"DLK" (space) message & send to 7575

کیا چین سپر پاور بن سکے گا؟

پچھلی چنددہائیوں سے چین کی معاشی اورصنعتی ترقی کابہت شورہے لیکن پاکستان میں تو60 اور70کی دہائیوں میں بھی چین کی ترقی کانسبتی فرق بہت واضح تھاجبکہ اس وقت چین میں سرمایہ داری نہیں تھی اورمعیشت ریاستی ملکیت اورکنٹرول میں تھی۔ آج چین کاامریکہ کو زیرکرکے سپرپاوربننے کابیانیہ زورپکڑتاجارہا ہے۔ سپرپاورکے تعین کی حدود صرف معاشی اورصنعتی ترقی تک نہیں ہوتیں بلکہ اس کی خارجی پالیسی کادائرہ کارواثرورسوخ،اسکی فوجی طاقت اوراسکی دنیابھرکے ممالک کی معیشتوں سے لیکرسیاست اور سفارتکاری تک کو ملحوظ خاطررکھ کرہی کیاجاسکتاہے۔
امریکی سامراج کوئی قدیم سلطنت اورسپرپاورنہ تھا۔حقیقی طورپرامریکہ سپرپاورکے طورپردوسری عالمی جنگ کے بعدفیصلہ کن اندازمیں نمودارہواتھالیکن اسکی سپرپاورکوسوویت یونین کی سپرپاور کا چیلنج اورخطرہ مسلسل قائم رہا۔سوویت یونین کے انہدام کے بعدعمومی طورپرتاثریہ ابھراکہ اب امریکی سامراج کے لیے کوئی روک ٹوک والی طاقت نہیں ہوگی۔تاہم آج امریکی سیاسی واقتصادی اجارہ داری اتنی حاوی اورطاقتورنہیںرہی کہ اس عالمی تسلط کوقائم رکھ سکے۔امریکی سامراج دوسری عالمی جنگ کے بعداس لیے سپرپاوربنا کہ جنگ کے دوران اسکی جنگی آلات کی صنعت کوبے پناہ منافع اورسرمایہ جمع کرنے کاموقع ملااورپھرجنگ کے بعدبربادہونے والے یورپ، جاپان اوردوسرے خطوں کی تعمیرنوکے عمل سے اسکی تعمیراتی اوردوسری بے شمارصنعتوں کوبے پناہ دولت اورمنافع خوری کے مواقع میسرآئے۔اسی عرصے میں اس نے فوجی اورسفارتی طاقت اورمعاشی ترقی حاصل کی۔اس سے اسکوداخلی طورپربھی سماجی ترقی کے مواقع میسرآئے اورامریکہ میں تیزی سے بڑھتے ہوئے معیارزندگی کی وجہ سے امریکی سرمایہ داری کومزدوروںکے داخلی چیلنج اوربغاوتی تحریکوں کوکندکرنے کابھی موقع ملا ۔اگرہم آج کے امریکہ کی معیشت،معاشرت،عسکری اورسفارتی قوت کاجائزہ لیں توہمیں واضح طورپریہ روبہ زوال ہوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیںلیکن سوال
یہ پیداہوتاہے کہ کیاچین اسکی جگہ سپرپاورکامقام حاصل کرسکے گا؟ 
اگرہم آج چین کی اقتصادی اورخارجی پالیسیوں کاجائزہ لیں توچینی اجارہ داریاں اورحکمران پھیلائو کی جانب مائل ہیں جبکہ امریکہ ایک پسپائی اختیارکرتے ہوئے محسوس ہوتاہے۔اس سال جنوری میں جب چین کے صدرشی جن پنگ نے ڈیوس سوئٹزرلینڈ میں مالیاتی اورسیاسی سربراہان کے سالانہ اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے اس ارادے کااظہارکیاکہ''چین معاشی عالمگیریت کو'گائیڈ‘کرنے میں دلچسپی رکھتاہے‘‘تو اسکے دودن بعدصدر شی نے جینوامیں اقوام متحدہ کے ہونے والے اجلاس میں امریکہ کویہ تنبیہہ کی کہ وہ عالمی تسلط کوختم کرے کیونکہ اسکاانجام یہ ہو سکتاہے کہ نئی ابھرنے والی طاقتوں کودبانے والے پرانے یونانی کردارسپارٹانے جب نئی ابھرتی ہوئی طاقت ایتھنزپرجبرکیاتوخودٹوٹ گیاتھا۔یہاں صدرشی نے امریکہ سے ایک نئے عالمی نظم ونسق کوقبول کرنے کامطالبہ کردیا۔2008ء کے عالمی سرمایہ داری کے اقتصادی کریش کے بعددنیا کے بیشتر ممالک میں چینی ماڈل(جوسرمایہ داری کے دو مختلف طریقہ ہائے کارکاملغوبہ ہے) کواپنانے کی بات ہونے لگی تھی۔اب اسکو ''چینی ماڈل‘‘کی بجائے گلوبلائزیشن اورنئے عالمی نظم ونسق کاچینی''حل‘‘ گرداناجارہاہے۔یہ ''حل‘‘چین میں پچھلے سال منعقدہونیوالی چین کی ''کمیونسٹ پارٹی‘‘ کی کانگریس میں سرکاری پالیسی کے طورپرپیش کیاگیا۔گوچین نے عالمی طور پر اقتصادی، سیاسی اورسفارتی میدانوں میں وسیع مداخلت اوراثرورسوخ حاصل کرنے کے کافی اقدامات اٹھائے ہیں لیکن ایک سپرپاورکی اجارہ داری اورتسلط حاصل کرنے سے چین ابھی بہت دورہے۔چین اقوام متحدہ کوامریکہ اورجاپان سے کم مالیاتی امداددیتاہے۔اس کے ایشین انفراسٹرکچربینک اورنیوزڈویلپمنٹ بینک،آئی ایم ایف کامقابلہ نہیں کرسکتے اوراسکو ابھی یہ ضرورت ہے کہ چین کی کرنسی یوہان کوآئی ایم ایف 5ریزروکرنسیوں میں شامل رکھے۔ اسی طرح چین عالمی طورپرفوجی کارروائیوں میں بہت پیچھے ہے۔فوجی طاقت کے پھیلائواوردہشت کے بغیرکوئی سپرپاورنہیں بن سکتی۔مشرق وسطیٰ میں داعش اورمذہبی دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کی لفظی حمایت کی گئی لیکن چین نے عملی فوجی کارروائیوں میں شراکت سے اجتناب کیے رکھاہے۔چین میں اس وقت 16لاکھ مزدور امریکی کمپنیوں میں کام کرتے ہیں۔چین آج بھی امریکی اجارہ داریوں کوسستی اورہنرمندمحنت فراہم کرتاہے۔مثلاً اگرہم کپڑے کی صنعت کا جائزہ لیں تو چین میں امریکہ سے 46 فیصد کم پیداواری لاگت آتی ہے۔جبکہ سمارٹ فونوں کی صنعت میں امریکی اجارہ داریوں کویہ لاگت 37فیصد کم پڑتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں امریکی اجارہ داریوں کی منافع خوری میں چین کے حکمران بھی اپنے مزدوروں کا استحصال کروارہے ہیں۔ آج بھی چین کو 25 فیصد برآمدات کے لیے امریکی منڈی کی ضرورت ہے۔ اس سے امریکی منڈی پر چینی صنعت اور معیشت کے انحصار کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسی طرح مجبور ی کے عالم میںچین نے تقریباً تین سے پانچ ہزار ارب ڈالر کے امریکی بانڈخرید رکھے ہیں۔ اس مجبوری کوامریکی ڈالر کو عالمی کرنسی
کے طور پرچلانے کے لیے امریکی وزارت خزانہ استعمال کرتی ہے۔ اگلے بیس سال میں چین نے بوئنگ سے 6000 نئے جہاز خریدنے کا منصوبہ بنایا ہے جس سے بوئنگ کھرب ڈالر سے بڑی اجارہ داری بن جائے گی۔ چین کے کل دفاعی جنگی آلات اور فوجی اخراجات امریکہ کے اخراجات کا ایک چوتھائی بھی نہیں ہیں۔اس پس منظر میں اگر جائزہ لیا جائے تو اس وقت چین کی سرمایہ دارانہ معیشت میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ امریکہ کو مات دے کر ایک سپر پاو رکے طور پر غالب آجائے۔ دوسری جانب امریکی سامراج کی زوال پذیری بھی عیاں ہے۔چین اور امریکہ کے درمیان دنیا کا سب سے اہم اور بڑا باہمی اقتصادی رشتہ بھی ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ انکی سالانہ مشترکہ تجارت600ارب ڈالر سے زیادہ ہے اور ایک دوسرے کی معیشتوں میں 350ارب ڈالر سے زیادہ سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔ یہ ان مادی مفادات کا تعلق ہے جو کسی تنازعے کو تصادم میں بدلنے سے روک رہے ہیں اور نہ ہی امریکہ اور چین کے درمیان اب کوئی نظریاتی تضاد موجود ہے۔1978ء سے قبل کے منصوبہ بند معیشت والے چین سے بہت تضادات پائے جاتے تھے ،لیکن منڈی کی معیشت والے چین سے کسی فکر کا کوئی تضاد نہیں ہے۔
چین کے سپرپاورنہ بن سکنے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ چین میں سرمایہ دارانہ صنعت کاری کاابھاراس نظام زرکے عروج کی بجائے اسکے زوال کے دورمیں شروع ہواتھا۔اس زوال میں اسکی ترقی کا کردار ناہموار اور غیرمساوی شکلیں اختیارکرتاگیا۔1978ء میں چین میں سرمایہ داری کے دوبارہ استوارکا آغازمائوزے تنگ اورچواین لائی کی وفات کے بعدشروع ہواجوبنیادی طور پر سامراجی اجارہ داریوں کی سستی محنت کے حصول کے لیے چین میں کی جانے والی بھاری صنعت کاری کامرہون منت تھا۔ چین میں سرکاری طورپر23کروڑلوگ بیروزگارہیں 95کروڑ 5 ڈالر سے کم پرگزاراکرنے پرمجبورہیں اورچین میں جنوبی افریقہ کے بعدامارت اورغریب کی سب سے بڑی خلیج ہے۔چونکہ امریکہ، یورپ اورترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں 2008ء کے زوال سے بحالی ابھی تک نہیں ہوئی اور1974ء تک جیساصحت مند سرمایہ داری کااجراء اب ان ترقی یافتہ ممالک میں ممکن نہیں،اس لیے چین میں جوترقی ہوئی ہے اس سے آنے والے وقت میں چین میں داخلی انتشاربڑھنے کازیادہ خدشہ ہے۔چین کا مزدورطبقہ اس جدید ٹیکنالوجی میں کام کرکے حجم اورشعور کے لحاظ سے زیادہ طاقتورہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین شاید دنیا کا واحدملک ہے جوبیرونی دفاع کی نسبت داخلی سکیورٹی پرکہیں زیادہ اخراجات کرتاہے۔ چین کی شرح نمو بھی اس زوال کامقابلہ نہیں کرسکی اور2012ء میں 14 فیصدسے گرکراب 6.7فیصد ہوگئی ہے۔ اب جہاں پرانی سپرپاورزگررہی ہیں وہاں چین ان کی جگہ لینے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ویسے کسی سپرپاورکی ضرورت ہی کیاہے!ان سامراجی سلطنتوں کا کردار دنیابھرکے محنت کشوں پرجبرواستحصال کے ستم ڈھاناہی تو ہوتاہے۔اب شایدانسانی تاریخ میں محنت کشوں کی معاشی اورسماجی آزادی کاوقت قریب آن پہنچاہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں