"DLK" (space) message & send to 7575

حاکمیت کا بحران

سیاسی بیان بازی کا ایک طوفان اور واقعات کا ایک ریلہ ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ کچھ بھی آگے نہیں بڑھ پا رہا۔ پچھلی سات دہائیوں سے لوگ یہاں نسل در نسل حکمرانوں کے جعلی نعرے سن سن کر تھک گئے ہیں۔ داخلی معاملات ہوں یا خارجہ پالیسی ان ستر سالوں میں حتیٰ کہ سرکاری بیانات کے انداز بھی بمشکل تبدیل ہوئے ہیں۔
لائن آف کنٹرول پر کراس بارڈر فائرنگ میں سات پاکستانی سپاہیوں کے جاں بحق ہونے کے چند دن بعد وزیر اعظم نواز شریف نے فوجی مشقوں کے اختتام کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا: ''رعد البرق کی مشقیں یہ ثابت کرتی ہے کہ پاکستان دشمن کی طرف سے کسی بھی جارحانہ اور خود رو اقدام کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر شہریوں اور سپاہیوں کی ہلاکت ایک اور جارحانہ اقدام ہے جو عالمی توجہ کا متقاضی ہے۔ ہندوستان کی طرف سے جنگ بندی کے معاہدے کی شدید خلاف ورزیوں کی وجہ سے سرحد پر حالات اب بھی کشیدہ ہیں۔ ہم خطے میں ہونے والی حالیہ تبدیلیوں سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ ہماری سکیورٹی اور علاقائی سالمیت کو نقصان پہنچانے کی کسی بھی کوشش کو بھرپور جواب دیا جائے گا‘‘۔
وہ شاید ایک فوجی سپہ سالار اور طاقتور فوجی جرنیلوں کے سامنے چاپلوسی کر رہا تھا کیونکہ وہی پاکستان کی سیاست اور یاست میں اصل طاقت کے مالک ہیں۔ اپنے آغاز سے ہی بحران زدہ اور انتشار کے شکار اس ملک کی تاریخ میں وہ اس ریاست کا پہلا سیاسی نمائندہ نہیں جو یہ کام کر رہا ہے۔ سویلین حکومت اور فوج کے خراب تعلقات پاکستانی سیاست کا خاصہ رہا ہے اور میڈیا اور حاوی دانش کے پاس ایک پسندیدہ نان ایشو ہے تاکہ اس ملک کے محکوم طبقات کو درپیش سماجی، معاشی جبر کو منظرنامے سے غائب کیا جاسکے۔
لیکن اس کا خارجہ امور کا مشیر ایک اور دھن میں بات کر رہا تھا۔ سرتاج عزیز نے منگل کو رپورٹروں سے کہا:''امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اگر کشمیر کے مسئلے کو حل کرلیتے ہیں تو وہ نوبل انعام کے مستحق ہوں گے‘‘۔ سرتاج عزیز نے ہندوستان میں ہونے والے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کرنے کا اپنا ارادہ بھی ظاہرکیا اور اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ اس دورے کو دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔ 
بھارتی سپاہیوں کی ہلاکت کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات خراب ہوگئے اور ایک سفارتی جنگ چھڑ گئی جس میں نئی دہلی اور اسلام آباد نے ایک دوسرے کے سفارت کاروں پر جاسوسی کے الزامات لگا کر انہیں ملک بدر کردیا۔ سرتاج عزیز نے پی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا: ''یہ کشیدگی کو کم کرنے کا ایک اچھا موقع ہے‘‘۔ لیکن انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی اہلکاروں کے ساتھ کوئی میٹنگ طے نہیں ہے۔ یہ زیادہ امید افزا نظر نہیں آتا کیونکہ ہندو بنیاد پرست حکومت اور دونوں اطراف کی حکومتیں اور میڈیا ہائوسز دشمنی اور جنگ کا زہریلا پروپیگنڈا کر رہے ہیں جو 1947ء کی خونی تقسیم سے اب تک جاری ہے۔
مختلف پاکستانی حکومتیں اور ریاستی اسٹیبلشمنٹ بھی اس معاملے میں آرام سے نہیں بیٹھتے اور جب کبھی محنت کشوں کی تحریکیں اٹھتی ہیں اور ریاست کو سماجی بحران کا سامنا ہوتا ہے تو وہ بھارت دشمنی اور جنگ کی باتیں شروع کرتے ہیں۔ بظاہر تو سرتاج عزیر کا بیان فوجی مشقوں کے موقع پر نوازشریف کے بیان سے متضاد ہے لیکن درحقیقت جنگ اور امن کا یہ ناٹک پاکستان کی تمام تر حکومتوں کا وتیرہ رہا ہے جو زمان و مکان، محنت کشوں کی تحریکوں اور سماجی انتشار کی کیفیت پر منحصر ہوتا ہے۔ ہندوستان میں نام نہاد سیکولر اور مذہبی بنیاد پرست حکومتیں اسی طریقے سے قومی شاونزم کو استعمال کرتے ہوئے اپنی طبقاتی جبر کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 
تاہم سرتاج عزیز کا ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے نوبل انعام کی حکمت عملی نئے امریکی صدر کو بمشکل ہی راغب کر سکے گی۔ ہندوستان ٹائمز کو انٹرویو میں ٹرمپ نے کہا تھا: ''میری خواہش ہے کہ پاکستان اور ہندوستان آپس میں صلح کرلیں کیونکہ یہ ایک انتہائی نازک مسئلہ ہے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ مجھے امید ہے کہ وہ یہ کام کرسکتے ہیں‘‘۔ لیکن حالیہ دنوں میں جو بات سامنے آئی وہ یہ ہے کہ خارجہ پالیسی کے معاملات میں جنوبی ایشیا ڈونلڈ ٹرمپ کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ درحقیقت امریکی حکمرانوں نے کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی کیونکہ برطانوی سامراج نے اس کو خطے میں ایک رستے ہوئے زخم کی طرح اپنے پیچھے چھوڑ دیا تاکہ بالواسطہ معاشی جبر کے ذریعے اپنے ' تقسیم کرو اور حکمرانی کرو‘ کی پالیسی کو اپنے سابقہ نوآبادیات میں جاری رکھ سکیں۔ 
برطانوی سامراج کے زوال کے بعد امریکی سامراج دنیا کا تھانیدار بن گیا؛ تاہم انہوں نے نہ صرف اپنے پیشرو برطانویوں کے کام کو جاری رکھا بلکہ نوآبادیاتی حکمرانی کے ماضی کے تجربات کی وجہ سے انہیں فیصلوں میں شامل بھی کیا۔ فی الحال وہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان نہ تو براہ راست فوجی تصادم کے حق میں ہیں اور نہ پائیدار امن کے حق میں۔ اس پالیسی سے ان کے مالیاتی اور معاشی مفادات سے جڑے ہوئے ہیں۔ سرد جنگ کے دوران ہندوستانی بورژوازی ماسکو میں سٹالنسٹ بیوروکریسی سے قربت کے باوجود شاطرانہ انداز میں امریکی سامراج کے ساتھ بھی تعلقات قائم رکھے ہوئے تھی۔ 
حالیہ عرصے میں ہندوستان اور امریکہ کے تعلقات میں گرمجوشی پیدا ہوئی ہے کیونکہ ہندوستان کی منڈی کو مغربی کارپوریٹ سرمایے کے لیے کھول دیا گیا اور ساتھ ہی چین اور امریکہ کے درمیان بظاہر کشیدگی بڑھ گئی۔ پاکستان کے حکمرانوں نے ابتدا ہی سے ملک کو سامراج کی گود میں بٹھا دیا اور 'کمیونزم‘ کے خلاف فرنٹ لائن ریاست کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔ تاہم امریکی سامراج نے انہیں افغانستان اور خطے کی دوسری مہم جوئیوں میں صرف استعمال کیا۔ پاکستان اور افغانستان میں امریکی سامراج کی مہم جوئی اور ان کو ترک کرنے کے بعد ان کی اپنی تخلیق کردہ اسلامی بنیاد پرستی ان کے لیے وبالِ جان بن گئیں۔ ریاستی اسٹیبلشمنٹ نے بھی اس 'بے وفائی‘ سے اپنی بے عزتی محسوس کی اور امریکی سامراج کے مفادات کے برخلاف اپنی پالیسیاں تشکیل دیں جبکہ بظاہر 'دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں وہ ان کے اہم اتحادی بھی ہیں۔ 
چینی سرمایہ داروں کے تیز ابھار کے ساتھ ہی انہیں خطے میں اپنے معاشی اور اسٹریٹیجک مفادات کے تحفظ کے لیے اتحادیوں کی ضرورت تھی۔ اس طرح پاکستان اور چین کی ریاستوں کے درمیان سفارتی اور اسٹریٹیجک تعلقات وجود میں آگئے جو دو طرفہ معاشی، عسکری اور سفارتی تعلقات کی تاریخ کے سب سے قریبی تعلقات ہیں۔ ہندوستان اور امریکہ کے حکمران طبقات کی طرف سے رد عمل واضح تھا جس کے نتیجے میں اوباما کے دور میں امریکہ اور ہندوستان کے تعلقات میں مزید گرمجوشی پیدا ہوئی۔ لیکن ان تمام تر سفارتی اور اسٹریٹیجک تعلقات کی بنیاد ان ملکوں کے حکمران طبقات کے مفادات ہیں اور وقت پڑنے پر اپنے الٹ میں بھی بدل سکتے ہیں۔ دوست دشمن میں بدل جاتے ہیں اور دشمن بہترین دوست بن جاتے ہیں۔
اگرچہ ٹرمپ اور مودی میں ایک سے زیادہ مماثلتیں ہیں لیکن حکمران طبقات کے مختلف دھڑوں کی منافع اور ہوس کی دوڑ میں ان ذاتی خصلتوں کا کردار فروعی ہے۔ ٹرمپ اس خطے میں بارک اوباما سے مختلف پالیسی نہیں لائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کے ان دو حریفوں کے درمیان کشیدگی کو زیادہ لمبے عرصے تک قائم رکھا جائے گا۔ لیکن آنے والے دور میں سماجی تضادات اور معاشی بحران مزید بڑھ جائے گا۔ اس سے سفارتی تضادات بڑھیں گے اور جنگ کے خطرات پہلے سے زیادہ شدید ہوں گے۔ اگرچہ ایک مکمل جنگ کے امکانات نہیں ہیں لیکن چھوٹی موٹی جھڑپیں اور کشیدگیاں خطے کے عوام کی زندگیوں کو اجیرن بناتی رہیں گی۔
اس وقت ہندوستان اور پاکستان میں نوجوانوں اور محنت کشوں کی وقتاً فوقتاً تحریکیں ابھرتی رہی ہیں۔ ان میں جلد یا بدیر تبدیلی کے امکانات ہیں۔ محنت کشوں کی ایک وسیع تحریک جو ایک طبقاتی جدوجہد کی تحریک پر منتج ہو، اس کا کوئی ٹائم فریم نہیں دیا جاسکتا لیکن یہ ناگزیر ہے۔ تاہم اس کے علاوہ تمام تر تناظر ناامیدی اور بربادی کا ہے۔ حکمران طبقات ماضی کی نسبت زیادہ تیزی سے اپنی چالیں بدلیں گے۔کبھی 'جنگ‘ اور کبھی 'امن‘ کا راگ الاپیں گے۔ لیکن عوام ان مداریوں سے تنگ آچکے ہیں اور شاید حکمران طبقات کے ان تماشوں پر اب زیادہ توجہ نہیں دیں گے۔ ان حالات میں مارکسی قیادت کی موجودگی میں تحریک ان فریبوں کو پچھاڑ کر ایک انقلابی تبدیلی کے راستے پر چل سکتی ہے۔ منافع، خون اور جنگوں کے اس نظام کے خاتمے سے انقلابی سوشلزم کے ایک نئے عہد کا آغاز ہوگا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں