"DLK" (space) message & send to 7575

ہالینڈ: وحشت ٹلی‘ جبر جاری

ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزیٹ کے حیران کن نتائج کے بعد بدھ کو ہالینڈ کے انتخابی نتائج نے ایک دفعہ پھر ذرائع ابلاغ کے تجزیہ نگاروں کو غلط ثابت کر دیا، لیکن اس بار معاملہ الٹ تھا۔ اس بار انہوں نے گیرٹ ولڈرز کی دائیں بازو کی شہرت کا غلط اندازہ لگایا۔ اس کی پارٹی (PVV) 13.1 فیصد کے ووٹ کے ساتھ دوسرے نمبر پر آئی، میڈیا کے شور و غوغا کے باوجود اس کے ووٹوں میں صرف 3 فیصد اضافہ ہوا۔ اگرچہ ولڈرز کی زیر قیادت ایک' نیو فاشسٹ‘ حکومت کا 'خطرہ‘ عارضی طور پر ٹل گیا لیکن روٹ کی تیسری وزارت عظمیٰ کے دوران محنت کشوں اور عوام کو کٹوتیوں اور فلاحی ریاست کی مراعات (جو ماضی میں محنت کشوں نے اپنی جدوجہد سے حاصل کی تھیں) کی منسوخی کا عمل جاری رہے گا۔ یورو زون مخالفت اور زینو فوبیا (اجنبیوں سے نفرت) ختم نہیں ہوئی۔ روٹ نے ولڈرز کی نعرے باری کو قدرے ہشیاری سے استعمال کیا ہے۔ مارچ کے شروع میں روٹ نے تارکین وطن کے نام ایک کھلے خط میں ان سے کہا، ''اگر تمہیں یہ جگہ پسند نہیں تو یہاں سے نکل جائو‘‘۔ 
روٹ کی وی وی ڈی اور کرسچئن ڈیموکریٹس کی دائیں بازو کی پارٹیوں کے ووٹ سکڑ گئے اور ان کی پارلیمانی سیٹیں 79 سے 42 ہو گئیں۔ 150 کی پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے کم از کم 76 ارکان کی ضرورت ہوتی ہے۔ سب سے بڑی ہار ہالینڈ کی لیبر پارٹی کی ہوئی جو پچھلی حکومت میں ایک اہم اتحادی تھا۔ لیبر پارٹی کو محنت کشوں نے پچھلی حکومت کے دوران دردناک کٹوتیوں اور سوشل ویلفیئر پر حملوں میں ساتھ دینے پر سزا دی۔ اس کے ووٹ 25 فیصد سے گر کر 6 فیصد ہو گئے۔ اب صرف نو سیٹوں کے ساتھ یہ گرین پارٹی اور سابق مائوسٹ سوشلسٹ پارٹی سے بھی چھوٹی پارٹی بن گئی ہے۔ سوشلسٹ پارٹی کی تارکین وطن اور دوسرے مسائل پر دائیں بازو والے مؤقف کی وجہ سے اس کے ووٹ بھی 9.6 فیصد سے 9.1 فیصد پر آ گئے۔ 
اس کے برعکس گرین لیفٹ کے ووٹ 2.3 فیصد سے بڑھ کر 9 فیصد ہو گئے۔ 34 سال کی عمر کے ایک تہائی سے زیادہ نے انہیں ووٹ دیئے اور ایمسٹرڈم میں تو رائے دہندگان کے پانچویں حصے کے ووٹ حاصل کرکے یہ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔
ہالینڈ میں انتہائی منقسم انتخابی مہم اور کشیدہ سماجی صورتحال کی وجہ سے ٹرن آئوٹ 82 فیصد رہا‘ جو پچھلے 31 سالوں میں سب سے زیادہ ہے‘ لیکن اپنی تمام تر شدید نعرے بازی کے باوجود گرینز اور ڈیموکریٹس 'روٹ‘ کی قیادت میں ایک دائیں بازو کی حکومت میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں۔ ان کی زیادہ تر حمایت پیٹی بورژوازی کی کچھ پرتوں میں ہے، جس کی وجہ سے یہ پارٹیاں امریکہ میں ان لوگوں کی طرح ہیں‘ جو ٹرمپ کی مخالفت میں بالآخر وال سٹریٹ کی حمایتی اور سرمایہ دارانہ ڈیموکریٹک پارٹی کی گود میں چلے جاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس حقیقی تبدیلی کا کوئی واضح پروگرام نہیں ہوتا۔
ان انتخابات کے نتیجے میں ہالینڈ شاید اپنی جدید تاریخ کی سب سے پیچیدہ اتحادی حکومت کی تشکیل کی طرف جائے گا، نتیجتاً کم از کم چار پارٹیوں کی مخلوط حکومت بنے گی جو سرمایہ داری کے بحران کی وجہ سے 'ہالینڈ کی بقا‘ کے لیے کٹوتیوں کے فیصلے کرے گی، اگرچہ یہ کام اتنا آسان نہیں ہوگا۔ ہالینڈ کے محنت کشوں کی بغاوت 'فی الحال‘ فتح کا جشن منانے والی پارٹیوں کے لیے ایک ڈرائونا خواب ثابت ہو گی اور نئی حکومت بہت جلد تجزیہ نگاروں کے تجزیوں کے برعکس مشکل میں پڑ جائے گی۔ 
ہالینڈ کے یہ انتخابات اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یورپ اور دوسری جدید سرمایہ دارانہ ریاستوں میں معاشی توازن کے بگاڑ نے اصلاحات اور سماجی فلاحی ریاست کے نظام کو چکنا چور کر دیا ہے۔ اس سے سیاسی توازن بھی بگڑ رہا ہے۔ یورپ میں محنت کشوں اور حتیٰ کہ سرمایہ داروں کی پارٹیاں بھی زوال کی کیفیت میں ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہالینڈ کی سیاست پر راج کرنے والی دو بڑی پارٹیوں، کرسچئن ڈیموکریٹس اور سوشل ڈیموکریٹس، کی شکست و ریخت اس عمل کی واضح تصویر کشی کرتی ہے۔ اتحادی حکومت کی تشکیل میں کافی وقت لگے گا، اس دوران خوب ہارس ٹریڈنگ اور پس پردہ معاہدے ہوں گے۔ یہ اپنے آغاز سے ہی بحران کا نسخہ ہو گا۔ اتحادیوں کا ایک حصہ اعتراضات، فیصلوں پر اختلافات اور 'تحفظات‘ کا اظہار کرے گا تو نام نہاد بایاں بازو سخت ترین کٹوتیوں پر احتجاج کرے گا‘ اور حکومت چھوڑنے کی دھمکی دی جائے گی کیونکہ سماجی عدم استحکام کے اس دور میں پارٹیوں پر نیچے سے بہت ہی زیادہ دبائو ہے۔ 
ہالینڈ میں بعد از جنگ‘ معاشی ابھار کے دور میں حالات بہت ہی مختلف تھے۔ ایمسٹرڈم کو 'یورپ کا دل‘ کہا جاتا تھا۔ ستر کی دہائی میں لیبر پارٹی کی حکومت نے سب سے ریڈیکل اصلاحات کیں۔ وزیر اعظم جوپ ڈینئل نے آمدنی کی مساوی تقسیم پر زور دیا اور صحت، تعلیم اور رہائش کے شعبوں میں ریڈیکل اصلاحات متعارف کیں۔ ڈینئل نے چیزوں کو خفیہ رکھنے کو مسترد کیا اور سیاسی طاقت سے منسلک رعونت کو بھی مسترد کیا۔ وہ طلبا اور ٹریڈ یونینز کے سرگرم کارکنان کے ساتھ میٹنگز میں شریک ہوتا اور حتیٰ کہ احتجاجی مظاہروں میں بھی شریک ہوتا۔ آج کل جب تارکین وطن کو تمام تر مسئلوں کی وجہ قرار دیتے ہوئے انہیں یورپ سے نکالا جا رہا ہے، کچھ لوگ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ ڈینئل کی حکومت نے اُس وقت ہالینڈ میں رہنے والے تمام غیر قانونی تارکین وطن کو قانونی حیثیت دی‘ لیکن ڈینئل کی حکومت بھی اپنی بہت سی اصلاحات کو لاگو نہ کر سکی کیونکہ ہالینڈ کی سرمایہ داری کی حدود و قیود حتیٰ کہ اپنے عروج کے دنوں میں بھی اسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی تھی کہ وہ پورے سماج میں خوشحالی لائے۔ اس کے بعد آنے والے سالوں میں معاشی ترقی کم ہونا شروع ہوئی، حکومتی اخراجات بڑھ گئے اور حکومتی اصلاحات کی وجہ سے بورژوازی اپنے شرح منافع کے بارے میں فکرمند ہونا شروع ہوئے۔ کینشین ماڈل کے انہدام اور نیو لبرل معاشیات کے اطلاق سے ہالینڈ کا سماج‘ سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر زوال پذیر ہو گیا۔ 
'ولڈرز‘ کا ابھار ہالینڈ کی سیاست میں دائیں بازو کے شفٹ کی علامت ہے اس کی وجہ نہیں۔ یہ سرمایہ دارانہ سماج کے گہرے بحران اور ہالینڈ کی بائیں بازو اور محنت کشوں کی روایتی قیادت اور ٹریڈ یونین قیادت کی محنت کشوں کو ایک انقلابی متبادل دینے میں نااہلی یا زوال پذیر نظام سے مصالحت کی غمازی کرتی ہے۔ یہ بحران دراصل نظام کے نامیاتی بحران کی غمازی کرتی ہے‘ باوجود اس کے کہ جنوب یورپی ممالک کی نسبت ہالینڈ کی معیشت نسبتاً مستحکم ہے۔ یہ انتخابی نتائج ‘ آنے والے دنوں میں سیاسی عدم استحکام اور شدید طبقاتی جدوجہد کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔ ہالینڈ 17 ملین آبادی والا ایک چھوٹا سا ملک ہے لیکن آج یہ گہرے سماجی، معاشی اور ثقافتی بحرانوں کا شکار ہے۔ ایک سابق نوآبادیاتی طاقت ہونے کے ناتے بعد از جنگ کے معاشی ابھار کے دور میں اس نے تارکین وطن محنت کشوں کی بڑی تعداد کو ملک میں قبول کیا۔ اب معاشی زوال کے عہد میں تارکین وطن‘ بڑھتی ہوئی نابرابری میں سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ 
80ء کی دہائی سے دائیں بازو کی لبرل جماعت، لیبر پارٹی اور ٹریڈ یونینز‘ بورژوا پارٹیوں کے ساتھ مصالحت کر رہے ہیں اور محنت کشوں کی حاصل کی گئی حاصلات کو ختم کرتے جا رہے ہیں۔ ہالینڈ کے محنت کشوں کی طبقاتی جدوجہد کی طاقتور روایات موجود ہیں۔ یہ تضادات اور دائیں بازو کے عارضی ابھار بہت جلد ختم ہوں گے اور سماج ایک دفعہ پھر بائیں طرف پیش رفت کرتے پورے یورپی براعظم کو اپنے لپیٹ میں لے لیں گے۔ یورپ کو صرف اور صرف سوشلسٹ فیڈریشن آف یورپ کی بنیاد پر ہی متحد کیا جا سکتا ہے۔ یورپ کے کسی ایک اہم ملک میں پرولتاریہ کی انقلابی فتح اس عمل کو یقینی بنائے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں