"DLK" (space) message & send to 7575

بحران سے فرار!

پاکستان کے حکمران طبقات میں تصادم جتنا طویل ہوتا جا رہا ہے اس میں کسی دھڑے کی حتمی فتح یا شکست اتنی ہی پیچیدہ اور غیریقینی ہوتی جا رہی ہے۔ اگر پرویز مشرف نے آمریت کے فضائل بیان کیے ہیں تو یہ بھی ایک دھڑے کی مخصوص پراگندگی کی ہی غمازی ہے۔ لیکن ایسی سوچ رکھنے والوں کے لیے مشکل یہ ہو گئی ہے کہ موجودہ صورتحال اتنی کشیدہ، معیشت کا بحران اس حاکمیت کے اختیار سے اتنا باہر اور آج کے سلگتے بڑھتے ہوئے مسائل اتنی شدت اختیار کر چکے ہیں کہ ایسے بے ہنگم اور پرانتشار معاشرے پر براہِ راست آمریت قائم کرنا اور پھر اس کے تسلط کو قائم رکھنا شاید ناممکنات میں شامل ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن اگر سماج اور عوام کو درپیش مسائل کا جائزہ لیا جائے تو حکمران طبقات کے تمام دھڑوں کی ان سے ایک فراریت نظرآتی ہے۔ انہوں نے ان مسائل کا حل دینے سے ایک قسم کی معذرت کر لی ہے۔ اگر سیاست کا کوئی دھڑا معاشی بدحالی کی بات کرتا بھی ہے تو وہ کسی اعتماد یا جرات سے عاری ہوتا ہے۔ اگرآپ کے پاس کسی مسئلے کا کوئی حل نہیں ہوتا تو پھرآپ اس مسئلے پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ بھی بڑی بے دلی سے کرتے ہیں، لوگوں پر اس کے اثرات مرتب نہیں ہوتے اور یہ جعل سازی صاف ظاہر ہو رہی ہوتی ہے۔ اس لیے حکمرانوں کی زیادہ تر توجہ نان ایشوز کی جانب ہی رہتی ہے۔
کرپشن، اقربا پروری اور میریٹ کے نان ایشوز سے اب بات سکینڈلوں تک پہنچ گئی ہے۔ کرپشن اور سکینڈلوں سے تو حکمرانوں کے تمام دھڑوں میںکوئی بھی مبرا نہیں۔ آج کے عہد کی سیاست، جس میں کسی نظریاتی یا سنجیدہ معاشی پروگرام کا عمل دخل ختم ہو چکا ہے، میں شخصیات، ان کی جسمانی و ذہنی صلاحیتیں اور ان کے کردار ہی زیر بحث آتے ہیں۔ اس عہد کی زوال پذیری کا یہ عالم ہے کہ بڑے بڑے مفکر اور دانشور بھی غیر متاثر کن شخصیات کو عظیم سیاستدان اور اس ملک کا نجات دہندہ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ ایسے ہیروز بنائے گئے ہیں جنہوں نے کوئی ''ہیروئک‘‘ کام ہی سرانجام نہیں دیا۔ ایسے مزید ہیروز بنائے جانے والے ہیں جنہوں نے کوئی قابل ذکر معرکہ سرانجام نہیں دیا، کوئی جنگ نہیں جیتی، کسی کامیابی اور سہولت سے اس معاشرے کو آسودہ نہیں کیا۔ پھر بھی صرف میڈیا اور طاقت کے بل بوتے پر وہ ہیروز بننے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن اگر یہاں کے اصل مسائل کا بغور جائزہ لیا جائے تو آج کے تنزلی کے اس عہد میں بھی بعض حلقے ان مسائل پر بحث کرنے اور ان کو منظر عام پرلانے سے عاری ہیں۔ اس ملک کی عجیب معیشت اور اس کے عجیب سماجی مضمرات ہیں۔ جہاں ایک طرف اتنی غربت و ذلت اور محرومی ہے وہاں گاڑیوں اور بڑے بڑے شاپنگ مالز کی بھرمار بھی ہے۔ جب 2007-8ء میں دنیا بھر کے ترقی یافتہ اور امیر ترین ممالک کے بینک ڈوب رہے تھے تو پاکستان میں ان کی چاندی لگی ہوئی تھی۔ جہاں ریاست کنگال ہے، تجارتی خسارہ 30 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے، 79 ارب ڈالر کے قریب بیرونی قرضہ جات ہیں‘ وہاں تعلیم اور علاج سے خلق تو محروم ہے لیکن ان دونوں شعبوں میں منافع خوری سب سے زیادہ ہے۔
معاشرے کے چند جزیروں میں پائی جانے والی چمک دمک اور عیاشی و بدقماشی صرف بالادست اور درمیانے طبقے تک محدود ہے۔ نیچے اندھیرا اور ذلت ہے۔ بربادیوںکی وہ داستانیں ہیں جن کو سنانے اوردکھانے سے میڈیا گریزاں ہے۔ ان اجالوں کے چند حلقوں کے نیچے معاشرہ غربت اور ذلت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس سنگین تفریق اور شدید نابرابری کی شکل اور ڈھانچہ 1978ء کے بعد خصوصی طور پر کالے دھن نے ترتیب دیا ہے‘ لیکن جہاں اس کالے دھن نے اصل ریاستی اور سرکاری معیشت کو سہارا دیا ہوا ہے وہاں اس کو کھوکھلا بھی کر رہا ہے۔ سرکاری معیشت بھی بہت حد تک نجکاری کا شکار ہو چکی ہے اور جو بچی ہے وہ ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن اس کی بنیادیں مسلسل کمزور ہوتی جا رہی ہیں اور اس کا اقتصادی بحران بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اس معیشت کا بڑا دارومدار 1972ء کے بعد سے شروع ہونے والی بیرون ملک پاکستانی محنت کشوں کی رحلت کا سلسلہ تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ 1968-69ء کے انقلاب کی پسپائی اور اصلاح پسندی کی پالیسیوں سے جب عوام کی انقلاب میں ابھرنے والی آس ٹوٹنے لگی تو مزدور طبقے کے ہراول دستوں کو زیادہ اجرتی مزدوری کے لیے خلیج اور دنیا کے دوسرے ممالک میں جانے کی ترغیب دی گئی اور مواقع پیدا کیے گئے۔ اب تک قریباً ایک کروڑ پاکستانی تارکین بن چکے ہیں اور ان کا تعلق پاکستان کے ہر خطے‘ خصوصاً دیہی علاقوں سے ہے۔ جہاں دیہی زندگی میں اجتماعی اور اشتراکی بنیادوں پر کوئی ترقی نہیں ہوئی وہاں پچھلے 50 سال سے ان تارکینِ وطن کی ترسیلات سے انتہائی بے ہنگم اور بدنما نوعیت کا ارتقا ہوتا چلا آیا ہے۔ پاکستان کی قومی معیشت کا یہ آسرا بھی اب تنزلی کا شکار ہے۔ نہ صرف عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے شدید بحران کی وجہ سے یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک سے بہت سے پاکستانی ڈی پورٹ ہو کر واپس آرہے ہیں بلکہ ان ممالک سے ترسیلات میں بھی شدید کمی واقع ہو رہی ہے۔ لیکن ان سے بھی زیادہ سنگین مسئلہ مشرقِ وسطیٰ اور خلیج کے ممالک میں تیل کی قیمتوں کی گراوٹ ہے جس سے پیدا ہونے والی معاشی بربادی نے وہاں دوسرے ممالک سے آئے ہوئے مزدوروں کے لیے المناک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ جنوبی اور مشرقی ایشیا کے غریب ممالک کے مزدوروں کی بڑی تعداد وہاں کے مزدور طبقے کی اکثریت بن چکی تھی۔ ان میں پاکستانی تارکینِ وطن مزدوروں کی بہت بڑی تعداد بھی شامل تھی۔ دنیا اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف پچھلے دو ماہ میں ایک لاکھ 12 ہزار 251 پاکستانی مزدوروں کو دوسرے ممالک سے واپس بھیجا گیا۔ سعودی عرب کی معیشت تیل کی قیمتوں میں کمی وجہ سے زوال پذیر ہے‘ حتیٰ کہ ان کو بھاری جنگی سازوسامان اور دوسرے جنگی پروجیکٹوں کے لیے اب آئی ایم ایف اور دوسرے سامراجی اداروں سے قرضے بھی لینے پڑ رہے ہیں۔ خلیجی ممالک کے حکمرانوں کو، مصر، تیونس یا اردن جیسے ممالک کی نسبت، حاکمیت کی جو فوقیت حاصل رہی ہے وہ مزدور طبقے کا غیر ملکی ہونا ہے۔ یہاں کسی تحریک اور مزدوروں کی ہڑتالوں کو آسانی سے دبایا جا سکتا ہے‘ لیکن یہاں صرف ہڑتالوں کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ بہت سے ترقیاتی منصوبوں کے تلف کر دیے جانے کی وجہ سے بھی محنت کشوں کو ملک بدر کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔ اور یہ ابھی آغاز ہے۔ یہ جو لاکھوں مزدور واپس آئے ہیں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ وہ روزی کی تلاش میں گئے ہی اس لیے تھے کہ ان کو اپنے وطن عزیز میں روٹی روزی کمانا دشوار تھا یا پھر ناممکن ہوتا جا رہا تھا۔ لیکن واپسی پر انہیں حالات بدتر ہی ملے ہیں۔ پہلے ہی ہر سال 14 لاکھ افراد کا بیروزگاری کے بحر میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان کو اب یہاں ملازمت کہاں ملے گی؟ یہاں ہر حکومت اور سیاسی افق پر ہر پارٹی مستقل ملازمتوں کی جگہ ٹھیکیداری نظام رائج کیے ہوئے ہے۔ لیکن جہاں معیشت کالے دھن پر زندہ ہے وہاں کرپشن پر سیاست ہو رہی ہے جبکہ کالے دھن کے حجم میں سب سے بڑا حصہ اسی کرپشن کا ہے۔ نہ جانے یہ سیاست دان کس سیارے کی مخلوق ہیں۔ شاید یہ زمینی حقائق کو جاننا ہی نہیں چاہتے۔ لیکن جہاں معیشت ایک بہت بڑی بربادی کی جانب بڑھ رہی ہے وہاں یہ سیاست بھی اپنے تنزلی کے آخری دور میں زیادہ بے ہودہ اور کالے دھن کی محتاج ہو گئی ہے۔ یہ سنگین بحران جو اس وقت پاکستان کو لاحق ہے اس سے محنت کش کچلے جا رہے ہیں۔ جو ''باہر‘‘ سے آئیں گے وہ شاید اتنی اذیت برداشت ہی نہ کر سکیں۔ حکمران سیاست اور ریاست کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔ لیکن محنت کش طبقے کے پاس موجود ہے۔ آج ان کو اس کا ادراک نہیں ہے‘ لیکن وقت اور حالات ان کو اس کا احساس اور ادراک حاصل کرنے پر مجبور کریں گے‘ اور جب یہ ہو گیا تو پھر حشر ہو جائے گا!

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں