"DLK" (space) message & send to 7575

اتر پردیش انتخابات: فریب کے آسرے!

پچھلے دو ماہ سے جاری ہندوستان کی پانچ ریاستوں (اتر پردیش، پنجاب، اتر کھنڈ، گووا اور منی پور) میں جاری انتخابی عمل کے نتائج کا اعلان 11 مارچ کو کیا گیا۔ لیکن ہندوستان اور دنیا بھر میں سب سے زیادہ واویلا اتر پردیش کے انتخابی نتائج کا ہے جہاں بی جے پی نے 403 میں سے 312 نشستیں جیت کر تین چوتھائی اکثریت حاصل کر لی ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ جغرافیائی طور پر برطانیہ کے برابر اتر پردیش کی آبادی 22 کروڑ ہے اور وہ بھارت کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ لیکن اگر ہم ان پانچوں ریاستوں کا تجزیہ کاروں اور ماہرین کے شور شرابے سے ہٹ کر جائزہ لیں تو ان انتخابات میں ایک پہلو مشترک ہے۔ ان تمام ریاستوں میں پہلے سے موجود حکومتوں کو ان انتخابات میں شکست ہوئی ہے۔ مثلاً پنجاب میں بی جے پی اور اکالی دل کی سرکار ہار گئی جبکہ اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی کو شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 
اتر پردیش میں ہونے والی کامیابی کو نریندر مودی اپنی طاقت اور مقبولیت کی عظمت گردان رہا ہے اور بی جے پی اپنے رجعتی بنیاد پرست گروہوں سمیت ایک جشن منا رہی ہے لیکن میڈیا کے تمام تر پروپیگنڈے کے باوجود اتر پردیش میں بی جے پی کی کامیابی میں ہندو بنیاد پرستی اور گائو ماتا کی سرزمین کا تاثر ایک ثانوی عنصر تھا۔ عمومی طور پر ہندوستان میں اور خصوصی طور پر اتر پردیش میں ''ہندو بیلٹ‘‘ کی رجعتیت کے کردار کا زیادہ تر تعلق درمیانے طبقات سے ہے۔ ان انتخابی نتائج سے ایک یقینی سبق ضرور حاصل کیا جا سکتا ہے کہ بھارت میں عام انسانوں کی جو حالتِ زار ہے اس سے وہ تنگ ہیں اور اس سے نکلنا چاہتے ہیں۔ پانچوں ریاستوں میں نتائج تبدیلی کی اس سلگتی ہوئی عوامی خواہش کی ہی غمازی کرتے ہیں‘ لیکن خصوصاً اتر پردیش میں جو نتائج آئے ہیں وہ اس سے بڑھ کر یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ عوام اب موجودہ نظام سے اتنے اکتا چکے ہیں کہ وہ مذہبی، قومیتی، ذات پات اور نسلی بنیادوں پر ووٹ دے دے کر تھک چکے ہیں۔
1970ء کی دہائی میں ہندوستان میں ایک بڑی طبقاتی جدوجہد کے بکھر جانے کے بعد عوام کو ان بنیادوں پر مروجہ حکمران طبقات کی سیاست نے تقسیم کرکے اپنی دولت اور طاقت کی ہوس کو پوراکرنے کا ہی کھلواڑ جاری رکھا ہوا تھا۔ کانگریس، سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج وادی پارٹی (مایا وتی) بڑی پارٹیاں سمجھی جاتی تھیں۔ انہوں نے جہاں اس ذات پات کی سیاست کو جاری رکھا ہوا تھا‘ وہاں ان کے لیڈروں نے میڈیا اور دانشوروں کی فرقہ وارانہ سوچ اور عوام سے کٹی ہوئی نظریاتی لائن لی۔ انہوں نے امارت اور غربت، مالکان اور محنت کشوں کے تضاد کو ابھارنے کی بجائے سیکولرازم اور مذہبیت کی تفریق کے گرد مہم بھی چلائی اور سارے انتخابات کو اس درمیانے ''پڑھے لکھے‘‘ طبقے کی مصنوعی سوچ اور سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا۔ ان انتخابات میں کمیونسٹ پارٹی کے بہت سے امیدوار کھڑے تھے۔ ایک وہ وقت بھی تھا‘ جب فیض آباد کے حلقے (جس میں ''ایودھیا‘‘ بھی آتا ہے) سے ہمیشہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا جیتا کرتی تھی‘ لیکن ایک طویل عرصے سے ان بائیں بازو کی پارٹیوں کے لیڈروں اور نظریہ دانوں نے طبقاتی کشمکش کا نظریہ اور لائحہ عمل ترک کرکے اسی فرسودہ سیکولرازم اور مذہبیت، لبرل ازم اور رجعتیت کے درمیانے طبقے کے گرد اپنی سیاست کا رخ موڑ دیا تھا۔ اسی وجہ سے ان میں سے اکثر کو اپنی ضمانتیں ضبط کروانا پڑی ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام اور چین کی سرمایہ دارانہ تنزلی کے بعد بائیں بازو کے لیڈروں پر یہ ایک ذہنی خبط سوار ہو گیا ہے کہ وہ اپنی انقلابی اور ریڈیکل پالیسیوں کو ''نرم‘‘ اور ان میں ملاوٹ کرکے پیش کرنے سے ووٹ حاصل کر سکتے ہیں۔ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ جہاں بھی کمیونسٹ یا انقلابی سوشلسٹ کھل کر اپنے مارکسی نظریات کا پرچار کرتے ہیں، ان کو عوام کی تحریک میں باور کرواتے ہیں اور ان کو عام انسانوں کی زندگی سے جوڑتے ہیں‘ وہاں وہ عوامی حمایت سے سرفراز ہوتے ہیں۔ یہ نظام اتنا گل سڑ چکا ہے کہ اس میں اصلاحات کی گنجائش ختم ہو چکی ہے‘ جبکہ یہ بائیں بازو کے لیڈر جب ایک انقلابی تبدیلی کا پروگرام دینے کی بجائے نحیف
اور اصلاح پسندی پر سیاست کرتے ہیں تو ناکامی اور نامرادی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ 2014ء کے انتخابات سے کانگریس، نام نہاد سیکولر پارٹیوں اور بائیں بازو کے لیڈروں نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ حالیہ اہم انتخابات میں سب سے بڑا المیہ یہ تھا کہ اتر پردیش میں بی جے پی نے مذہبی جنونیت کی بجائے غربت کے خاتمے 'وِکاس‘ یعنی ترقی اور ایک نیم طبقاتی تفریق پر مبنی انتخابی مہم چلائی۔ کوئی دوسرا متبادل نہ ہونے کی وجہ سے جنہوں نے بھی ووٹ کے ذریعے تبدیلی کی کوشش کی‘ ان کے سامنے ان کی امنگوں کے لیے واحد راستہ بی جے پی کی یہ بھاری اور منافقت کا متبادل ہی رہ گیا تھا۔ اتر پردیش میں ساڑھے چار کروڑ مسلمان پائے جاتے ہیں‘ جو تقریباً 20 فیصد ووٹ ہیں۔ بھارت میں مسلمان پس منظر سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں نے ان پارٹیوں کو مسترد کر دیا‘ جو اقلیتوں سے ہمدردی کے نام پر ووٹ لیتی تھیں اور ان کے اقتدار میں فائدے ان مسلمانوں کے اشراف اٹھاتے تھے۔ عام مسلمان دُہرے اور مسلم خواتین تہرے جبر و استحصال کا شکار رہتی تھیں‘ لیکن بی جے پی کی سرکار محنت کشوں اور مذہبی اقلیتوں پر وحشت بڑھائے گی، ان کی بربادیوں میں اضافہ ہی کرے گی۔
جہاں دوسری پارٹیوں نے ان کے ووٹ مذہبی عقائد اور تفریق کی بنیاد پر حاصل کرنے کی کوشش کی‘ وہاں ان مسلمانوں نے اس سماجی و اقتصادی ذلت سے چھٹکارے کے لیے بی جے پی کے فریب کو ہی تبدیلی کا ذریعہ سمجھا۔ اتر پردیش کا اہم قصبہ ''دیوبند‘‘ جہاں سے ایک مسلم فرقے کا جنم ہوا‘ وہاں مسلمانوں کا 70 فیصد سے زائد ووٹ تھا‘ وہاں سے بی جے پی نے کامیابی حاصل کر لی‘ جبکہ بی جے پی کا ایک ممبر بھی منتخب نہیں ہوا جو مسلمان ہو۔ انہوں نے ٹکٹ ہی نہیں دیے تھے۔ دوسرا اہم عنصر یہاں ایک نئی نسل کی مداخلت تھی کیونکہ ووٹروں کی بھاری اکثریت کی عمر 40 سال سے کم تھی۔ ان
کے اندر بھی تبدیلی اور ترقی کی شدید تڑپ تھی لیکن ان کے سامنے بی جے پی کے اس پروپیگنڈے کے علاوہ کوئی متبادل نہیں تھا۔ بی جے پی درحقیقت سرمایہ داروں کی وہ پارٹی ہے جس میں یہ نودولتیا طبقہ روایتی سرمایہ دارانہ پارٹی کانگریس کو ترک کرکے بی جے پی سے زیادہ منافع خوری والی پالیسیوں کی توقع کرتے ہوئے اس کی مہم میں اب ہر مرتبہ بھاری رقوم ڈال رہے ہیں۔ بیشتر ٹیلی ویژن چینلوںکے مالکان بھی اسی حکمران طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنی طبقاتی جارحیت کے لیے بی جے پی کو استعمال کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا انتہائی رجعتی زہر بھی پھیلا رہا ہے اور بی جے پی کو غریبوں کا ہمدرد بنا کر بھی پیش کر رہا ہے۔ پھر مودی جیسے مداری کے کرتب بھی انتہائوں پر ہیں۔ چائے بیچنے والے کے پس منظر کے ساتھ ساتھ مودی ایک نچلی ذات کا بھی ہے۔ ان دونوں کو وہ اپنی غریبی کے ناٹک کے لیے بھرپور استعمال کر رہا ہے‘ لیکن یہ ناٹک زیادہ دیر چلیں گے نہیں۔ وہ درمیانہ طبقہ جو بھارت میں تقریباً15 سے 20 فیصد ہے، اس کی حمایت کی اصل بنیاد ہے۔ باقی 90 کروڑ کو یہ شاید انسان ہی نہیں سمجھتے لیکن ان کی غربت کا اپنی ناٹک گیری میں بھرپور استعمال کرتے ہیں۔درمیانے طبقہ کی آمدن میں بھی کمی واقعہ ہوئی رہی ہے۔ معاشی شرح نمو بھی اب ٹھہرائو کا شکار ہو گئی ہے۔ اور اگر یہ مصنوعی ترقی بھی گر جاتی ہے تو پھر سماجی بحران کے تضادات شدت سے پھٹ سکتے ہیں۔
ہندوستان میں مودی سرکار کے دو سالوں میں دنیا کی دو سب سے بڑی ہڑتالوں کا وقوع پذیر ہونا اور طلبہ کی مختلف تحریکوں کا بار بار ابھرنا ایک حقیقی طبقاتی کشمکش اور انقلابی سوشلزم کی سیاست کے مستقبل کی غمازی کرتے ہیں۔ اگر کمیونسٹ پارٹیوں کی قیادتیں پچھلے 70 سال کے تجربات سے سبق حاصل نہیں کرتیں اور اپنی پارلیمانی تنگ نظری کو ترک نہیں کرتیں تو تحریک کی قیادت کبھی نہیں کر سکیں گی۔ جبکہ اگر تحریک اٹھ کھڑی ہوئی تو اس طبقاتی جدوجہد کا سیلاب ان لیڈروں کو تنکوں کی طرح بہا کر لے جائے گا۔ ہندوستان کا محنت کش طبقہ ہندو رجعتیت اور سرمایہ دارانہ تشدد و استحصال سے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی نجات حاصل کر سکتا ہے‘ لیکن اس فریضے کی ادائیگی اور فتح کے لیے ان محنت کشوں کو ایک مارکسسٹ لینن اسٹ پارٹی درکار ہے‘ جس کا انقلاب کی منزل سے پیشتر کوئی پڑائو نہ ہو!

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں