بھارت کے صدارتی انتخابات میں رام ناتھ کووِند کے بطور صدر اور وینکیا نائیڈو کے نائب صدر بننے سے بظاہر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت مذہبی بنیاد پرستی کی گرفت میں چلی گئی ہے۔ 1947ء کے مذہبی بٹوارے کے بعد سات دہائیوں میں پہلی دفعہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے پس منظر سے تعلق رکھنے والے ہندو بنیادپرست ملک کے تین اعلیٰ ترین سیاسی عہدوں صدر،نائب صدراوروزیراعظم پربراجمان ہیں۔پارلیمنٹ کے ایوان ِزیریں یالوک سبھا میں بی جے پی کودو تہائی سے زائدکی اکثریت حاصل ہے جبکہ ہندوستان کی 29میں سے 17ریاستوں میں وہ خود یا دوسری جماعتوں کے ہمراہ حکومت کررہی ہے۔اس سال کے آغاز میں 2جنوری کو سپریم کورٹ نے سیاست دانوں کوخبردارکیاتھاکہ اگرانہوں نے اپنی انتخابی مہم مذہب یا ذات پات کی بنیادپرچلائی توانہیں نااہل قراردیاجائے گا۔کورٹ کی رولنگ میں کہاگیا:''انتخابی عمل میں ،جو ایک سیکولرعمل ہے،مذہب کاکوئی کردارنہیں۔ریاست کومذہب کے ساتھ جوڑناغیر آئینی ہے۔‘‘یہ ایک ستم ظریفی ہے کہ اپنے آغاز سے ہی مذہبی تعصبات ہمیشہ سے بھارت کی سیاست پرغالب رہے ہیں۔اس رولنگ کے بعد کئی ریاستوں میں انتخابات ہوئے بالخصوص اترپردیش میں جہاں بلا استثنیٰ بی جے پی اور باقی تمام پارٹیوں نے ووٹ حاصل کرنے کے لیے مذہب کا بھرپور استعمال کیا۔مذہبی بنیادپرستی کی نعرے بازی اورعام لوگوں کوان کے عقیدوں کی بنیادپرتقسیم کرناپاکستان سمیت بھارت اور خطے کے دوسرے ممالک میں آج کے حکمران طبقات کاآلہ ہے۔
بعدازتقسیم بھارت کا معمار موہن داس کرم چندگاندھی تنگ نظر ہندو بنیادپرست تھاجس نے اپنے آپ کو ایک پرامن صوفی یا اہنسا کے پرچارک کے روپ میں ڈھالا تھا۔اس کی رجعتی مذہبی ذہنیت اور مذہبی تنگ نظری کی سیاست اور تقسیم اور حکمرانی کرنے کی پالیسی اس کی تحریروں اور تقریروں سے واضح ہوتی ہے۔ دلیپ ہیرو نے اپنی حالیہ کتاب میں گاندھی کے اس مذہبی تعصب کو بے نقاب کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے، ''جب ضرورت پڑی تو گاندھی نے ہندو بنیادپرستی کو بڑھکایا۔۔۔۔ بہرحال ایک چوتھائی صدی کے بعد مذہب کو سیاست میں شامل کرنے کی یہ واردات برصغیر ہندوستان کی یکجہتی کو پارہ پارہ کرے گی۔۔۔۔۔گاندھی نے اپنی قوم پرستی کی ساری عمارت ہندومذہب کی روایتی دیومالائی کہانیوں، عقائد اور سوچوں پر تعمیر کی تھی۔ 1922ء میں گاندھی نے کہا تھا، ''جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مذہب کو سیاست سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے، وہ دراصل جانتے ہی نہیں کہ مذہب کیا ہے۔ میرا جھکائو سیاسی نہیں بلکہ مذہبی ہے۔ میں سیاست میں اس لیے حصہ لیتا ہوںکیونکہ زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جسے مذہب کے ذریعے دریافت نہ کیا جاسکے۔‘‘ گاندھی نے اس بات پر زور دیا کہ گائے کا تحفظ ہندو دھرم کا بیرونی حصہ ہے۔ ''میں اس شخص کو ہندو نہیں سمجھتا جو اس مقصد کے لیے اپنی جان تک نہ دے دے۔ یہ مجھے اپنی زندگی سے بھی زیادہ عزیز ہے۔‘‘
آج بی جے پی کے بھارت میں جو کچھ ہورہا ہے اس پر ایک سر سری نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ مودی کی پالیسیاں اور ہندوبنیادپرستوں کی رجعتی کاروائیاں بھارت کے بانی (گاندھی)کے نظریات سے بہت قریب ہیں۔ سب سے بڑھ کر گاندھی ملکیت کے حق میں اور سرمایہ داری کا زبردست حامی تھا۔ مودی کی پالیسی دراصل نسبتی سماجی جمود کے دور میں مذہب کو استعمال کرکے جارحانہ سرمایہ دارانہ نیولبرل پالیسیوں کو لاگو کرکے سامراجی اور مقامی کارپوریٹ مالکان کے منافعوں میں اضافہ کرنا ہے۔
ہندوستان اور عالمی سطح پر کارپوریٹ میڈیا نو منتخب صدر کے دلت پس منظر کو بڑا اچھا ل رہاہے۔ ہندوستان میںقرون وسطیٰ سے پہلے ذات پات کا نظام اتنا جابر اور متعصب نہیں تھا۔ مگر اب یہ سماجی تعصب میں بدل چکاہے جو یقینا طبقاتی بنیادوں پر نہیں ہے۔ ذات پات کے تشدد کی بہت سی عمومی شکلیں ہوسکتی ہیں لیکن یہ آج کے ہندوستان کا بنیادی تضاد ہے۔ ہندوستانی سماج میں سرمایہ داری کی ایک مسخ شدہ شکل کا کچل دینے والا غلبہ ہے۔ سماجی آزادی کے لیے طبقاتی جدوجہد کے مقابلے میں ذات پات کی لڑائی کو کھڑا کرنا نہ صرف غلط ہے بلکہ آخری تجزیے میں ایک رجعتی سوچ اور نظریہ ہے جو حکمران طبقات اور ریاست کے ہاتھوں میں آسانی سے کھیل سکتی ہے۔
بھارت کا پہلا دلت صدر کے۔آر نارائن (1997-2002ء)تھا۔ اس دوران نچلی ذات کے لوگوں کی محروم اور غربت زدہ زندگیوں میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ ہندوستان کے بعض امیرترین، اعلیٰ اور طاقتور افراد کا تعلق نچلی ذات سے ہے لیکن وہ بورژوازی کا حصہ ہیں۔ آج ہندوستان کا صدر، نائب صدر اور وزیراعظم نچلی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ کیا اس سے نچلی ذاتوں کی زندگیوں میں کوئی بدلائو آیا ہے؟ مودی کی حکومت میں تمام ذاتوں کے محکوم طبقات کا استحصال کیا جارہا ہے اور ان کی غربت اور محرومی کی وجہ سے ان پر جبر کیا جاتا ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ نچلی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں، خواتین اور قومی و مذہبی اقلیتوں کو دگنے تگنے استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ ذات پات کی بنیاد پر جدوجہد اور نچلی ذاتوں کے لیے تحفظ کے قوانین بنانے سے ان کو کوئی ریلیف ملے گا۔ منڈل کمیشن کی رپورٹ کے تیس سال بعد بھی ان کی حالت میں ذرہ برابر بہتری نہیں آئی۔
انڈیا میں دنیا کی غربت کا سب سے بڑا ارتکاز ہے۔ 1.23اَرب آبادی کی اکثریت مطلق غربت اور گندگی میں مجبوراً رہ رہی ہے۔ سالانہ خوفناک حد تک چالیس ہزار ریپ کیس رپورٹ ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ ریپ کی شکار عورتیں سماجی جبر کے تحت خاندانی عزت اور عمومی طور پر ریپ کے کیس کو جس طرح اقدار اور اخلاقیات کے ان داتا اور حکام ڈیل کرتے ہیں اس سے لوگ رپورٹ ہی نہیں کرتے۔ 2015ء میں دارالحکومت دہلی میں 2200ریپ ہوئے (اوسطاً ہر دن چھ) جسے دنیا کا ریپ کیپیٹل بھی کہا جاتا ہے۔
ہندوستان کی بورژوازی یکجا اور جدید قومی ریاست بنانے میں ناکام ہوگئی ہے۔ یہ ایک نودولتیے ہیں، طفیلی بورژوازی جو گینگسٹروں سے کم نہیں اور سٹہ بازی، بلیک مارکیٹنگ، سود، رشوت، سمگلنگ اور سب سے بڑھ کر فراڈ سے اپنی جیبیں بھرتے ہیں۔ پوری معیشت میں کالا دھن پھیلا ہوا ہے۔ حکمران طبقات آج تک قرون وسطیٰ کی خوفناک میراث کالا جادو، فرقہ واریت، جہالت اور سماج میں پھیلی توہم پرستی کو ختم نہ کرسکے۔ ہندوستان کی قدیم ثقافتی میراث کی سب سے بیہودہ اور وحشی شکلیں فرقہ وارانہ اور ذات پات کی بنیاد پر قتل عام، جادو ٹونہ، بچوں کو مارنے کی رسم، جہیز پر قتل، بیوہ کا زندہ جلاناوغیرہ دوبارہ سر اٹھا رہی ہیں۔ برطانوی سامراجیوں کے تقسیم شدہ جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک کی حالت بھی زیادہ مختلف نہیں۔
ہندوستان کی زیادہ تر اپوزیشن پارٹیاں سیکولرازم، جمہوریت اور آئین کا راگ الاپ رہی ہیں۔ مودی انتہائی شاطرانہ انداز میں امیر اور غریب کی نعرے بازی کر رہا ہے۔ ہندوستانی عوام کو درپیش بنیادی مسائل کو حل نہ کرسکنے کی وجہ سے کانگریس اور دوسری نام نہاد سیکولر پارٹیاں زوال پذیر ہیں۔ بدقسمتی سے کیمونسٹ اور بائیں بازو کی دوسری پارٹیاں بھی سیکولرازم کی راہ پر چل رہی ہیں۔ یہ لوگ جتنا سیکولرازم کی بات کرتے ہیں ہندو بنیادپرستی اتنی ہی بڑھتی ہے۔ کمیونسٹوں کو حتیٰ کہ ان کے گڑھ مغربی بنگال میں بھی شکست ہوئی ہے۔ ہر طرف ہڑتالیں، طلبا کی بغاوتیں اور محکوم عوام کی تحریکیں مسلسل ابھر رہی ہیں۔ پچھلے دو سالوں میں دو عام ہڑتالوں نے ہندوستان کے پرولتاریہ کی انقلابی صلاحیتوں کو واضح کیا ہے۔ مزدوروں اور نوجوانوں کی یہ باغیانہ روش ایک انقلابی کیفیت میں بدل سکتی ہے۔ اس کے لیے ایک انقلابی پارٹی کی ضرورت ہوگی جو اسے انقلابی فتح تک پہنچائے۔ اس طرح کی پارٹی کو ایک ایسے پروگرام اور تناظر کے ساتھ آنا ہوگا جو اس بوسیدہ نظام کی حدود سے باہر نکلے۔ ایک انقلابی تبدیلی کے بغیر نسل انسان کے پانچویں حصے کی نجات ممکن نہیں۔