"DLK" (space) message & send to 7575

امریکی صدارتی انتخابات: بیزاری کا ووٹ!

حالیہ امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی کامیابی کا اصل راز اس کی سیاسی‘ معاشیات اور سفارت کاری سے ناآشنائی اور جہالت تھی۔ بڑے بڑے سیاسی سکالروں‘ نوبل انعام یافتہ معیشت دانوں اور میڈیا کے ماہرین و تجزیہ نگاروں سے امریکی عوام بہت تنگ تھے۔ ان اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاست دانوں اور معاشی ماہرین کی پالیسیوں نے پچھلی دو دہائیوں میں امریکی عوام کی درگت بنائے رکھی۔ محنت کش اور نوجوان اس سے تنگ تھے۔ وہ اس نظام سے تنگ تھے۔ انقلابی راستہ نہ ملنے کی وجہ سے ہونے والی اپنی اکتاہٹ کی پراگندگی میں ٹرمپ کی جھک ماری اور روایتی حاکمیت کے طریقہ کار پر اس کے رکیک حملوں کی وجہ سے اس کو ووٹ دیا۔ کسی متروک نظام کا زیادہ علم اور تحقیق اس کو بہتر اور بحال نہیں کر سکتی کیونکہ اس کا وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ ٹرمپ کا تغافل ہی اس کے کام آیا اور اُن پڑھے لکھے اور منجھے ہوئے سیاست دانوں نے اس بڑھک باز کو موقع دے دیا‘ لیکن یہ ووٹ پسماندگی کا تھا۔ یہ ترقی کے رجحانات کی نمائندگی نہیں کرتا۔
ٹرمپ کے ابھار اور پھر انتخابات میں انتہائی غیر متوقع کامیابی نے امریکی سیاست پر چڑھا 'تہذیب‘ 'جمہوریت‘ 'انسانی حقوق‘ اور 'امریکی اقدار‘ کا منافقانہ لبادہ تار تار کر دیا ہے۔ بورژوا قیادت کا یہ بحران درحقیقت سرمایہ داری کی تاریخی متروکیت اور گہرے نامیاتی بحران کی غمازی کرتا ہے۔ ان انتخابات میں وال سٹریٹ، ریاستی و سیاسی اسٹیبلشمنٹ اور ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی غیر اعلانیہ طور پر 'آفیشل‘ امیدوار ہلری کلنٹن تھی۔ ٹرمپ کے برعکس وہ امریکی سامراج کی با اعتماد نمائندہ تھی۔ یہی وجہ ہے سرمایہ داری کے سنجیدہ پالیسی ساز ٹرمپ کے ابھار کی وجہ سے شدید اضطراب میں مبتلا تھے‘ جو اس کی کامیابی کے بعد کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ ٹرمپ نے اپنی متنازعہ انتخابی مہم میں نظام کو انتہائی دائیں جانب سے چیلنج کیا، اپنی کاروباری کامیابیوں کو اپنی قابلیت کا ثبوت قرار دیا اور بائیں بازو کے کسی متبادل کی عدم موجودگی میں (برنی سینڈرز کے دوڑ سے باہر ہونے کے بعد) پیدا ہونے والے سیاسی خلا کا سارا فائدہ اسے ملا۔ ٹرمپ کو پڑنے والا ووٹ ایک مسخ شدہ شکل میں حکمران طبقے اور 'سٹیٹس کو‘ کی علامت ہلری کلنٹن سے نفرت کا ووٹ تھا۔
اس کی انتخابی مہم کا عنوان ہی ''امریکہ کو دوبارہ عظیم بناؤ ‘‘تھا۔ یہ نعرہ اور اسے ملنے والی مقبولیت بذات خود اس معروضی حقیقت کا اظہار ہے امریکہ اب پہلے جیسا 'عظیم‘ نہیں رہا‘ لیکن ساتھ ہی اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ ٹرمپ نے ہلری کے برعکس امریکی سماج اور خارجہ پالیسی کے سلگتے ہوئے مسائل پر دائیں بازو کا زیادہ واضح پروگرام پیش کر کے بلند بانگ دعوے بھی کئے۔ زمینی حقائق سے قطع نظر لوگوں کی امیدوں سے بڑے وعدے اور دعوے دنیا بھر میں دائیں بازو کے پاپولزم کی روایتی واردات ہوتی ہے۔ مثلاً سماج کی پسماندہ پرتوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے اس نے غیر قانونی تارکین وطن کو امریکہ میں نوکریوں کا چور اور بیروزگاری اور جرائم کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف سخت کارروائی کا عندیہ دیا۔
ٹرمپ کی اس عیارانہ لفاظی، جس میں سب کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور تھا، کے برعکس ہلری کلنٹن کا پروگرام انتہائی متذبذب اور مبہم تھا اور زیادہ تر پہلے سے جاری پالیسیوں کے تسلسل پر مبنی تھا‘ جن سے عوام خاصے بیزار ہو چکے ہیں۔ ہلری کی تمام تر انتخابی مہم کارپوریٹ میڈیا کی بھرپور کوریج اور حمایت کی مرہون منت تھی‘ اور بالعموم اگر دنیا بھر میں عوام کے میڈیا پر بڑھتے ہوئے عدم اعتماد کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کا فائدہ بھی ٹرمپ کو ہی ہوا۔ 'بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا‘ کے مصداق ٹرمپ کے خلاف کارپوریٹ جرائد اور ٹیلی وژن چینلز کی جانب سے جاری کی جانے والی تنبیہات سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا۔ وہ شاید خود بھی متنازعہ بننے کی پوری کوشش کرتا رہا۔ اس کی ان حرکتوں سے بہت سے پرانے اور نمایاں ریپبلکن رہنما بھی نالاں نظر آئے۔ کولن پاول (بش دور کا وزیر خارجہ) نے یہاں تک کہا کہ ''اسے شرم نہیں آتی‘ وہ پوری قوم کو ذلیل کروا رہا ہے‘‘۔ 
نتائج نے ثابت کیا ہے کہ اس صدارتی دوڑ میں برنی سینڈرز ہی ڈونلڈ ٹرمپ کو مات دے سکتا تھا۔ گزشتہ کچھ عرصے میں خود کو برملا 'ڈیموکریٹک سوشلسٹ‘ قرار دینے والے برنی سینڈرز کا امریکی سیاست میں ابھار ایک اور غیر معمولی مظہر تھا۔ یہ کئی دہائیوں میں پہلی بار ہوا کہ امریکی سیاست میں 'سوشلزم‘ کے لفظ کی گونج اتنے وسیع پیمانے پر سنائی دی۔ سینڈرز کوئی مارکسسٹ تو نہیں تھا‘ لیکن اس نے طبقاتی نقطہ نظر ٹھوس انداز میں اپنایا، 1 فیصد کے مقابلے میں 99 فیصد کی بات کی، وال سٹریٹ کی ڈاکہ زنی کے خلاف آواز اٹھائی اور اگرچہ اصلاح پسندی پر ہی مبنی سہی‘ لیکن بائیں بازو کا پروگرام پیش کیا۔ امریکہ کی بالعموم قدامت پرست اور جارحانہ سرمایہ داری میں مقید سیاست سے موازنہ کیا جائے تو سینڈرز کا پروگرام بہت ریڈیکل تھا۔ اس نے یونیورسل ہیلتھ کیئر یعنی سب کے لئے مفت علاج (امریکہ دنیا کا واحد ترقی یافتہ ملک ہے جہاں یونیورسل ہیلتھ کیئر نہیں ہے)، یونیورسٹی کی مفت تعلیم، طلبہ پر قرضوں کے خاتمے، 1 فیصد امیر ترین افراد پر ٹیکس بڑھانے، سیاست کو امرا کی اجارہ داری سے آزاد کرنے، کم از کم اجرت بڑھانے اور جارحیت اور جنگوں پر مبنی خارجہ پالیسی ترک کرنے کا پروگرام دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اسے امریکی محنت کشوں اور نوجوانوں میں تیزی سے مقبولیت ملی۔
'آبزرور‘ اس سلسلے میں لکھتا ہے کہ ''ہلری کلنٹن اور ڈیموکریٹس کو ٹرمپ کی جیت کا سب سے زیادہ دوش خود کو دینا چاہئے... مین سٹریم میڈیا ہلری کی اس سے زیادہ مدد نہیں کر سکتا تھا اور ٹرمپ خود ہارنے کی اس سے زیادہ کوشش نہیں کر سکتا تھا...‘‘
برنی سینڈرز کے ابھار سے لے کر ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت تک، جن سلگتے ہوئے تضادات نے اپنا اظہار حالیہ عرصے میں کیا ہے، وہ ختم ہونے والے نہیں۔ اس کے برعکس آنے والے عرصے میں یہ مزید بھڑکیں گے۔ ٹرمپ امریکی سماج کی پسماندہ پرتوں کے جذبات اور رجعتی خواہشات سے کھیل کر اور بلند بانگ دعوے کرکے برسر اقتدار تو آ گیا ہے لیکن امریکی سرمایہ داری جس زوال پذیری سے دوچار ہے‘ اس میں کہنے اور کرنے کا فرق اسے جلد ہی معلوم ہو جائے گا۔ پاپولزم بائیں بازو کا ہو یا دائیں بازو کا، ایسے ہی طوفانی انداز میں آتا ہے لیکن مسند اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد زمینی حقائق کے تحت پاپولسٹ لیڈر بڑے 'پریکٹیکل‘ ہو جاتے ہیں۔ موجودہ حالات میں 'فاشزم‘ کے خطرات کے تجریے بھی سامنے آ رہے ہیں جو کہ آج کے عہد میں طبقاتی قوتوں کے توازن کے پیش نظر زیادہ تر مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو امریکہ میں ٹرمپ کی جیت ہندوستان میں مودی کے پاپولزم سے مماثل ایک مظہر ہے، اگرچہ کلی طور پر یہ تمثیل درست نہیں۔ ایک طرف ٹرمپ کی جیت سے پھیلنے والی مایوسی اور دوسری طرف اس سے وابستہ امیدیں، دونوں کے ٹوٹنے کے لئے بہت طویل عرصہ درکار نہیں ہو گا۔ نتائج سامنے آنے کے بعد سے امریکہ کے مختلف شہروں میں ٹرمپ مخالف احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں جن میں نوجوانوں کی بڑی تعداد شریک ہو رہی ہے۔ یہ مظاہرے بڑی تحریک میں بھی تبدیل ہو سکتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں حالات امریکہ کے محنت کش طبقات اور بالخصوص نوجوان نسل کو بہت مختصر وقت میں دور رس اور جرات مندانہ نتائج اخذ کرنے پر مجبور کریں گے۔ نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر میں انتشار اور خلفشار بڑھے گا۔
جب 'آکوپائی وال سٹریٹ‘ کی تحریک کو کسی انقلابی تبدیلی کا راستہ نہ مل سکا‘ برنی سینڈرز کا مصالحتی اور ٹھنڈا سوشلزم ڈیموکریٹک پارٹی کی اشرافیہ کے آگے ڈھیر ہو گیا‘ تو پھر امریکہ کے عوام نے‘ جو اس ذلت اور بڑھتی ہوئی محرومی سے تنگ تھے، شاید ایک منفی انداز میں ہی اس الیکشن میں اپنا اظہارِ اکتاہٹ کر دیا ہے‘ لیکن یہاں کھیل ختم نہیں ہوتا بلکہ ٹرمپ کی جارحانہ پالیسیوں کے خلاف نوجوان اور مزدور طبقے کی ہراول پرتیں مزاحمت اور بغاوتوں کی ایک نئی لہر میں ابھریں گی جن کو روکنا حکمرانوں کے اس ریاستی اور انتخابی ڈھانچوں اور اقتدار کے بس میں نہیں رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں