"DLK" (space) message & send to 7575

کرپشن اور جمہوریت!

اِس ملک میں پچھلے خاصے لمبے عرصے سے 'کرپشن‘ اور پچھلے چار سالوں سے بالخصوص شریف خاندان کی کرپشن ہی صحافت و سیاست پر چھائی ہوئی ہے۔ آج کل پھر تاثر دیا جا رہا ہے کہ ملک میں کرپشن کے علاوہ کوئی مسئلہ اور شریف خاندان کے سوا کوئی کرپٹ نہیں ہے۔ ہر طرف یہی شور ہے کہ نواز شریف جا رہا ہے یا اسے چلے جانا چاہئے۔ کسی کے مطابق جیل کی سلاخوں کے پیچھے تو کسی کے مطابق ملک و سیاست سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باہر۔ جے آئی ٹی غیر جانبدار اور منصفانہ ہی ہو گی‘ لیکن حتمی فیصلہ تو عدالت نے کرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا نواز شریف کے معزول ہو جانے سے اس ملک میں کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا؟ آج کل یہ سوال پوچھنا ہی متنازع سا بنا دیا گیا ہے۔ شعور کی ایک رتی رکھنے والا کوئی بھی شخص اِس سوال کا جواب ہاں میں نہیں دے سکتا۔
مسئلہ صرف نواز شریف یا اس سے پہلے یا بعد میں آنے والے حکمرانوں کے ذاتی کردار کا نہیں ہے۔ کرپشن کے الزامات بھٹو پر بھی لگے تھے۔ یہاں حکمران بدلتے رہے، جمہوریتیں اور آمریتیں (جن کو مختلف ''نظام‘‘ بنا کر اصل ''نظام‘‘ کو تحفظ دیا جاتا ہے) بھی رہیں، لیکن بالخصوص ضیاالحق کے دور سے سبھی بدعنوانی میں لتھڑے رہے۔ یہ نظامِ معیشت، سیاست و ریاست جس نہج پر پہنچ چکا ہے وہاں کرپشن اس اقتدار کے سیارے کی مٹی اور آب و ہوا میں رچ بس چکی ہے۔
نواز شریف کئی دہائیوں سے اسی حکمران طبقے کے روایتی اور کلاسیکی نمائندے رہے ہیں۔ لیکن نظام کے بحران کی شدت نے سیاست میں دھڑے بندی اور تصادم تیز تر کر دیا ہے۔ نواز مخالف دھڑے نے اس بار موٹا وار کرنے کوشش کی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کھیل، کھیلنے والوں کے قابو سے بھی باہر ہو گیا ہے؟ یا پھر اُنہیں فی الوقت اِس کا ادراک ہی نہیں ہے؟ بہرحال یہ ساری صورتحال ریاست کے اندر موجود شدید تضادات کی غمازی کرتی ہے، جو بحیثیت مجموعی حکمران طبقے اور اس کے نظام کے گہرے بحران کی علامت ہے۔ اگر اقتدار بدل کر اِس سارے انتشار کو سمیٹنے کی کوشش کی جاتی ہے تو بھی یہ بحران کم نہیں ہو گا۔
لیکن باقی تمام پارٹیوں کے لیڈر بھی تو اسی نظامِ زر کی سیاست کرتے ہیں۔ یہی سیاہ دولت ریاستی اداروں میں سرایت کئے ہوئے ہے اور یہی دھن اپنے دھنوانوں کے ذریعے معاشرے کے تمام بالادست اداروں کا کاروبار اپنے مفادات کے تحت ڈھالتا ہے۔ اس نظام کے نظریات کے تحت سیاست کا کھیل صرف پیسے کے زور پر ہی کھیلا جا سکتا ہے۔ یہاں پیسے کے ذریعے ہی انتخابی مہمات چلائی جاتی ہیں۔ میڈیا کے انتہائی مہنگے ائیر ٹائم حاصل کیے جاتے ہیں۔ جوں جوں بحران بڑھ رہا ہے نیچے سے اوپر تک ووٹوں کی بولی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ پھر پوری انتخابی مشینری کو کہیں نہ کہیں دھن کا تیل لگا کر چلانا پڑتا ہے اور پھر حکام بالا کو خواہی نخوا ہی اور کسی نہ کسی طرح خوش کرنا پڑتا ہے اور اس کے لیے پیسہ درکار ہوتا ہے۔ ہر الیکشن میں اخراجات کی ''حدود‘‘ مقرر کی جاتی ہیں، جو شاید انتخابی مہم کے پہلے چند گھنٹے میں عبور ہو جاتی ہیں، جبکہ ابھی انتخابات میں مہینے پڑے ہوتے ہیں۔ لیکن کون پوچھتا ہے اور کون پوچھ سکتا ہے؟ بڑے بڑے فنانسر ایک وقت میں کئی پارٹیوں کو فنانس کرتے ہیں۔ فیصلہ کوئی بھی ہو، جیتتے آخر یہی دھنوان ہیں۔ سب جانتے ہیں لیکن ان کا نام لینے کی جرأت سے ہر کوئی عاری ہے۔ یہ سرمائے کا وہ غلبہ ہے جو سرمایہ داری میں ہمیشہ رہتا ہے۔
پچھلے کئی سالوں سے انتخابی مہمات کا کردار بھی بدل گیا ہے۔ اب تو یہ حکمران غریبوں سے کسی مصنوعی ہمدردی کا ناٹک بھی نہیں کرتے۔ نام نہاد جمہوریت کی اِس سیاست میں اگر کوئی چیز ناپید ہے تو وہ جمہور کے حقیقی مسائل اور اذیتیں ہیں۔ بس پروجیکٹوں کے دعوے اور نمائشیں ہیں‘ لیکن ان پروجیکٹوں سے زندگی سہل نہیں ہوتی اور اس ملک کی عوام کی حالت زار میں کوئی بہتری نہیں آتی۔ اس نظام کی تمام حکومتوں اور پارٹیوں کے اقتدار میں جتنے بھی منصوبے بنتے ہیں ان کا طریقہ کار ایک ہی ہوتا ہے۔ یہ تمام کام ٹھیکے پر ہوتے ہیں‘ اور پھر اِن اربوں کھربوں کے سامراجی و مقامی ٹھیکوں پر لڑائیاں ہوتی ہیں۔ یہ سلسلہ اوپر سے نیچے تک معاشرے کے ہر طبقے میں سرایت کر گیا ہے۔ اِس سارے حکمران ڈھانچے کی ''ترقی‘‘ اِسی ٹھیکیداری کے گرد گھومتی ہے۔ آخری تجزیے میں صنعت، معیشت، سروسز اور سماج کی تمام تر اقتصادیات اسی منافع خوری کے مقصد پر مبنی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ کسی انسان کو کوئی مفاد حاصل نہیں ہو گا تو وہ کام کیوں کرے گا؟ بات سوچ کے معیار کی ہے۔ یہ معیارات اور اقدار رائج الوقت سماجی و معاشی نظام طے کرتے ہیں۔ ایسے سماج بھی رہے ہیں جن میں پیسے کے لالچ اور منافع وغیرہ کا تصور تک نہیں تھا۔ اُن میں بھی بہت سے تخلیقی اور تعمیری کام ہوتے تھے۔ وادیء سندھ کی تہذیب اِسی خطے کی ایسی ایک مثال ہے۔ انہوں نے 5 ہزار سال پہلے موہنجوداڑو میں آج کے 'جدید‘ لاڑکانہ سے کہیں بہتر منصوبہ بندی پر مبنی آبادیاں تعمیر کی تھیں۔ ایسے سماج کا قیام آج بھی ممکن ہے جس میں پیسے کی ترغیب اور خواہش کے بغیر اشتراکی بنیادوں پر اتنی ترقی حاصل ہو سکے کہ انسانی مانگ اور محرومی کا خاتمہ ہو جائے۔ نسل انسان کی تاریخ دولت کی ہوس پر مبنی سماجی ارتقا کو مسترد کرتی ہے۔ اگر وہ وقت نہیں رہا تو یہ حالات اور اقتدار بھی نہیں رہیں گے۔
یہی اصل مسئلہ ہے کہ جب ہر شعبے کی قوت محرکہ پیسہ ہو تو انسانیت رخصت ہو جاتی ہے۔ مطلب کے بغیر رشتوں کا ادراک مشکل بن جاتا ہے۔ لیکن یہ ہوس اتنی بڑھتی جاتی ہے کہ منافع خوری کے قانونی طریقوں سے تجاوز کرنے لگتی ہے۔ اِسی کو کرپشن کا کہا جاتا ہے اور یہی کرپشن نظام کے بحران کی کیفیت میں جائز اور سفید معیشت کے حجم سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ جیسا کہ اِس وقت پاکستان میں صورتحال ہے۔ اور جو نظام چل ہی کرپشن پر رہا ہے، کر پشن جس کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہی ہے اور جس کی زنگ آلود مشینری کے لئے تیل کا درجہ رکھتی ہے، اُسے کرپشن سے پاک کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں! کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوتا بلکہ صرف ریٹ بڑھ جاتے ہیں۔ یہ کرپشن ایک طبقے کی ہوس ہے تو دوسرے طبقے کی مجبوری بنا دی گئی ہے۔ یہ پاکستان جیسے پسماندہ ممالک کی تاخیر زدہ سرمایہ داری کی ناگزیر پیداوار ہے۔
دولت کے ارتکاز کی اپنی نفسیات ہوتی ہے، یہ جتنی زیادہ ہوتی ہے ہوس اُتنی ہی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اِس ملک کے بالادست طبقات کے پاس بے پناہ دولت ہے۔ اِس غریب ملک کے حکمران بہت امیر ہیں۔ ان کے پاس اتنی دولت ہے کہ کئی نسلوں تک اگر یہ روزانہ کروڑوں خرچ کریں تو بھی ختم نہیں ہو گی‘ لیکن یہ مزید لوٹنے کی دوڑ میں اندھے ہوئے جاتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کوئی کلاسیکی سرمایہ دارانہ معیشت نہیں ہے، بلکہ یہ کالے دھن کی سرمایہ داری ہے۔ کالی معیشت کے حجم کے انتہائی محتاط تخمینے بھی ملک کی کُل معیشت کے پچاس فیصد تک جاتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں جتنی سرکاری یا سفید معیشت ہے، اُتنی یا اُس سے بڑی کالی معیشت ہے۔ یہی وہ کالا دھن ہے جو یہاں کی سفید معیشت کو سہارا دے کر چلا رہا ہے۔
لیکن دوسری طرف عوام حکمرانوں کی اِن آپسی لڑائیوں سے اکتا چکے ہیں۔ یہ تصادم اُن کے لئے سراسر نان ایشوز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حکمران سیاست میں عوام کی دلچسپی تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے۔ الیکشن اور جمہوریت سے ان کے مسائل صرف بڑھتے ہی ہیں۔ عوام سوچ بھی رہے ہیں، سلگ بھی رہے ہیں اور اس کرب میں بھی مبتلا ہیںکہ آخر کریں کیا؟ لینن نے ایسی ہی کیفیتوںکے بارے لکھا تھا کہ ایسے وقت بھی آتے ہیں جب عام لوگ ہاتھوں سے نہیں پیروں سے ووٹ ڈالتے ہیں۔ اور پیروں سے ڈالے جانے والے یہ ووٹ حکمران طبقات اور اُن کے نظام کو کچل ڈالتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں