"DLK" (space) message & send to 7575

عالمی معیشت کی تیز رفتار تنزلی

2008ء کے مالیاتی کریش کو آٹھ سال بیت چکے ہیں اور یہاں سے شروع ہونے والامعاشی بحران عالمی سرمایہ دارانہ معیشت پر تاحال ایک آسیب کی طرح منڈلا رہا ہے۔مختلف ممالک بشمول امریکہ میں بحالی (Recovery) کے تمام تر سرکاری دعووں کے باوجود معیشت کی صورتحال انتہائی نازک ہے اور بحالی انتہائی کھوکھلی ہے جو محنت کش طبقے اور نوجوانوں کے سماجی اور معاشی حالات میں کوئی بہتری لانے سے قاصر ہے۔ الٹا حالات زندگی میں مسلسل ابتری اور کٹوتیاں (آسٹیریٹی) ہی 2008ء کے بعد کا معمول ہیں۔ عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ معیشت ایک باریک رسی پر لڑکھڑاتے اور ڈولتے ہوئے چل رہی ہے۔ کہیں گہرابحران، کہیں معیشت کی سست روی، کہیں جزوی لیکن نحیف بحالی اور مجموعی طور پر مسلسل عدم استحکام اور نازک کیفیت، عالمی معیشت کی موجودہ صورتحال کو اسی طرح بیان کیا جا سکتا ہے۔سرمایہ داری کے اپنے معیشت دان 2008ء کے بعد کے عہد کو 'لمبے عرصے تک چلنے والی سست روی‘ (Secular Stagnation) پر مبنی قرار دے رہے ہیں اور پال کروگمین جیسے نوبل انعام یافتہ بورژوا معیشت دان ایک سے زیادہ بار آنے والے طویل عرصے میں 'مسلسل گراوٹ‘کا تناظر پیش کر چکے ہیں۔ 
معیشت جب صحت مند بنیادوں پر استوار ہوتی ہے تو قرضوں اور آمدن کے درمیان توازن ہوتا ہے اور آمدن سے قرضوں کی ادائیگیاں کم و بیش ہو جاتی ہیں۔ لیکن جب منافعوں میں کمی ہوتی ہے اور بحران نمودار ہونے لگتا ہے تو زیادہ جوکھم والی سرمایہ کاری ہونے لگتی ہے۔ اسے قیاس آرائی یا سٹہ بازی (Speculative Financing) کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر سٹہ بازی میں لگائی ہوئی رقوم منافع نہ دے سکیں یا دوسرے الفاظ میں جوئے میں ہار ہو جائے تو پھر قرضے ڈوب جاتے ہیں اور بینک خسارے میں جا گرتے ہیں۔ اس نوعیت کی انتہائی خطرناک فنانسنگ اور قرضہ جات پر مبنی سرمایہ کاری کو آج کل بورژوا معیشت کی زبان میں 'پونزی‘ فنانسنگ کہا جاتا ہے۔
2008ء کے کریش کی وجہ سٹہ بازی پر مبنی بلبلوں کا پھٹنا تھا۔ بینکار اپنے منافعوں کے چکر میں قرضے دیتے ہی چلے جا رہے تھے، جس کا نتیجہ دیوالیوں کی صورت میں نکلا۔ ایسے میں ریاستیں میدان میں کود پڑیں اور بینکوں کو سینکڑوں ارب ڈالر کے بیل آئوٹ دئیے گئے لیکن یہ بیل آئوٹ دیتے دیتے ریاستیں خود دیوالیہ ہونے لگیں۔ اوباما نے صدر بنتے ہی امریکی سرمایہ داری کو بچانے کے لئے ریاستی خزانہ تقریباً خالی کر دیا اور امریکہ دنیا کے مقروض ترین ممالک میںشامل ہو گیا۔ یہی کچھ یورپ اور دنیا بھر کی سرمایہ دار ریاستیں آج تک کر رہی ہیں۔ 
یہ سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ 'مانیٹرازم‘ (سپلائی سائیڈ معیشت) کی پالیسی کو بچانے اور چلانے کے لئے 'کینشین ازم‘کے طریقہ کار استعمال کئے جا رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماضی کے تمام کلاسیکی طریقہ کار بحران سے نکالنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ 
اور 10 جولائی 2016ء کو شنگھائی میں منعقد ہونے والے G20 (دنیا کی بیس بڑی معیشتوں کی تنظیم) کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چین کے وزیر تجارت 'گائو ہوچینگ‘ نے پریشانی سے کہا کہ ''عالمی تجارت ہچکچاہٹ کا شکارہے، بین الاقوامی سرمایہ کاری ابھی تک مالیاتی بحران سے پہلے کی سطح پر بحال نہیں ہو پائی ہے، عالمی معیشت کو ابھی تک مضبوط اور مستحکم گروتھ (نمو) کی تلاش ہے‘‘۔
اس سے قبل اپریل میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (IMF) نے 2016ء میں عالمی معیشت کی شرح نمو کی پیش گوئی ایک سال میں چوتھی بار کم کرتے ہوئے 3.4 فیصد سے 3.2 فیصد کر دی تھی۔ اس کی وجہ کمزور عالمی طلب اور سیاسی عدم استحکام کو قرار دیا گیا تھا۔ اس کے بعد پانچویں مرتبہ عالمی معیشت کی نمو کی پیش گوئی کو کم کیا جانا بھی کم و بیش یقینی ہے۔ عالمی تجارتی تنظیم (WTO) کا خیال ہے کہ 2016ء متواتر پانچواں سال ہو گا جس میں عالمی تجارت 3 فیصد سے کم کی شرح سے بڑھے گی۔ 
آئی ایم ایف کے مطابق 2016ء میں عالمی معیشت کاگروتھ ریٹ 3 فیصد سے اوپر رہے گا تاہم 'جے پی مارگن‘ اور ورلڈ بینک کا تخمینہ صرف 2.4 فیصد کا ہے۔ زیادہ تر بورژوا معیشت دانوں کے مطابق عالمی معیشت کا گروتھ ریٹ یا شرح نمو فی الوقت 2.5 فیصد ہے جو کہ ''نیچے گرا دینے والی رفتار‘‘ (Stall Speed) کے زمرے میں آتی ہیں (جس طرح کوئی ہوائی جہاز اگر ہوا میں ساکن یا سست رفتار ہو جائے تو نیچے گر جائے گا)۔ یعنی یہ شرح نمو اتنی کم ہے کہ یہاں سے عالمی معیشت واپس تنزلی (Recession) میں گر جائے گی کیونکہ سرمایہ کاری اور کھپت منہدم ہو جائیں گے۔عالمی معیشت کی 2.5 فیصد سے کم شرح نمو کو بورژوا معیشت کے نقطہ نظر سے سرکاری طور پر Recession کی کیفیت قرار دیا جاتا ہے۔ 
آئی ایم ایف نے جنوری 2016ء میں عالمی معیشت کے 'تناظر‘ کے حوالے سے جو رپورٹ جاری کی تھی اس کا عنوان ہی ''پست طلب، مخدوش امکانات‘‘ (Subdued Demand, Diminished Prospects) تھا۔ رپورٹ کے مطابق ''2015ء میں عالمی معاشی سرگرمی سست روی سے دو چار رہی۔ ابھرتی ہوئی اور ترقی پذیر معیشتوں میں گروتھ، جو کہ عالمی گروتھ کا 70 فیصد ہے، مسلسل پانچویں سال بھی تنزلی کا شکار رہی جب کہ ترقی یافتہ معیشتوں میں معتدل بحالی جاری رہی۔ چین کی گروتھ 2016ء میں 6.3 فیصد اور 2017ء میں 6.0 فیصد تک گر جانے کی توقع ہے۔ لاطینی امریکہ اور کیریبین کا مجموعی جی ڈی پی 2016ء میں مزید سکڑے گا (یعنی منفی جی ڈی پی گروتھ)۔ اس کی وجہ برازیل میں Recession اور دوسرے ممالک میں اذیت ناک معاشی صورتحال ہے‘‘۔ 
آئی ایم ایف کے مطابق 2016ء متواتر پانچواں سال ہو گا جس میں عالمی معیشت کا گروتھ ریٹ 1990ء سے 2007ء تک کی 3.7 فیصد کی اوسط شرح نمو سے کم سطح پر رہے گا۔
مجموعی طور پرمعاشی زوال پزیری کے لمبے عرصے میں وقتی بحالی (Recovery)کے مختصر ادوار بھی آ سکتے ہیں۔ تاہم یہ بحالی بھی 'U' یا 'V" شکل کی بجائے 'L' شکل کی ہو سکتی ہے۔ یعنی سرمایہ داری بحران سے قبل کی سطح پر نہیں پہنچ سکتی۔سرمایہ داری جس نحیف کیفیت سے گزر رہی ہے ایسے میں آنے والے عرصے میں کوئی بھی دھچکا عالمی معیشت کو زیادہ گہرے بحران میں مبتلا کر سکتا ہے ۔بالخصوص امریکہ کی دیوہیکل معیشت کی زوال پذیری عمل انگیز کا کردار ادا کرتے ہوئے عالمی معیشت کو دھڑام کرسکتی ہے۔لیکن سرمایہ داری کا کوئی بحران حتمی اور آخری بحران نہیں ہوتا۔ یہ نظام خود بخود ختم نہیں ہو سکتا۔ لینن کے الفاظ میں ''سرمایہ داری کسی انت کے بغیر وحشت ہے‘‘ اور اس وحشت سے نجات شعوری انقلابی کاوش کے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں