"DLK" (space) message & send to 7575

برطانوی انتخابات : سوشلزم کا احیاء

8جون کو برطانیہ میں ہوئے عام انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ اور نشستیں جیتنے کے باوجود کونزرویٹیو پارٹی کو شکست ہوئی ہے۔ پارلیمانی اکثریت کھو دینے کے بعد ٹوری پارٹی اب شمالی آئرلینڈ میں دس سیٹیں حاصل کرنیوالی رجعتی جماعت ڈی یو پی کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔تھریسا مئے کو اپنی فتح کا یقین تھااور اس کی انتخابی مہم میں عوام کی جانب تحقیر واضح تھی۔یہاں تک کہ اس نے اپنے حریفوں سے مباحثہ کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔پارلیمان میں کسی جماعت کو سادہ اکثریت حاصل نہیں ہے اور تھریسا مے کی قیادت خاصی کمزور پڑ چکی ہے۔ اسے پارٹی کے اندر بورس جانسن جیسے پرانے کھلاڑیوں کی جانب سے بغاوت کا سامنا ہے اور سرعام اس کے استعفے کی باتیں ہو رہی ہیں۔
یہاں تک کہ کچھ ہفتے قبل تک وزیر خزانہ رہنے والا جارج آسبورن بھی تھریسا مئے کی حالت زار پر طنز کر رہا ہے کہ ''وہ ایک چلتی پھری لاش ہے اور سوال صرف یہ ہے کہ وہ اور کتنی دیر تختہ دار پر لٹکی رہے گی‘‘۔ٹوری پارٹی کے رہنما مائیکل ہیسلٹائن نے زیادہ درست طور پر اس شکست اور پارٹی کے بحران کا ذمہ دار2008ء کے کریش، اجرتوں میں جمود اور محرومی میں اضافے کو قرار دیا ہے۔بریگزٹ اور معاشی اور سیاسی توازن میں بگاڑ در اصل سرمایہ داری کے موذی بحران کا نتیجہ ہیں۔ بریگزٹ ہو یا نہ ہو، سرمایہ داری کا نامیاتی بحران سماج کو برباد کر رہا ہے اور اس کے خلاف سماجی یا سیاسی میدان میں بغاوت نا گزیر ہے۔
برطانوی مارکسسٹ راجر سلور مین کے مطابق ''متعدد مرتبہ انتخابات نہ کروانے کا کہنے کے بعد تھریسا مئے ایک آسان اور بھر پور انتخابی فتح کی لالچ میں بہہ گئی اور اس یو ٹرن کے لیے بریگزٹ مذاکرات کی خاطر ''مضبوط مینڈیٹ‘‘ کی نحیف سی توجیہ پیش کی۔کسی واضح پروگرام کے بغیر اور عوام کی نظروں میںاپنے کھوکھلے پن کے بے نقاب ہو جانے کے خوف سے اس نے خود کو چھپا لیا اور ٹی وی مباحثوں میں شریک ہونے سے انکار کر دیا اور صرف خفیہ طور پر بلائے گئے ''عوامی جلسوں‘‘ سے خطاب کیا جو اپنی مرضی سے چنے ہوئے خوشامدیوں پر مشتمل تھے‘‘۔
لیبر پارٹی کے رہنما جیرمی کوربن کی انتخابی مہم کی بنیاد سوشلسٹ پروگرام پر تھی جس میں سماج کی اکثریت کے مفاد میں دولت اور اقتدار کی از سر نو تقسیم اور معیشت سے جبر اور جھوٹ کا خاتمہ تھا۔ ہر طرف اس کے بری طرح پٹ جانے کا شور تھا لیکن اس نے لیبر پارٹی کے ووٹ میں 10فیصد اور29نشستوں کا اضافہ کیا ہے۔ پارٹی کے لیڈر کی حیثیت سے اس کی پوزیشن کم از کم فی الحال مستحکم ہوئی ہے۔برطانیہ کے میڈیا نے جس طرح سے کوربن کے خلاف بہتانوں کی مہم چلائی اس کی مثال شاید حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ مانچسٹر اور لندن میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد کارپوریٹ میڈیا نے کوربن کو''حماس، آئرش رپبلکن آرمی اور دوسرے دہشت گردوں کا دوست‘‘، ''مارکسسٹ انتہا پسند‘‘، ''قومی سلامتی کے لیے خطرہ‘‘، اور ''خفیہ کمیونسٹ‘‘ جیسے خطاب دیے۔ ٹی وی چینل اور اخبارات مسلسل اس پر الزام تراشی کرتے رہے اور اس کے انٹرویوز میں بھی ایسے ہی سوالات پوچھتے رہے۔
یہ انتخابات پارلیمانی لیبر پارٹی میں موجود ائیں بازو کے لیے بھی شکست فاش تھے جو پارٹی میں تیزی سے بڑھتی نوجوانوںکی رکنیت سے متنفر ہیں ۔یہ ممبران پارلیمنٹ اندر ہی اندر پارٹی کے جمہوری طور پر منتخب لیڈر کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہیں۔کوربن کی انتخابی مہم اور اس کی قیادت کو نقصان پہنچانے میں ٹونی بلیئر کے ان پیروکاروں کی سازشیں بھی کسی سے کم نہ تھیں۔کیسا المیہ ہے کہ کوربن کے پیش کردہ منشور پر نوجوانوں کے بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے سے ہی یہ لیبر ممبران پارلیمنٹ بے روزگار ہونے سے بچے ہیں ۔وہ پچھلے دو سال سے کوربن کو ہٹانے کی کوششیں کر رہے تھے۔اب یہ سازشی ایم پی کوربن کی آشیربادحاصل کرنے کے لیے پیش پیش ہیں۔ کچھ میڈیا ماہرین تو کوربن کو اگلا وزیر اعظم قرار دے رہے ہیں۔ٹونی بلیئر کی 'نئی لیبر‘ یا اس کی باقیات سے ٹکرائو اب ناگزیر ہو چکا ہے۔
انتخابی مہم میں کوربن کہیں بہتر اورپر کشش لیڈر کے طورپر سامنے آیا ہے۔ اس کے منشور کا عنوان'' اکثریت، نہ کہ چند‘‘تھا جسے نوجوانوںاور محنت کشوںمیں بہت پذیرائی حاصل ہوئی جنہیں بہت عرصے سے معاشی حملوں کا سامنا ہے۔یہ1945ء کے بعد لیبر پارٹی کا سب سے زیادہ ریڈیکل منشور تھا۔ اس میں رائل میل( سرکاری ڈاک) توانائی اور پانی کی سہولیات اور ریلویز کی نیشنلائی زیشن کے مطالبات شامل تھے۔ امیروں پر ٹیکس لگا کر این ایچ ایس ( صحت کا نظام) اور تعلیم جیسی بنیادی خدمات میں نئی جان ڈالنے کے منصوبے اس میں شامل تھے۔ کم از کم اجرت میں قابل ذکر اضافہ، یونیورسٹی فیسوں اور تعلیمی قرضوں کے خاتمے کا پروگرام نوجوانوں میں خاصا مقبول ہوا۔ 
گزشتہ تین دہائیوں سے ٹوری پارٹی اور ٹونی بلیئر کی نیو لبرل معیشت کے تحت محنت کش مخالف پالیسیوں سے ملک چلا رہے تھے۔تقریباً تین نسلیں جوان ہو گئیں اور برطانیہ کی سیاسی اور سماجی حرکیات میں ابدی جمود کو حقیقت مان لیا گیا۔ تاریخ کے ایک پورے عہد کے لیے برطانیہ کی انتخابی سیاست میں مایوسی غالب آ گئی۔ محنت کشوں اور نوجوانوں کی وقفے وقفے سے ابھرنے والی جدوجہد اور ہڑتالوں کو کارپوریٹ میڈیا اور حکمران اشرافیہ اکا دکا اور بے کار واقعات کہہ کر مسترد کرتے رہے۔ سماج پر مسلط دانشور اور میڈیا یہ فرض کر بیٹھے کہ لوگوں میںجبر، طبقاتی استحصال، زیادتیوں اور نیو لبرل سرمایہ داری کے خلاف لڑنے کی ہمت اور عزم ختم ہو چکے ہیں۔حکمران طبقے کی سوچ میں اخلاقیات اور دیانت داری ، سادگی اور حماقت قرار پائیں۔
ان کے مطابق لوگ صرف انفرادیت، ذاتی مفاد اور خودغرضی پر چلتے ہیں۔ سماج کے مالکان یہ سمجھ بیٹھے کہ قربانی اور نظریات ختم ہو چکے ہیں۔سوشلزم اور کمیونزم مر دہ قرار دے دیے گئے اور طبقاتی جدوجہد ختم ہو گئی۔ ان ماہرین کے مطابق 'سیاست میں سب کچھ جائز ہے‘ اور وہ ایک اور نظام اور سماج کو تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔ اشرافیہ کے یہ مذموم نظریات برطانیہ یا جدید سرمایہ دار ممالک تک محدود نہیں تھے بلکہ پاکستان جیسے ممالک میں بھی حکمران طبقے کے سیاست دانوں اور میڈیا کے سیٹھوں کی جانب سے نفسیاتی اور ثقافتی یلغار جاری ہے۔برطانوی انتخابات سے ثابت ہے کہ طبقاتی جدوجہد اور انقلابی سوشلزم کے نظریات عام تاثر سے بہت جلد ابھر سکتے ہیں۔
تھریسا مے کا شمالی آئرلینڈ کی ڈی یو پی کے ساتھ ''پر انتشار اتحاد‘‘ مایوسی کی چال ہے۔ یہ زیادہ عرصہ نہیں چل سکتی۔ محض ایک رکن پارلیمنٹ کی وفاداری میں تبدیلی یا ایک ضمنی انتخاب میں شکست حکومت کو گرانے کے لیے کافی ہو گی۔ آنے والے دنوں میں برطانوی سماج اور سیاست طوفانی واقعات اور بے حد عدم استحکام سے دوچار ہوں گے۔ حالیہ انتخابات سے سماج کی نفسیات اور سماجی سوچ خاصی بدل چکی ہے۔پھر سے نیشنلائیزیشن، آسٹیرٹی کی مخالفت، ٹیوشن فیسوں کے خاتمے، این ایچ ایس کی مناسب فنڈنگ او ر عام لوگوں کی دوسری بنیادی ضروریات کے نعروں نے محنت کشوں اور محکوموں کے شعور کو جھنجھوڑ دیا ہے۔محنت کشوں کا سیاسی شعور بیدار ہو گیا ہے۔
آسٹیرٹی یا کٹوتیوں کے خلاف اور لوگوں کے میعار زندگی کے دفاع کی جدوجہد نشیب و فراز کے ساتھ جاری رہے گی اور ایک نیا عہد طلوع ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ صنعتی میدان میں نئی ہڑتالی تحریکیں ابھر سکتی ہیں۔ اس نظام کے خلاف کئی ہڑتالیں، مظاہرے، جلوس اور لڑائیاں ہوں گی۔ ان تحریکوں کا اثر سارے یورپ، امریکہ اور دوسرے ممالک میں محسوس کیا جائے گا۔کیونکہ یہ ظالمانہ نظام ہر جگہ ہی زندگی کو جہنم بنا رہا ہے۔ کوربن کی انتخابی مہم نے کم از کم سیاست میں سوشلزم کے نظریات کو پھر سے زندہ کر دیا ہے اور یہ برطانیہ تک محدود نہیںہے۔ اصل فریضہ ایک انقلابی تناظر تخلیق کر نا اور اسے عملی جامہ پہنانا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں