ہندوستان کی سپریم کورٹ نے 2جنوری کو ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے انتخابات اور سیاست میں مذہب، فرقہ بازی ، ذات پات اور نسلی تعصبات کے استعمال کو ممنوع قرار دے دیا ہے ۔ موجودہ عہد کی سماجی، ثقافتی اور سیاسی سرگرمیوں اور رجحانات کا جائزہ لیں تو بھارت جیسے ملک میں یہ فیصلہ کافی حد تک معاشرے کے حالات سے الگ ہی دکھائی دیتا ہے ۔اس پر عملدرآمد کروانے والی ریاست اورحکام خود اس دور میں ان تعصبات اور منافرتوں کی گہرائی میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ ہندوستان ایک ملک کم اور برصغیر زیادہ ہے ۔2011ء کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میںکل500 زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے 30 مادری زبانیں 10 لاکھ افراد سے زائد کی ہیں۔ اسی طرح مذاہب اور فرقوں کی بھی بھرمار ہے ۔ لیکن سب سے منفرد تفریق ذات پات کی ہے۔ ویسے تو ہندو مت میں چار بنیادی ذاتیں بیان کی جاتی ہیں۔ براہمن ،کشتریا،ویشائیہ اور شودر۔ لیکن ان کے اندر بے شمار اور برادریاں بھی ہیں۔ اچھوت ذاتوں کے مسئلہ پر ہندوستان میں بہت بحثیں اور تحریکیں بھی ملتی ہیں لیکن جہاں قدیم ہندوستان کی ذاتیں ختم نہیں ہوئیں وہاں پر سرمایہ دارانہ مادی رشتوں نے ان کو بہت بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ اگر چھوٹی ذات کا کوئی فرد مالدار اور سیٹھ بن جاتا ہے تو وہ اپنی ہی ذات کے افراد کی جانب زیادہ تضحیک آمیز رویہ اپنا لیتا ہے۔ بہت سے دلت ملک کے سربراہ اور اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز رہے ہیں جبکہ بہت سے براہمن مختلف شہروں اور قصبوں میں جھاڑو دیتے ہوئے چماروں والے کام کرنے پر بھی مجبور ہیں۔اس لیے یہ ذات پات کا مسئلہ اتنا سیدھا سادہ نہیں ہے۔ ذات پات کی تفریق ،طبقاتی تفریق سے بالکل مختلف اور متضاد بن جاتی ہے۔ بالادست طبقات میںکسی نچلی ذات کے افراد پہنچ جاتے ہیںاور اعلیٰ ذاتوں کے افرادمزدور اور مزارعے بن جاتے ہیں۔ ہندوستان کی تحریک
میں سب سے بڑی رکاوٹ اسی تفریق کے بارے میں ابہام ہے ۔ ذات پات کی تفریق کے گرد مختلف رجحانات اور نظریہ دان طبقاتی کشمکش کو پس پشت ڈال کر طبقاتی جدوجہد میں وہی دراڑیں ڈالتے ہیں جو واردات حکمران طبقات ذات پات، رنگ، نسل، مذہب اور فرقہ واریت کے ذریعے کرنے کے مسلسل مرتکب رہتے ہیں ۔ ہندوستان میں مذہبیت پچھلی چار دہائیوں میں سرائیت کرکے اب ایک مذہبی بنیاد پرست ،نریندرمودی، کی شکل میںدو تہائی کے بھاری مینڈیٹ والی حکومت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ اگرہم اس تنزلی کا جائزہ لیں تو یہ اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب نہروین ''سوشلزم‘‘، جو محض ریاستی سرمایہ داری ہی تھی، کا بحران بڑھنا شروع ہوااور1992ء کی نرسیما راؤ کی حکومت کے دوران منموہن سنگھ نے منڈی کی جارحانہ ''نیولبرل‘‘ معاشیات کو ہندوستان میںلاگو کروایا تھا۔ 1984ء کے انتخابات میں ہندوستان میں 514 پر مبنی ممبران پارلیمنٹ میں بی جے پی کے صرف 2 ممبران تھے، اور آج اسکی دو تہائی اکثریت ہے۔ اسی طرح ذات پات کے تعصبات اور حقارتیں اسی عرصے میں مزید بڑھی ہیں۔ ٹیلی ویژن اور فلم میں کبھی اس ذات پات کے خلاف پرچار ہوا کرتا تھا لیکن اب یہاں کی مسلط دانش اور ثقافت اس کو بالواسطہ ماڈرن شکل میںقبول کررہی ہے۔ ہندوستان میںبہت سی پارٹیاں مذہب اور ذات پات کے نام پر بنی ہیں۔بی جے پی اگر ہندو بنیاد پرستوں کے مختلف فرقوں کی ''امبریلا پارٹی‘‘ ہے تو ہندوستان کے سب سے بڑی آبادی والے صوبے اترپردیش میں سرکاری خزانے لوٹنے اور لٹانے والی سابقہ وزیر اعلیٰ مایا وتی کی پارٹی کا نام بھی'' بہوجن سماج پارٹی‘‘ ہے یعنی
''دلتوں کی مساوات پارٹی ‘‘۔ سوائے کمیونسٹوں کے ہندوستان کی شاید ہی کوئی ایسی سیاسی پارٹی ہوگی جو ذات پات اور مذہبی تعصبات کی منافرتوں پرمبنی نہ ہو۔ کانگریس کا سیکولرازم اور نیشنلزم بھی سطحی اور منافقانہ ہی تھا۔ اس کا واضح اظہار ہمیں 1984ء کے سکھ ہنگاموں کی صورت میںملتا ہے، جب دہلی میںسکھوں کے گھروں پرنشان لگا کر ان کو اندرا گاندھی کے انتقام اور مذہبی جنون میںقتل کیا جارہاتھااور ان کے گھروں کو جلایا جارہا تھا۔ ہندوستان میں ایسی تحریکوں اور لیڈروں کی بھی ایک تاریخ ہے جنہوں نے مذہبوں میں سے فرقے اور ذات پات کے تضادات کے خاتمے کا اعلان کیا اور اپنے پیروکاروں کو اس پر عمل کرنے کی تلقین کی تھی۔ اس میںہمیں گرو گوبند سنگھ کا مذہبی حکم ملتا جب اس نے 1689ء میں موسم بہار کے اختتام پر بیساکھی کے انا ج بک جانے کے تہوار کے موقع پرسکھ مذہب میں سے ذات پات کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔ اسی طرح ہندوستان کا آئین لکھنے والے نچلی ذات کے لیڈر'' امبید کر‘‘ نے بھی ذات پات کو ختم کرنے کی بہت جدوجہد کی۔ لیکن یہ سب اس تعصب کو ختم کرنے میںناکام رہے ۔
پاکستان کی سیاست میں بھی پچھلی چند دہائیوں سے الیکشن لڑنے کے لیے ہر جائزہ اور حکمت عملی بنائی ہی ذات پات، مذہبی فرقوں، برادریوں اور قبیلوں کے ووٹ بینکوں کے مطابق جاتی ہے۔ ان تعصبات کے بغیر آج کی سیاست کا تصور تک ممکن نہیں لیکن یہاں بھی بڑی بڑی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے مفلسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ہیں۔ جبکہ نچلی اور کمی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے کھرب پتی بھی ہیں۔ لیکن بنیادی اور حقیقی سوچ اور مقاصد ان کے طبقات، رتبے اور مفادات کے مطابق ہوتے ہیں۔ ان کا عمل اور اقدامات اسی دولت کی ہوس کے لیے ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان میںہمارے پاس ایک درخشاں مثال موجود ہے جب عوام نے ذات پات کو چیر کر امارت اور غربت کی لڑائی لڑی تھی۔ ایک طبقاتی جدوجہد کی بنیاد پر پہلے محنت کشوں اور نوجوانوں نے1968-69ء کی تحریک کے دوران پورا ملک جام کرکے دکھایا اور ایک انقلابی صورتحال یہاں تین ماہ تک موجود رہی ۔ لیکن جب انقلابی سرکشی کوختم مند کرنے والی کوئی پارٹی اور قیادت نہ ملی تو پھر 1970ء کے انتخابات میں مذہبی تعصبات اور ذات پات کے تفریق کو چیر کر سوشلزم پر ٹھپہ لگایا اور اپنی انقلاب کرنے کی صلاحیت کو سیاسی اور انتخابی میدانوں میںمنوایا۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب تحریکیں پسپا ہوتی ہیں، جیتے ہوئے انقلابات محنت کشوں کو ہروا دیے جاتے ہیں، تو پھر ماضی کے تعصبات معاشرے پر عود کرآتے ہیں۔حکمران طبقات اپنی منافع خوری اور محنت کے استحصال اور مشققت کو اذیت ناک کرنے میں انہی تعصبات کے گرد گروہ بندی او ر فرقہ واریت کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ اگر کسی فیکٹری کا مالک اور مزدور ایک ہی ذات یا برادری کے ہوں تو اس نظام زر میں ان کی کوئی بھی حقیقی برابری ہوسکتی ہیں ؟ان کی زندگی کی کوئی قدر مشترک ہوسکتی ہے؟ ان کے رہن سہن ان کی طرز زندگی اور ان کے اغراض ومقاصد نہ صرف متضاد ہوتے ہیں بلکہ متصادم بھی ہوجاتے ہیں۔ لیکن جب تک یہ طبقاتی کشمکش کسی تحریک کا باعث نہیں بنتی ،یہ طبقاتی جبر ہی حاوی ہوتا ہے اور ذات ، برادری، مذہبی فرقوں، نسلی تقسیموں کواپنی دولت کے بل بوتے پر اپنی منافع خوری کے لیے بالواسطہ اور براہِ راست استعمال کرتے ہیں۔
ہندوستان کے سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ہو ‘ کسی آئین کی شق یا ترمیم ہو ‘ کسی اسمبلی کی قرار داد ہو یا کوئی بھی قانون ہو وہ سماجی اور اقتصادی عناصر اور کارکردگی سے آزاد نہیںہوسکتے۔یہ سماجی تنزلی معاشرے کی ایک موضوعی بیماری کی علامت ہوتی ہے جو اس کے جمود اور حرکت کی تازہ ہوا اور سانسوں کے گھٹ جانے سے جنم لیتی ہے۔ حکمران طبقات اس برادری ازم ،مذہبی فرقہ واریت اور ذات پات کو ایک استحصالی مقصد کے لیے عیاری سے استعمال کرتے ہیں جبکہ ان برادریوں، ذاتوں اور مذہبی فرقوں سے تعلق رکھنے والے محنت کش طبقاتی یکجہتی اور بھائی چارے کے فقدان کے عالم میں جس بیگانگی اور محرومی کی ذلت سے دوچار ہوتے ہیں، اس میں وہ ایک آسرے کے طور پر کبھی برادری کا سہارا لیتے ہیں کبھی مذہبی فرقے میں آسودگی تلاش کرتے ہیں۔ لیکن ان تفریقوں میں بھی ان کو سوائے مزید استعمال کیے جانے کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ کوئی متبادل نہ ہونے کی وجہ سے انہی رشتوں سے چمٹے رہتے ہیں جس سے ان کی بے کسی مزید بڑھ جاتی ہے۔ بظاہر یہ تفریقیں ہمیں ابدی اور لامتناہی محسوس ہوتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ تاریخ میں جب تحریکیں اور انقلابات پھوٹتے ہیں تو وہ سیلابوں کی طرح ان تعصبات کے تنکوں کو بہا لے جاتے ہیں۔ انقلابات وہ معاشی اور سماجی ڈھانچے ہی توڑ دیتے ہیں جن میں یہ تعصبات کی زہریلی کھیپ پیسے کے زہر سے پلتی ہے۔ محنت کش اس فرقہ واریت اور ذات پات کے تعصبات سے بیزار بھی ہیں اور ان سے چھٹکارا بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ محنت کش طبقے کی ہراول پرتیں اسی انقلابی تحریک کی جستجو اور تلاش کے لیے تڑپ رہی ہیں جو معاشرے کو ان تعصبات کے عذابوں سے نجات دلاسکے۔