"DLK" (space) message & send to 7575

مشرق وسطیٰ کی بدلتی ہوئی صورتحال

گزشتہ ماہ ایران کے دارالحکومت تہران میں صبح کے وقت ایرانی پارلیمنٹ اور آیت اللہ خمینی کے مزار پر فائرنگ اور خود کش حملے میں 16 افراد جاں بحق اور پچاس کے قریب لوگ زخمی ہوئے تھے۔ ظاہری طور پر حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی۔ تہران میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ تھا۔ مشرق وسطیٰ میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے تناظر میں اس واقعہ کو اگر شام، عراق، یمن اور لبنان میں جاری پراکسی جنگوں کا تسلسل کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ حملہ جس کسی نے بھی کیا‘ اس سے اشرافیہ کو مشرقِ وسطیٰ میں اپنی پراکسی جنگ کو دوام بخشنے کا ایک جواز ہاتھ لگا ہے‘ کیونکہ اب عوامی سطح پر بھی انہیں بیرونی مداخلتوں کو جواز فراہم کرنے کے لیے زیادہ محنت نہیں کرنا پڑے گی۔ اس کے علاوہ ایٹمی معاہدے کے بعد اشرافیہ نے جس اقتصادی خوشحالی کا وعدہ کیا تھا‘ وہ کہیں نظر نہیں آ رہی اور بے روزگاری اور عوام کی معاشی کسمپرسی پہلے کی طرح جاری ہے۔ میرے خیال میں ایسی صورتحال میں مشرق وسطیٰ میں دہشت گردی کے خوف کو استعمال کرتے ہوئے معاشی خوشحالی اور سیاسی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں پر مزید جبر کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ 
شام، عراق اور یمن میں خانہ جنگی اور کئی عرب ممالک میں ایک کہرام مچا ہوا ہے۔ کئی ملکوں میں خطے کی بڑی طاقتیں ایک دوسرے کے خلاف پراکسی جنگیں لڑ رہی ہیں۔ ایسے میں ان جنگوں کے ان ملکوں کے اپنے اندر سرایت کر جانے کے خطرے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت مشرق وسطیٰ میں ایک ہیجان کی سی کیفیت ہے۔ تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے خطے کے معاشی بحران نے مزید شدت اختیار کر لی ہے‘ جس کا اظہار ہمیں وہاں ہونے والے عجیب و غریب فیصلوں میں نظر آتا ہے۔ 
اس خطے میں محنت کشوں کی محنت کا استحصال کرکے اس دولت کو بالادستی قائم کرنے کے لیے بیرونی مہم جوئیوں پر خرچ کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے محنت کش کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عوام کے بڑھتے ہوئے معاشی مسائل پر بھی اب کھل کر بات کی جا رہی ہے۔ بعض حلقوں نے تمام تر مسائل کی جڑ ایٹمی پروگرام کی وجہ سے عائد اقتصادی پابندیوں کو قرار دیا تھا‘ لیکن ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود معاشی اعدادوشمار میں خفیف سے فرق کے سوا وسیع آبادی کی تلخ زندگیوں میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ خطے کے باقی ممالک کو چھوڑ کر ایران کی بات کی جائے تو سرکاری اعداد و شمارکے مطابق نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور 31.9 فیصد ہے۔ ہر سال ایران کی محنت کی منڈی میں 12 لاکھ نئے افراد داخل ہوتے ہیں جبکہ صدر حسن روحانی کے اپنے الفاظ میں وہ مشکل سے سالانہ سات لاکھ روزگار فراہم کر سکے ہیں۔ عالمی کارپوریٹ میڈیا حالیہ صدارتی انتخابات میں حسن روحانی کی کامیابی پر بغلیں بجا رہا ہے اور اس کی کامیابی کو ایک نئے 'معتدل‘ ایران کی تعمیر کی طرف ایک اہم سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایران کی منڈی اب تک عالمی اجارہ داریوں کی لوٹ مار اور ان کی پہنچ سے نسبتاً دور رہی ہے۔ ان کی نظریں ایران کے وسائل کی لوٹ مار سے وسیع منافع کمانے پر مرکوز ہیں۔ حسن روحانی کا معاشی پروگرام بنیادی طور پر نیولبرل معاشی نسخے ہیں جن کا بنیادی مقصد ایران کو بیرونی اجارہ داریوں کے لیے کھول دینا اور معیشت کے وسیع حصے کو نجی شعبے کی تحویل میں دینا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر معیشت کے بڑے حصے کو ریاستی کنٹرول سے نکال کر نجی شعبے اور عالمی اجارہ داریوں کے حوالے کر دیا جائے تو ان حلقوں کا خیال ہے کہ ان کی حاکمیت خطرے میں پڑ جائے گی‘ جنہوں نے طاقت حاصل کرکے معیشت کے وسیع تر حصوں بشمول تیل اور گیس کی صنعت اور بینکوں کو قومی
تحویل میں لیا تھا اور تعلیم، صحت اور رہائش کے شعبوں میں بے دریغ سرمایہ کاری کی تھی۔ عام تاثر کے برعکس شاہِ ایران کی حکومت کے دور کے فوجی بجٹ کو جی ڈی پی کے 18 فیصد سے گھٹا کر 4 فیصد کر دیا گیا۔ تین دہائیوں میں ناخواندگی کو 53 فیصد سے کم کرکے 15 فیصد کر دیا گیا۔ خواتین کی ناخواندگی کی شرح 65 فیصد سے کم ہو کر 20 فیصد ہو گئی۔ یونیورسٹیوں میں خواتین کی تعداد 30 فیصد سے بڑھ کر 62 فیصد ہو گئی۔ صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری کی وجہ سے اوسط عمر 55 سال سے بڑھ کر 75 سال ہو گئی۔ دورانِ پیدائش بچوں کی اموات ہر ایک ہزار میں 100 سے گھٹ کر 25 پر پہنچ گئی۔ اسی طرح دیہات میں زرعی اجناس کی قیمتوں کو بڑھایا گیا اور کسی حد تک کلینک، سکول اور سڑکیں تعمیر کی گئیں۔ تقریباً 220,000 کسانوں میں 850,000 ہیکٹر زمینیں تقسیم کی گئیں۔ دیہات میں ان حلقوں کی حمایت انہی اقدامات کی وجہ سے ہے۔ اس کے علاوہ شہروں کے غریب علاقوں میں، کچی آبادیوں میں، کم آمدنی والوں کے لیے ہائوسنگ سکیمیں شروع کی گئی اور گندے علاقوں کو خوبصورت ضلعوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ محنت کشوں کے علاقوں میں بھی سڑکیں، بجلی، پانی اور نکاسیٔ آب کی لائنیں بچھائی گئیں۔ ریاست نے روٹی، کپڑا، مکان، ٹرانسپورٹ، بجلی، گیس، ایندھن وغیرہ پر بے دریغ سبسڈیز دیں جس کی وجہ سے سماج میں عمومی طور پر ان حلقوں کے لیے ایک حمایت پیدا ہو گئی۔ 
حسن روحانی کا معاشی نسخہ بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے معیشت کو سنبھالا دینا اور 'معاشی ترقی‘ لانا ہے۔ لیکن دنیا بھر میں بیرونی سرمایہ کاری کے تجربات یہ چیز روز روشن کی طرح عیاں کرتے ہیں کہ اس سے معاشی اشاریے تو نمو پاتے ہیں لیکن سماج کے اندر طبقاتی تفریق کی خلیج مزید بڑھ جاتی ہے۔ معیشت کو کھولنے کا آغاز ہاشمی رفسنجانی کے دور میں 1989ء میں ہوا۔ اپنے آٹھ سالہ دور حکومت میں اس نے نیو لبرل معاشی نسخوں، نجکاری، ری سٹرکچرنگ، ڈی ریگولیشن وغیرہ پر زور دیا۔ اَپر مڈل کلاس اور سرمایہ داروں میں تو اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا لیکن محنت کشوں میں انتہائی غیر مقبول تھا۔ سب سے بڑھ کر اس دوران اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ اس کے بعد محمد خاتمی کے دور میں بھی یہی پالیسیاں جاری رہیں جس کی وجہ سے بعض حلقے عوام میں غیر مقبول ہو گئے۔ 2005ء کے انتخابات میں جب احمدی نژاد نے تیل کی دولت کو غریب عوام میں تقسیم کرنے کا نعرہ لگایا تو عوام میں بے حد مقبول ہوا۔ احمدی نژاد نے اپنی حکومت کو انہی فلاحی بنیادوں پر چلانے کی کوشش کی جن پر عوام میں سماجی بنیادیں بنی تھیں لیکن 2008ء کے عالمی معیشت میں زوال کے بعد ایران بھی پہلے کی طرح ان فلاحی اقدامات اور سبسڈیز کو جاری نہ رکھ سکا جس کی وجہ سے 2010ء میں ہی احمدی نژاد نے پٹرول، گیس اور ایندھن پر تقریباً 100 اَرب ڈالر سالانہ کی سبسڈی ختم کر دی جس کی وجہ ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان آ گیا۔ بعد میں ایران کے ایٹمی پروگرام کی وجہ سے ملک پر لگنے والی اقتصادی پابندیوں نے معاشی مشکلات کو مزید شدید کر دیا۔
مشرق وسطیٰ کی پُرانتشار صورت حال کی وجہ سے سیاسی اور ثقافتی جبر آنے والے دنوں میں مزید بڑھے گا۔ حسن روحانی کی الیکشن میں سیاسی آزادی اور انسانی حقوق کے وعدوں کے باوجود عوام کو کچھ نہیں ملے گا۔ ایسے میں تہران میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات مسائل بڑھانے کا باعث بنیں گے۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ اب پرانے دنوں کی طرح سبسڈیز اور فلاحی ریاست کے ذریعے عوام کو خاموش کرنے کی نہ سکت اور وسائل ہیں اور نہ ہی حسن روحانی کی نیولبرل پالیسیوں سے عوام کی زندگیوں میں کوئی بدلائو آئے گا۔ اسی صورتحال سے محنت کشوں کی ایک ایسی تحریک جنم لے گی جس کے نتیجے میں عوام اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں میں لیں گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں