہ ہی یہاں سرمایہ داری کوئی صحت مند کردار ادا کر سکی ہے۔ جدید صنعتی سماج قائم کرنے میں یہاں کے حکمران طبقات کی تاریخی نا اہلی اور ناکامی غربت میں اضافے اور استحصال کو بدترین نہج پر لے گئی ہے۔ یہاں کا سرمایہ دار حکمران طبقہ چوری، بدعنوانی، جرائم اور ننگے جبر کی بنیاد پر ہی اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے اور اس نے ریاست کو بھی اپنے کردار کے مطابق ڈھالا ہے۔ رفتہ رفتہ رشوت ستانی، بدعنوانی، جھوٹ، منافقت، دھوکہ دہی اور فریب اس بیمار سماج کی اخلاقیات اور معمول بن گئے ہیں۔ جہاں ہر کوئی کسی نہ کسی مالی یا جنسی ہوس کی واردات پر ہو وہاں مروجہ سماجی ڈھانچوں کی حدود میں اس بیماری اور وحشت کے خاتمے کی کوئی ترکیب ممکن نہیں ہوتی۔ دہشت گردی، جرائم، جنسی تشدد، قتل و غارت، استحصال وغیرہ، یہ سب کوئی الگ الگ مظاہر نہیں ہیں بلکہ اس گراوٹ، اذیت اور وحشت کے مختلف اظہار ہیں جس کا شکار یہ معاشرہ ہو چکا ہے۔ایسی بربریت کا سب سے پہلا اور سب سے زیادہ شکار خواتین اور بچے ہوتے ہیں جن کی زندگی اس سماج میں عذاب مسلسل بن چکی ہے اور جنسی استحصال اورموت کے سائے ہر وقت ان کے سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ حکمران طبقات کی مسلط کردہ سیاست، دانش اور فکر کوئی حل فراہم کرنے سے قاصر ہے کیونکہ وہ خود ان بربادیوں کی مرتکب اور ذمہ دار ہے۔ بیمار کرنے والے مسیحا نہیں ہو سکتے۔
لینن کے ہمراہ انقلاب روس کے معمار لیون ٹراٹسکی نے جولائی 1921ء میں ماسکو میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا: ''انسانیت ہمیشہ سیدھی لکیر میں آگے نہیں بڑھی ہے۔اس سفر میں جمود اور بربریت میں واپس پلٹ جانے کے طویل ادوار بھی آئے ہیں۔ سماج ایک خاص سطح تک بلند ہوتے ہیں اور پھر اسے برقرار نہیں رکھ سکتے ہیں۔ یہ توازن بڑا نازک ہوتا ہے۔ معاشرہ جب آگے نہ بڑھ سکے تو پیچھے جا گرتا ہے، اور اگر کوئی طبقہ اپنی قیادت میں اسے آگے نہ بڑھائے تو معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کر بربریت کے راستے ہموار کرتا ہے‘‘۔ آج محنت کش طبقے کے وقتی جمود اور انقلابی تحریک کی عدم موجودگی میں یہ معاشرہ بھی اسی کیفیت سے دوچار ہے۔سرمایہ داری آج پوری دنیا میںانسانی سماج کو آگے بڑھانے سے قاصر ہو چکی ہے جس کے پیش نظر مسلسل انتشار اور ٹوٹ پھوٹ آج کا معمول ہے۔
اس کیفیت کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ حکمران طبقات کے مسلسل بڑھتے ہوئے معاشی، سیاسی اور سماجی جبر نے آبادی کی وسیع اکثریت کو جس ذلت اور محرومی سے دو چار کر رکھا ہے وہ ایک لاوے کی طرح سماج کی تہہ میں پک رہی ہے، اس کا دبائو مسلسل بڑھتا رہتا ہے اور آخر کار اس آتش فشاں کو پھٹنا ہوتا ہے۔ مانگ جب بڑھ کر ناقابل برداشت اذیت بن جاتی ہے تو انسان کی نفسیات اور شخصیت کو مسخ بھی کرتی ہے اور انسانیت سوز اقدامات بھی کرواتی ہے۔ بیماری کو ختم کرنا ہے تو وہ حالات بدلنے ہوں گے جن میں یہ پلتی ہے۔ یہ بیماری اب ایک سماجی ناسوربن چکی ہے اور کینسر کا سب سے فیصلہ کن علاج جراحی ہوتا ہے۔ معاشروں کی جراحی انقلابات سے کی جاتی ہے۔