"DLK" (space) message & send to 7575

غربت سے فراڈ!

ایک عرصے سے عالمی کارپوریٹ تدریسی ادارے اورتحقیقی اجارہ داریاں یہ پروپیگنڈاکرتے آرہے ہیںکہ دنیا میں غربت کم ہوتی چلی جارہی ہے۔ہمارے پڑھے لکھے درمیانے وبالادست طبقات کے ماہرین ان بڑے بڑے سامراجی اداروں اور''تھنک ٹینکس‘‘کے ناموں اورشہرت سے مرغوب ہوکرنہ صرف ان دعوئوں کوتسلیم کرتے آرہے ہیں بلکہ ان کاپرچارکرکے اس استحصا لی نظام کوحتمی اورکامیاب قراردے رہے ہیں۔کارپوریٹ سرمائے کے اہم جریدے اکانومسٹ نے اپنے گزشتہ شمارے میں غربت میں کمی پرایکرپورٹ شائع کی ہے۔اس رپورٹ میں لکھاگیاہے کہ''1981ء سے انتہائی غربت میں رہنے والے افراد کی تعدادمیں ایک ارب کی کمی واقع ہوئی ہے۔جبکہ غیرانتہائی غربت (Non Absolute Poverty)والے انسانوں کی تعداد میں4 ارب کااضافہ ہوگیاہے۔جبکہ غربت کی شرح ناپنے کا جدیدمعیار1ڈالر 90 سینٹ یومیہ کی آمدن کا عدد مقرر کیا گیا ہے‘‘۔ سب سے پہلے تویہ غورکرنے والی بات ہے کہ غربت یاانتہائی غربت کامعیارطے کرنے والے کون ہیں؟
آئی ایم ایف،ورلڈبینک اوراقوام متحدہ کی مختلف اقتصادی اورانسانی حقوق وترقی کی تنظیموں کے یہ افسران اس غربت کی لکیرسے اوپرہی نہیں رہتے بلکہ اشرافیہ کی آمدن رکھتے ہیں۔اور اگرانتہائی غربت کامعیار 190 روپے یومیہ ہے توغیرانتہائی غربت کامعیارکتنااورکہاں تک ہوگا!لیکن اس سروے کے چارٹرکاجائزہ لیاجائے توا س کرہ ارض پرانتہائی غربت اورغیرانتہائی غربت میں رہنے والوں کی تعداد 80سے90فیصدآبادی بنتی ہے۔لیکن اصل سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا 200 روپے یومیہ یا 500روپے یومیہ کی آمدن سے انسان کاگزارا ہوسکتاہے؟جن افرادکو 500 روپے روزانہ اجرت ملتی ہے تویہ پندرہ ہزارروپے ماہوارتنخواہ بنتی ہے۔اب اس تنخواہ پرایک گھرچلاناممکنات میں سے نظرنہیں آتالیکن کروڑوں ''گھر‘‘اس آمدن پرچلنے کے لیے مجبورہیں۔ بجلی اوردوسرے بلوں سے لیکرسکول کی فیسوں اورعلاج کے اخراجات کاہی جائزہ لیاجائے تویہ اجرت توانہی میں ہی صرف ہوجاتی ہے۔اگراس رقم کوایک ہزار روپے ماہوارتک بھی بڑھادیاجائے توگزراپھربھی بمشکل ہی ہوتاہے۔ان عالمی اداروں اورسامراجی مالیاتی اداروں، جریدوں اوران کے تحقیقی ماہرین کی کمپنیوں میں سے زیادہ شورچین میں سرمایہ داری کی دوبارہ استواری سے غربت میں کمی پرمچایاجارہاہے۔لیکن گلوبل سروے کے مطابق چین کی95کروڑ آبادی 5ڈالر یومیہ سے بھی کم پرگزراکرنے پرمجبورہے۔بھارت کی صورتحال ا س سے بھی زیادہ بھیانک ہے،جہاں دنیا کی سب سے بڑی غربت مجتمع ہے۔
پاکستان میں ٹریڈ یونین کاموجودہ مطالبہ 'مزدورکی کم از کم تنخواہ ایک تولہ سونے کی قیمت کے برابرکی جائے‘ نہ توغیر حقیقی ہے اورنہ ہی خیالی اوریوٹوپیائی ۔اگرماضی میں جائیں توجنوری 2003ء میں سونے کی قیمت فی دس گرام 6030روپے تھی اورسرکاری شعبے میں کم ازکم اجرت 6650روپے ماہانہ اورفارمل سیکٹرمیں 5596 روپے ماہانہ تھی۔اب 2017ء میں کم ازکم تنخواہ سرکاری طورپر14000روپے طے گئی ہے جبکہ دس گرام سونے کی قیمت 44000روپے ہے۔گویااجرت تین گناکم ہوچکی ہے ۔دوسری طرف 'آٹھ گھنٹے کام کادن‘اب معروف انڈسٹریزمیں '9گھنٹے کام کادن‘اورنجی شعبے کے 90فیصدحصے میں '12گھنٹے یازیادہ دورانیہ کادن‘ ہوچکاہے۔اگرہم اوقات کارکے بڑھنے کے ساتھ،مشینوں کی پیداواری استعداد کارکو دیکھیں تو2003ء کے اجرت کے پیمانوں کے اعتبارسے آج مزدورکی کم ازکم اجرت 66000 روپے ماہانہ بنتی ہے۔ مگرحقیقی
صورتحال کہیں سنگین ہے۔حکومت کی طرف سے اجرت کاغیر حقیقی تعین اگرچہ 14000 روپے ماہانہ ہے، مگر اس شرح سے اجرت کی ادائیگی گنتی کے چند اداروں میںکی جاتی ہے جبکہ پھر90فیصد سے زیادہ ادارے، کارخانے ''طے شدہ اجرت‘‘ کا نصف اداکرتے ہیں۔ اس ضمن میں سرمایہ داری نظام کاطے شدہ حربہ یعنی محنت کی منڈی میں ایک خاطرخواہ تعداد بے روزگاروں کی رکھ کر 'نام نہادروزگار‘پرموجود مزدورکاشدید استحصال کیاجائے، اگروہ چوں چرا کرے تو اس کو فارغ کردیا جائے۔اس ظلم واستحصال کے کاروبار میں ریاستی قوانین،لیبر ایکٹ، مزدوروں سے متعلق عدالتیں اور نچلی سطح کے ادارے مزدورکی بجائے سرمایہ داروں کی طرف داری کرتے نظر آتے ہیں۔ فیکٹریوں میں مستقل ملازمت کی نسبت دس سے تیس فیصد تک رکھی جاتی ہے باقی مزدوروں کو کم ترین اجرت اور 'قانونی‘مراعات سے محروم رکھنے کیلئے نام نہاد ٹھیکے داری نظام قائم کیا گیا ہے،جس میں کمیشن کے عوض مزدوروں کو تھرڈ پارٹی سے لیا جاتا ہے۔اس طرح فیکٹری یا ادارہ ‘مزدور کے جملہ معاملات سے لاتعلق رہتا ہے البتہ زیادہ سے زیادہ کام کرانے، سزائوںاور تعزیروں کے معاملات میں کسی طور تساہل برتا جاتا ہے نہ ہی تب تھرڈ پارٹی آڑے آتی ہے۔
لیکن غربت صرف جسمانی اذیت کا باعث ہی نہیں بنتی بلکہ ذہنی وسماجی اور اخلاقی طور پر انسانوں کو مجروح کرتی ہے۔ محرومی کی ذلت جہاں بھوک کی آگ سے جسم وجاں کو اذیت کا شکار بنادیتی ہے وہاں وہ بیگانگی اور اس محرومی سے نجات کے لیے جرم ، تخریب کاری اور ایسے اخلاقی وسماجی منفی رحجانات کو ابھارتی ہے جس سے معاشرے کا خلفشار اور انسانی زندگی مزید تلخ ہوجاتی ہے۔ خونریزی اور فسادات بڑھتے ہیں۔ چوری، ڈاکے کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ جسمانی غربت ‘ روحانی غربت کو ختم کردیتی ہے۔ اس سے جہاں انسان مطیع اور توہم پرستی کا شکار ہوتا ہے وہاں اسکے جذبے اور احساسات بھی مجروح ہوتے ہیں۔ رشتوں سے لگن مٹ جاتی ہے۔ ہر ناطہ مطلب کے لیے ‘ہر رشتہ مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ اس نظام میں پچھلے کچھ عرصے سے ہر سیاسی پارٹی اور اعلیٰ ماہرین وتجزیہ نگار ترقی کا ایک ہی نسخہ پیش کررہے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری! اس کے لیے پر کشش اقدامات ہر حکومت کا نصب العین بن جاتا ہے۔ لیکن یہ اقدامات ‘ مزدوروں کی اجرتوںمیں کٹوتیاں اور سرمایہ کاروں کو زیادہ منافع دینے کی پالیسیاں ‘صرف محنت کے استحصال اور سامراجی وقومی سرمایہ داری کی لوٹ مار کو ہی فروع دیتے ہیں۔ہمارے حکمران طبقات تاریخی طور پر اتنے تاخیر زدہ ہیں کہ اپنے منافعوں، سماجی مرتبت اور سیاسی طاقت کے حصول کے لیے ان کے پاس سوائے کرپشن کے کوئی طریقہ کارنہیں ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری اور پراجیکٹس میں ان کو بنیاد ی طور پر صرف اپنے کمیشنوں اور کرپشن سے مطلب ہوتا ہے۔ اگر وہ ایسے نہ کریں تو پھر وہ اپنے اس سیاسی وسماجی مقام کو حاصل ہی نہیں کرسکتے۔ جس سے فراڈاور دھوکہ دہی سماجی اخلاقیات کا
معمول بن جاتے ہیں۔ لیکن پھر قلت اور محرومی کے اس معاشرے میں یہ بدعنوانی اور فراڈ اوپر ہی نہیں ہوتا بلکہ معاشرے کی رگوں اور شریانوںمیں اس کا زہر سرائیت کرجاتا ہے۔ اگر پاکستان کی کل معیشت میں کالا دھن جو 1978ء میں 5فیصد تھا اب73فیصد سے تجاوز کرچکا ہے تو یہ کوئی حادثہ نہیں ہے ۔ ہر کوئی اس قلت سے نجات کی دوڑ میں کوئی نہ کوئی جائزناجائز طریقہ اور چھوٹا موٹا کاروبار کرکے اپنا گزارا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ حکمرانوں کا یہ مسئلہ نہیں ہے، ان کے پاس ہر ضرورت کی فراوانی ہے لیکن ان کی ہوس زر اتنی شدید ہے کہ وہ ان کی درندہ صفت نفسیاتی بیماری بن گئی ہے۔ وہ اربوں کے بعد کھربوں کی اندھی اور المناک دوڑ میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے لیے لڑ رہے ہیں، حکمرانوں کی لڑائیاں کبھی عدالتوں میں اور کبھی سیاسی بحثوں اور تکرار میں مسلسل جاری ہیں۔ کارپوریٹ میڈیا کو ان کے علاوہ کسی اور موضوع سے قطعاً کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے کیونکہ عوام کو انہی حکمرانوں کی لڑائیوں میں الجھا کر ان کو تماشبین بنا دیا جاتا ہے۔ وہ ان تماشوں سے اکتائے ہوئے بھی ہیں اور اپنی لڑائی مشترک طبقاتی بنیادوں پر لڑنے کے لیے کسی سیاسی متبادل کی تلاش میں بھی اضطراب کا شکار ہیں، اس نظام کی بربادیوں میں عوام زندہ درگور بھی ہیں ۔ لیکن ایسی صورتحال چل نہیں سکتی۔ اتنے انتشار اور ظلم میں امن اور استحکام ممکن نہیں ہے۔ یہ نظام جس فسطائیت اور خانہ جنگی کی جانب معاشرے کو دھکیل رہا ہے وہ اس کی اقتصادی ضرورت اور ترجیحات کا تقاضا ہے۔ اتنے بیمار نظام کو ایک انقلابی سرکشی سے بدلے بغیر کروڑوں محنت کشوں کی زندگیوں‘ تہذیب اور تمدن کی بقا ممکن نہیں ہے۔ سامراجی حکمرانوں کے غربت کے اعدادوشمار سے فراڈ کرنے سے غربت ختم نہیں ہوگی۔ ان غریب محنت کشوں کو صرف اپنی طبقاتی جدوجہد ہی اس غربت ، محرومی اور بیگانگی کی اذیتوں سے آزادی دلواسکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں