دہشت گردی کے پے در پے واقعات کوئٹہ کو تاراج کر رہے ہیں۔ ہر نیا واقعہ پہلے سے زیادہ وحشیانہ ہوتا ہے۔ ریاست اور حکومت کی طرف سے دہشت گردی کی کمر توڑنے کے ہر دعوے کے بعد دہشت گرد پورے ملک میں ہر جگہ بلاخوف و خطر دوبارہ انتقاماً حملہ کرتے ہیں۔ پچھلے کچھ مہینوں سے کوئٹہ اس وحشت کا مرکز بن چکا ہے۔ دہشت گردی کو روکنے کے لیے اربوں روپے کے آلات اور چیک پوسٹوں کو ان بنیاد پرست دہشت گردوں نے مذاق بنا دیا ہے۔ دہشت گردی کے ہر واقعہ کے بعد ریاست کے سکیورٹی اداروں کی زد میں دہشت گرد آئیں یا نہ آئیں مگر سکیورٹی کے نام پرعوام کی زندگیاں مزید مشکل بنا دی جاتی ہیں، جو پہلے ہی سے اس ناکام اور درندہ صفت نظام کے ہاتھوں معاشی سماجی جبر کا شکار ہیں۔
کوئٹہ ایک دلکش جگہ ہے، جس کی منفرد اور پُرسکون خوبصورتی والے نظارے دیکھنے بہت سے سیاح آتے تھے، جہاں چاروں طرف موجود سنگلاخ پہاڑ اور پہاڑی علاقے اسے ایک نایاب ارضیاتی عجوبے کی شکل دیتے ہیں۔ 1935ء کے زلزلے میں یہ فوجی علاقہ تباہ ہو گیا تھا‘ لیکن جلد ہی اسے دوبارہ تعمیر کر دیا گیا۔ یہ چھوٹا سا شہر سیاحت کے لیے نہایت ہی خوشگوار شہر تھا‘ جس کی گلیاں صاف اور ماحول تر و تازہ اور صحت مند تھا۔ بہت عرصہ نہیں گزرا‘ جب مختلف قومیتوں، مذاہب اور نسلوں کے لوگ یہیں پر قابل مثال بھائی چارے کی فضا میں رہتے تھے۔ لیکن بدقسمتی سے آج کوئٹہ ایک بے ہنگم پھیلتا ہوا شہر ہے، جس کی پُرہجوم سڑکوں اور تعفن زدہ گلیوںکو ہر وقت قتل و غارت اور دہشت گرد حملوں کا خطرہ رہتا ہے۔ آج اس شہر کو ایک شدید اور پیچیدہ جنگ کا سامنا ہے۔
گزشتہ سوموار کو پولیس ٹریننگ کالج پر ہونے والے وحشیانہ حملے کی ذمہ داری 'لشکر جھنگوی العالمی نے قبول کی‘ جس میں چونسٹھ اہلکار ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ اس واقعے نے 8اَگست کو سول ہسپتال میں ہونے والے خود کش حملے‘جس میں 70سے زائد لوگ قتل ہوئے تھے‘ کے زخموں کو دوبارہ ہرا کر کے کوئٹہ کے باسیوں کے خوف میں مزید اضافہ کر دیا۔ اگست 2001ء میں جنرل پرویز مشرف نے بہت سی مسلح تنظیموں پر پابندیاں عائد کر دیں‘ جن میں لشکر جھنگوی سرفہرست تھی۔ مئی 2002ء میں ریاض بسرا مارا گیا‘ اور اس کے بعد اس گروپ نے القاعدہ کے ساتھ روابط استوار کیے۔ حالیہ دنوں میں داعش کے ساتھ اس کے رابطوں کے چرچے ہیں۔ لشکر جھنگوی العالمی کی بدنام زمانہ کارروائیوں میں امریکی صحافی ڈینیل پرل کا اغوا اور سر قلم کرنا، کراچی میں فرانسیسی انجینئروں پر حملہ آور اسلام آباد کے ایک گرجا گھر پر حملہ بھی شامل ہے۔
تاہم سب سے اہم سوال یہ ہے کہ تواتر سے ہونے والے ان دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے اصل مقاصد کیا ہیں؟ کون اس سے مستفید ہوتا ہے؟ حکومت اور اس کے وزرا اور فوج کے بیانات اور ٹویٹس سب ایک ہی نوعیت اور انداز کے ہیں۔
بیرونی مداخلت کے الزامات، جو اگرچہ جزوی طور پر درست ہیں، ان وحشیانہ کارروائیوں کی واحد وجہ نہیں ہیں۔ ہندوستان کی خفیہ ایجنسی 'را‘ بلاشبہ خطے کے مختلف حصوں میں متعدد پراکسی جنگوں میں ملوث ہے۔ افغان حکومت کے اپنے مقاصد ہیں اور وہ تیزی سے اپنے دوست اور دشمن تبدیل کرتی رہتی ہے۔ لیکن یہ کسی حکومت یا ریاست کی طرح بھی نہیں ہے۔ سامراجی حملے کے پندرہ سال بعد بھی کوئی حقیقی 'افغان نیشل آرمی‘ وجود نہیں رکھتی۔ یہ ایک ملغوبہ ہے‘ سامراجی احکامات کے زیر سایہ ایک نام نہاد ادارہ، جس کے پاس اپنا کوئی اختیار نہیں ہے‘ لیکن یہ الزامات نہ قابل اعتبار اور نہ ہی کافی ہیں۔ خطے کی زیادہ تر ریاستیں اس وقت اپنے اندرونی یکجہتی کے مسائل، معاشی بحران اور سامراجی دبائو کی وجہ سے کسی بھی صورت میں براہ راست جنگ میں نہیں جا سکتیں۔
اپنے مفادات اور مقاصد کے لیے 'پراکسیوں‘ کے ذریعے جنگ کرنے کا طریقہ بظاہر عقلمندانہ اور مؤثر سمجھا جاتا ہے‘ لیکن اب اس کے اثرات الٹ ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ معاشی ناکامیاں‘ اب ریاست کی فوجی اور سفارتی ناکامیوں میں منعکس ہو رہی ہیں۔ عوام کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والے ان حکمرانوں کی 'پراکسیوں‘ کا مسئلہ یہ ہے کہ ایک خاص وقت میں یہ وفادار اور تابع 'پراکسیاں‘ اپنی حمایتی ریاستوں کے لیے وبال جان بن جاتی ہیں۔ جن رجعتی قوتوں کو اپنی 'حکمت عملی‘ اور مقاصد کے لیے پرورش دی گئی وہ قوتیں‘ آج انہی ریاستوں کو برباد کر رہی ہیں جو اپنے سماجوں کو بکھرنے سے روکنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔ نہ صرف یہاں بلکہ دنیا کے بہت سے حصوں میں یہی کچھ ہو رہا ہے‘ جہاں ریاستیں اپنی پالیسیوں کو لاگو کرنے کے لیے تخلیق کی گئیں اور ان وحشی قوتوں کے ہاتھوں برباد ہو رہی ہیں۔ امریکی سامراج نے بنیاد پرستی کی جن پراکسیوں کو دنیا بھر کے انقلابات اور محنت کشوں کی تحریکوںکو خون میں ڈبونے‘ بالخصوص افغانستان کے انقلاب کو کچلنے کے لئے پروان چڑھایا تھا‘ وقت آج انہی 'اندھی بلائوں‘ کو امریکی مفادات کے بالمقابل لے آیا ہے۔
ہاتھیوں کی لڑائی میں ہمیشہ گھاس پھوس کچلے جاتے ہیں۔ اس خطے کے عوام ہی ان جنگوں میں سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ جب تک محنت کش طبقہ تاریخ کے میدان میں نہیں اترتا‘ یہ ریاستیں ان کو برباد کرتی رہیں گی۔ ریاست کے پاس ان دہشت گرد گروہوں، جنہیں اس نے خود ماضی میں تخلیق کیا تھا، کو ختم کرنے کی صلاحیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ان اداروں کے پاس دہشت گردی کو ختم کرنے کا نہ تو ارادہ ہے نہ ہی جرأت۔ بار بار دہشت گردی کے واقعات اور شکستوں نے ان کو گہری مایوسی اور نااہلی میں مبتلا کر دیا ہے۔ عراق، لیبیا اور یمن اس وحشت کی مثالیں ہیں کہ کیسے ان تضادات کی وجہ سے ریاستیں بکھر رہی ہیں۔ اگرچہ اس طرح کے تناظر کے امکانات یہاں زیادہ نہیں ہیں، لیکن برصغیر کی پرانتشار ریاستوں، ان کے اندرونی تضادات اور گہرے بحرانوں کی موجودگی میں اس خطرے کو یکسر خارج از امکان بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ صرف عوام ہی اس دہشت گردی کی وحشت سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ جب وہ تاریخ کے میدان میں طبقاتی کشمکش کے لیے اتریں گے تو امید اور نجات کے چراغ روشن ہوں گے۔