جب کسی فرد معاشرے یا نظام کی بیماری مہلک کیفیت اختیار کرجائے تو پھر روایتی علاج چلتے نہیں۔ اسپرین سے سرطان جیسی جان لیوا بیماری کا خاتمہ نہیںہوتا۔ اسی طرح اصلاح پسندی اور انتظامی وارداتوں سے یونان کی مہلک حد تک بیمار سرمایہ دارانہ معیشت صحت یاب نہیں ہوسکتی۔قرضو ں کی ادائیگیوں میںتاخیر کرنے سے ان کا بوجھ کم نہیں ہوتا بلکہ اس عرصے میں مزید اذیت ناک حد تک بڑھ جاتا ہے۔
گزشتہ آٹھ سالوں میں غیر اعلانیہ دیوالیے کے بعد جرمنی اور فرانس کے حکمرانوں کی ایما پر یورپی کمیشن (EC)، یورپی سنٹرل بینک (ECB) اور آئی ایم ایف نے یونان کو نو چ ڈالا ہے اور کٹوتیوں (آسٹیریٹی) کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔ یونان کا بحران ختم نہیں ہوا بلکہ منظر عام سے غائب کر دیا گیا ہے۔ لیکن تمام تر تضادات نہ صرف موجود ہیں بلکہ گزشتہ عرصے میں شدید تر ہوئے ہیں۔2006ء میںیونان کا ریاستی قرضہ جی ڈی پی کے 103 فیصد کے مساوی تھا۔ 2008ء میں عالمی معاشی بحران کے آغاز پر یہ تقریباً 110 فیصد تھا جو صرف دو سال بعد 2010ء میں 146 فیصد تک جا پہنچا۔گزشتہ سالوں میں اتار چڑھائو کے ساتھ اس وقت یونان کا ریاستی قرضہ جی ڈی پی کے 180 فیصد کو چھو رہا ہے۔ سرمایہ داری کے تحت یونان کے بحران کا کوئی حل موجود نہیں ہے اور ایک کروڑ دس لاکھ آبادی کا یہ سماج برباد ہوتا چلا جا رہا ہے۔
یونان کا بحران اس سمت کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں پرتگال، سپین، اٹلی اور برطانیہ وغیرہ جیسے کئی دوسرے یورپی ممالک گامزن ہیں۔ بنیادی طور پر یہ قرضوں کا بحران ہے اور قرض کے ذریعے سرمایہ داری کو مصنوعی طور پر کئی دہائیوں تک چلانے کا منطقی انجام ہے۔1981ء میں یونان کا ریاستی قرضہ
جی ڈی پی کا صرف 26 فیصد تھا جو 1992ء میں 80 فیصد اور 1995ء تک 100 فیصد سے تجاوز کر چکا تھا۔اس تمام عرصے میں یونان کی معیشت اور معاشی نمو زیادہ تر ریاستی اخراجات (Public Spending) پر منحصر رہی جن کی بنیاد قرضہ تھا۔علاوہ ازیں یونان کی تکینکی طور پر پسماندہ اور تاریخی طور پر تاخیر زدہ سرمایہ داری ہمیشہ سے ریاستی سبسڈی کی محتاج رہی ہے۔1999ء میں یورو زون کا حصہ بننے سے قبل یونان میں قرض کی لاگت (سود اور دوسری مدوں میں قرض کی رقم پر اضافی ادائیگی) اوسطاً 20 فیصد سے زیادہ تھی جو کہ یورو متعارف ہونے کے بعد تیزی سے کم ہوئی اور 2003ء تک یہ شرح 6.8 فیصدتک گر چکی تھی۔ سستے قرضوں کے ذریعے معاشی 'بوم‘ کے عہد میں کھپت اور سرمایہ کاری میں خوب اضافہ کیا گیا۔ جرمنی کے سرمایہ دار اس عہد میں یونان کی پھیلتی ہوئی منڈی سے خوب استفادہ حاصل کرتے رہے اور اپنا مال یہاں کھپاتے رہے۔ واضح رہے کہ یونان کو قرض دینے والوں میں بھی سر فہرست جرمنی اور پھر فرانس کے بینک ہی تھے۔1999ء سے 2008ء تک یونان کے نجی شعبے کا قرضہ جی ڈی پی کے 59 فیصد سے بڑھ کر126 فیصد تک جا پہنچا۔ اسی عرصے میں حکومت کا قرضہ 100 فیصد کے آس پاس منڈلاتا رہا۔ بڑے پیمانے پر درآمدات نے بڑے تجارتی خسارے کو جنم دیا۔ 1995ء تک یونان کا تجارتی خسارہ صفر تھا جو کہ 1999ء میں جی ڈی پی کے چار فیصد اور 2008ء میں 15 فیصد تک پہنچ چکا تھا۔ یہ تجارتی خسارہ یورپی یونین میں یونان کی
سرمایہ داری کی کمزوری کو بھی عیاں کرتا ہے۔یہ تمام تر تجارتی خسارہ قرضوں کے ذریعے پورا کیا جاتا رہا۔2008ء تک یونان کا ریاستی اور نجی قرضہ پہلے ہی خطرناک حدود سے بھی آگے جا چکا تھا۔2008ء میں مالیاتی کریش کے بعد جب عالمی معیشت کی زوال پزیری کا آغاز ہوا تو اس قرض کی واپسی رفتہ رفتہ مشکل ہوتی چلی گئی۔ بینکوں کے ناقابل واپسی قرضے (Bad Debts) 2008ء میں کل قرضوں کے 4 فیصد سے 2014ء میں 34 فیصد تک جا پہنچے۔ ایک طرف نجی شعبہ قرضوں کی واپسی میں مشکلات سے دو چار تھا اور دوسری طرف بحران کے تحت منڈی سکڑتی چلی گئی اور یوں ایک گھن چکر میں معیشت پھنس گئی۔ کم ہوتی ہوئی کھپت کے پیش نظر کاروبار خسارے سے دو چار ہوئے تو نوکریوں کے خاتمے کا سلسلہ شروع ہوگیا اور یونان میں بیروزگاری کی شرح 2008ء میں 7.3 فیصد سے بڑھتے بڑھتے 25 فیصد تک جا پہنچی۔ بڑھتی ہوئی بیروزگاری کا مطلب سوشل سروسز (بیروزگاری الائونس وغیرہ) کے مد میں ریاست کے اخراجات میں اضافہ اور ٹیکسوں میں اسی شرح سے کمی تھا۔علاوہ ازیں بڑھتے ہوئے ناقابل واپسی قرضوں کے پیش نظر بینک دیوالیے کے دہانے پر تھے جنہیں بچانے کے لئے ریاستی بیل آئوٹس دئیے گئے۔ یوں ریاست کا بجٹ خسارہ بڑھنے لگا اور 2007ء میں جی ڈی پی کے 5.7 فیصد سے بڑھ کر صرف دو سال میں 16 فیصد تک جا پہنچا۔ اس بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے مزید قرض لیا گیا اور ریاست قرضے کے نیچے دبتی چلی گئی جو اب ناقابل ادا حدتک پہنچ چکا ہے۔
فروری 2010ء سے لے کر مئی 2016ء تک یونان کی حکومتیں آئی ایم ایف اور یورپی مالیاتی اداروں کے احکامات کو بجا لاتے ہوئے 16 'آسٹیریریٹی پیکج‘ نافذ کر چکی ہیں جو عوام کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے۔تعلیم، علاج، پنشن، بیروزگاری الائونس وغیرہ کی سہولیات کو بے دردی سے ختم کیا جارہا ہے جبکہ بالواسطہ ٹیکسوں میں تیز اضافہ کیا جا رہا ہے۔ مئی 2016ء کے آسٹیریٹی پیکج کے تحت تقریباً تمام ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں مزید کٹوتیاں لگائی گئی ہیں جبکہ ویلیو ایڈڈ ٹیکس (VAT) کو 24 فیصد تک بڑھا دیا گیا ہے۔دو لاکھ ساٹھ ہزار پنشنرز کی پنشن میں 5 سے 40 فیصد تک کٹوتی کی گئی ہے۔یہ گزشتہ چھ سالوں سے جاری وحشیانہ کٹوتیوں کی صرف ایک جھلک ہے۔ وسیع پیمانے کی نجکاری اس کے علاوہ ہے جس میں حکومتی اثاثے کوڑیوں کے بھائو سرمایہ داروں کو بیچے جا رہے ہیں۔ ایک لاکھ نوجوان ہر سال یونان سے ہجرت کر رہے ہیں اور 2008ء کے بعد سے ساڑھے چار لاکھ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوان ملک چھوڑ چکے ہیں۔
یونان کا بحران یورپی یونین کی تشکیل کی کھوکھلی اور مصنوعی بنیادوں کو بھی عیاں کرتا ہے۔ مختلف کیفیات کی حامل اور مختلف (بعض اوقات مخالف) سمتوںمیں سفر کرتی ہوئی معیشتوں کو ایک کرنسی میں یکجا کرنا نا ممکن ہے۔
یونان کے محنت کش اور نوجوان گزشتہ چھ سال کے دوران بار بار تحریک میں اترے ہیں اور اس نظام کو چیلنج کیا ہے۔ ا ب تک 32 عام ہڑتالیں ہو چکی ہیں۔ آخری عام ہڑتال ٹیکسوںمیں اضافے اور پنشن میں کٹوتیوں کے خلاف 6 مئی 2016ء کو ہوئی ہے۔ اس سے قبل 5جولائی 2015ء کے ریفرنڈم میں 61 فیصد عوام نے کٹوتیوں کے خلاف ووٹ ڈال کر ٹرائیکا (یورپی مرکزی بینک، آئی ایم ایف، یورپی کمیشن) کی شرائط کو یکسر مسترد کر دیا تھا۔ ریفرنڈم سے قبل جون کے اواخر اور جولائی کے آغاز میںدارلحکومت ایتھنز میں لاکھوں افراد نے کٹوتیوں کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا تھا۔ یہ ایک انقلابی تحریک تھی جسے مارکسی قیادت اور انقلابی سوشلزم کے نظریات میسر آتے تو سرمایہ داری کو اکھاڑا جا سکتا تھا اور یورپ کا منظر نامہ بدل سکتا تھا۔ لیکن سائریزا کی قیادت نے کھلی غداری کرتے ہوئے یورپی آقائوں اور سامراجی مالیاتی اداروں کی اطاعت کا راستہ اپنایا۔ اس سے سوشل ڈیموکریسی اور اصلاح پسندی کی حدود کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
اس وقت سائریزا کی حکومت یورپ کی غیر مقبول ترین حکومتیں میں سے ایک ہے۔ عوام پر تمام تر معاشی حملوں کے باوجود ریاستی قرضوں میں کمی اور بحران سے نکلنے کے امکانات مخدوش ہیں۔خود آئی ایم ایف کے مطابق یونان کے قرضے کا بڑا حصہ اگر معاف نہیں کیا جاتا تو معیشت میں بہتری نہیں آ سکتی۔یوں آنے والے دنوں میں بڑے پیمانے کی معاشی بحالی کم و بیش خارج از امکان ہے۔اس غداری سے نفسیاتی اور سیاسی طور پر سنبھلنے کے بعد آنے والے دنوں میں ناگزیر طور پر یونان کا محنت کش طبقہ اور نوجوان نئی تحریکوں میں اتریں گے۔