ایران میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں صدرروحانی نے دوبارہ بڑی اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے۔ان انتخابات میں ''اصلاح پسندوں‘‘کی فتح کاسامراجی ذرائع ابلاغ میں بہت شورہے۔جہاں کہیں کارپوریٹ سرمائے کومنافع خوری کاکوئی موقع نظر آتاہے تواس حکومت اورقیادت کے گن گانے لگتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ1979ء کے انقلاب کوقتل کرکے قائم کی جانے والی اشرافیہ کی اِس رجعتی آمریت میں انتخابات صرف سماجی دبائو اوربغاوت کوتحلیل کرنے کی حدتک ہی 'جمہوری‘ہوتے ہیں۔ان انتخابات میں حصہ بھی صرف وہی افراد لے سکتے ہیں جن کوغیرمنتخب پیشوائوں کی‘ سپریم کونسل‘ اجازت دے۔اوپر سے ٹھونسی گئی سیاسی،فکری،سماجی اوراقتصادی پالیسی سے ہٹ کرکوئی نظریہ یاپروگرام رکھنے والے کوسرے سے انتخابات میں حصہ لینے تک کی اجازت ہی نہیں ہوتی۔ حتیٰ کہ خود کو 'سپریم کونسل‘کی منشا کے مطابق ڈھالنے والے اکثرامیدواربھی نااہل قراردے دیئے جاتے ہیں۔شایدقدیم روس میں زارشاہی کے بدترین جبرکے تحت دومائوں کے انتخابات بھی اِس سے کہیں زیادہ جمہوری ہواکرتے تھے۔حالیہ ایرانی انتخابات میں بھی صدارت کے لیے369 امیدواروں نے درخواستیں سپریم کونسل کی خدمت میں پیش کی تھیں لیکن صرف 16کوالیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی۔ ان میں سے شایدہی کوئی ایساہوجس کی حکمران اشرافیہ کے گروہ سے قربت نہ ہو۔
ایران کی اس آمریت کے پیچھے اصل حاکمیت مالیاتی سرمائے کی ہی ہے۔1979ء میں انقلاب کے بعدردانقلاب سے برآمد ہونے والی حاکمیت نے اپنی تشریح کے تحت شاہ کے ایران کی ''غیر اسلامی اقدار‘‘کوتوختم کیالیکن بنیادی معاشی و اقتصادی ڈھانچہ وہی
رہا۔یہ ضرورہواکہ بہت سے ایسے لوگ بھی اب اقتدار میں داخل ہوگئے جو نچلی پرتوں سے تھے۔ رضا شاہ پہلوی کی مطلق العنان بادشاہت کاخاتمہ ہواتواس کے ساتھ اُس کے بہت سے حواری سرمایہ دار اورسیٹھ بھی فرارہوئے۔وہ جتنامال نکال سکتے تھے انہوں نے امریکہ اورمغربی دنیامیں پہنچایا لیکن ایک طوفانی کیفیت میں ساری دولت لے جانا ممکن نہیں تھا۔نئی انتظامیہ نے بہت سی معیشت کو سرکاری تحویل میں لیا لیکن اِس کا کنٹرول عوام کے نہیں بلکہ اِسی اشرافیہ کے پاس تھا۔ جنہوں نے ایک طرف اپنی سماجی بنیادیں مضبوط اور وسیع کرنے کے لئے اگرچہ تعلیم، صحت، روزگار، انفراسٹرکچر وغیرہ میں بہتری کی بڑی اصلاحات کیں، لیکن ساتھ ہی ریاستی جبر اور کنٹرول کو زیادہ سخت بھی کیا۔چونکہ بنیادی نظام سرمایہ داری ہی تھالہٰذارفتہ رفتہ ملائوں(یاان کے قریبی لوگوں)کاایک نیا سرمایہ دار طبقہ وجودمیں آیا۔نئی ریاست کوخودکومستحکم کرنے کے لئے امریکہ سمیت مغربی سامراجیوں کی لوٹ مار کوبندکرکے اُن کے اثاثے اوردولت بھی اپنے قبضے میں لینے پڑے جس سے اس کاامریکہ سے تصادم ناگزیرہوگیا۔شاہِ ایران چونکہ امریکہ کاپورے خطے میں سب سے اہم اتحادی اورگماشتہ تھا،اس لیے اس کے ظلم اوراستحصال کے خلاف ایران کے عوام میں پائی جانے والی نفرت کواس اشرفیہ نے اپنے لئے استعمال بھی کیا۔آج تک ایرانی ریاست 'سامراج مخالفت‘ کا تاثر دیتی ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ شاہ کی شاہی آمریت کے خلاف تاریخ میں سب سے زیادہ جدوجہدایران کے کمیونسٹوں نے کی تھی۔ ایران کی کمیونسٹ پارٹی، جس کانام ''تودہ‘‘ تھا،سب سے بڑی قوت بن کر1979ء کی تحریک میں ابھری اوراسی کے کارکنان نے تیل،پلاسٹک اور دوسری صنعتوںمیں مزدوروں کی ہڑتالوں اور مزاحمتی تحریک کو ابھارا،جس سے شاہِ ایران کے مضبوط اورجابرانہ اقتدار کاخاتمہ ہوا اورامریکہ کی بھرپورحمایت بھی اُسے بچانہیں سکی۔ لیکن تودہ پارٹی کی قیادت نے سب سے بڑاجرم یہ کیا کہ سوشلسٹ انقلاب کی بجائے 'قومی جمہوری انقلاب‘ کے پروگرام کے تحت ملائوں سے غیرمشروط اتحاد کرکے ان کی قیادت کوتسلیم کرلیا۔وہ جب اقتدار میں آئے توانہوں نے سب سے پہلے کمیونسٹوں کاہی وسیع قتل عام کیا۔ اس سے خوف اور دہشت بھی پھیلی اورپھرامریکہ کوشیطان قراردے کربیرونی تصادم کاوہ روایتی اوزاربھی تخلیق کیا گیا جو عوام میں سامراج دشمنی کے جذبات کواستعمال کرتے ہوئے نئی ریاست کے وجودکاجوازفراہم کرے۔ لیکن کسی بھی سرمایہ دارانہ معیشت میں جب منافعوں کی حصہ داری کا بحران پیدا ہوتا ہے، چاہے ملاں ہی برسر اقتدار کیوں نہ ہوں، تو ریاست میں تضادات پیدا ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایرانی ریاست کے انتہائی جکڑے ہوئے سیاسی ڈھانچے پر مسلط اشرافیہ میں بھی مسلسل پالیسی تضادات نمودار ہوتے رہے ہیں۔ ایک دوسرے کوقیدوبند کیا جاتا ہے اور سیاسی تنازعات بھی کھل کر سامنے آئے ہیں۔ اسی سے مغربی میڈیا نے یہ ''اصلاح پسندوں‘‘ اور ''قدامت پرستوں‘‘ کی دھڑے بندی کی اصطلاحات مینوفیکچر کیں جن کو آج بھی سیاست میں متبادل بنا کر پیش کیاجاتا ہے۔ جہاں رفسنجانی ، خاتمی اور روحانی کو نام نہاد''اصلاح پسند‘‘ دھڑے سے منسوب کیا گیا وہاں احمدی نجاد اور حالیہ انتخابات میں حصہ لینے والے ابراہیم رئیسی کو نام نہاد ''قدامت پرست‘‘ دھڑے کے امیدوار بنا کر پیش کیا گیا۔ لیکن کوئی بنیادی اور حقیقی فرق نہیں ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے میں جہاں ایران خطے کی بڑی فوجی اور اقتصادی طاقت بنا ہے‘ وہاں عام ایرانیوں کی محرومی، معاشی ناہمواری اور طبقاتی تضادات میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ اگر ہم حکومتی اعدادوشمار کو ہی تسلیم کرلیں تو کل 6 کروڑ 40 لاکھ کام کرنے کے اہل محنت کشوں میں سے 2 کروڑ 30 لاکھ یکسر بیروزگار ہیں۔ جن کے پاس روزگار ہے بھی اُن کی اجرتوں میں تاخیر اور ٹھیکیداری نظام کے تحت بدترین استحصال اور برطرفیاں عام ہیں۔ عام محنت کش، جن میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے، دو سے تین نیم ملازمتیں کرکے بھی گزارہ نہیں کر پاتے۔ مہنگائی بے پناہ ہے۔ ایران اِس وقت وینزویلا اور سوڈان سمیت دنیا کی بلند ترین افراطِ زر والے پانچ ممالک میں شامل ہے۔ امریکی اور یورپی سامراجیوں نے اپنے کٹھ پتلی ادارے اقوام متحدہ کے ذریعے ایران پر جو پابندیاں عائد کی تھیں ان میں ایران کے سرمایہ داروں کو قلت میں قیمتیں بڑھا کر فائدہ ہی ہوا ہے لیکن ایران کے محنت کش اور غریب بری طرح برباد ہوئے ۔
2015ء کے ایٹمی معاہدے کے بعد جزوی طور پر جو پابندیاں ختم ہوئی ہیں ان سے عوام کی بہت سی امیدیں وابستہ کروائی گئی ہیں، جو پوری ہوتی نظر نہیں آتیں۔ حالیہ انتخابات میں ''قدامت پرست‘‘ دھڑے اور اس کی بدنام زمانہ ''بسیح‘‘ ملیشیا کے خلاف نفرت کا ووٹ ہی روحانی کو ملا ہے، اُس کا اپنا کوئی کمال نہیں۔ جوں جوں ایران کا معاشی اور سماجی بحران شدت پکڑ رہا ہے حکمران اشرافیہ میں دراڑیں بڑھ رہی ہیں۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ ان کی مدد کو سعودی عرب پہنچ گیا ہے ۔ ٹرمپ نے عرب اور مسلم سربراہان مملکت سے خطاب میں ایران کو دہشت گردی سے منسوب کرکے ایرانی حکمرانوں کا ہی بھلا کیا ہے۔ مغربی سامراجی جہاں ایران کی ساری منڈی اور وسائل پر تسلط کے لئے بے چین ہیں وہاںشدت پکڑتی ہوئی سعودی ایران چپقلش کی بنیاد پر ہی امریکہ نے سعودی عرب سے 50 سالہ تاریخ میںاسلحے کی سب سے بڑی ڈیل کی ہے ۔ ٹرمپ نے 350 ارب ڈالر کے اِن معاہدوں کے ذریعے زوال پذیر امریکی اجارہ داریوں اور معیشت کو طاقت کا ٹیکہ لگانے کی کوشش کی ہے۔امریکی سامراج نے خطے میں مذہبی فرقہ واریت اور خونریزی کو بڑھانے کا نیا کھیل شروع کیا ہے۔ ایرانی حکمران اِن بیرونی تضادات سے داخلی فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔