پاکستان اور ہندوستان کے حکمران 14 اور 15 اگست کو اپنی اپنی آزادی کی سترویں سالگرہ کا جشن منا رہے ہیں۔ کارپوریٹ میڈیا کی جانب سے اس آزادی کے لیے مصنوعی تفاخر اور خوشی کا احساس پیدا کرنے کی مہم عروج پر ہے۔ لیکن یہ سرخوشی چند دنوں میں ہی ہوا ہو جائے گی‘ جب گزرے ماہ و سال کی تلخ حقیقتیں برصغیر کے محروم عوام کی اکثریت کے سامنے دوبارہ اپنا سر اٹھائیں گی۔ یہ کروڑوں کی خلقت غربت، محرومی اور بیماری کی زنجیروں میں بندھی اور زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ عشرے اسی طرح بیت چکے ہیں۔
برصغیر کی ایک مایہ ناز مورخ رومیلا تھاپڑ نے چند سال پہلے لکھا تھا، ''تاریخ جتنی دیر سے لکھی جاتی ہے اتنی ہی مستند ہوتی ہے‘‘۔ آج کے دور کی جدید تحقیقی تکنیک نے جس ہولناک حقیقت کو عیاں کیا ہے اس نے تھاپڑ کے نکتے کو درست ثابت کر دیا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے سیاسی، ریاستی، سماجی اور دانشور حلقے تاریخ کو اپنی مرضی کے تحت استعمال کرتے ہیں اور اکثر تاریخ کو دوبارہ لکھنے میں مصروف رہتے ہیں تاکہ اپنے اپنے نظریات کو جواز فراہم کر سکیں۔ یہ واقعات کی ایسی تنگ نظر تشریح مسلط کرتے ہیں جو حکمران طبقات اور ان کی بورژوا ریاستوں کے مفادات کا تحفظ کر سکے۔ عوام کے ساتھ کیا پیش آتا ہے‘ اس سے انہیں کوئی غرض نہیں ہوتی۔ یہ لوگ تاریخی واقعات اور بیانات کو اپنی مرضی سے منتخب کرکے اپنی مرضی کی تشریحات کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاریخ کی کتابوں میں 1946ء کی انقلابی بغاوت کو مجرمانہ انداز میں چھپایا جاتا ہے‘ جب بمبئی (اب ممبئی)، کراچی اور نیوی کی دوسری بڑی تنصیبات میں رائل انڈین نیوی کے ملاحوں نے بغاوت کر دی تھی۔ اس تحریک نے برٹش انڈین ائیرفورس اور فوج میں بغاوت کو جنم دیا تھا‘ لیکن سب سے بڑھ کر اس بغاوت نے پورے برصغیر میں مزدوروں اور کسانوں کی عام ہڑتال کو بھڑکا دیا تھا‘ جس نے برطانوی سامراجی حکمرانی کو شَل کرکے رکھ دیا اور متحدہ ہندوستان ایک انقلاب کے دہانے پر پہنچ گیا۔ اس انقلابی سرکشی کی طاقت اتنی زیادہ تھی کہ برطانوی سامراجیوں کو اپنی طے شدہ مدت کے برعکس برصغیر سے جلدی بھاگنا پڑا۔
حقیقت میں یہ سال برطانوی سامراج کے ہندوستان سے شرمناک انخلا کی سترویں سالگرہ کا سال ہے‘ جب پورے برصغیر پر پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی اور پھر براہ راست فوجی قبضے کے ذریعے قائم کی گئی صدیوں کی حکمرانی اختتام پذیر ہوئی۔ یہ واقعہ ہڑتالوں اور سرکشیوں کی شکل میں ایک صدی کی انقلابی جدوجہد کا اختتامی نکتہ تھا‘ جس نے ایک مشترکہ مقصد کے گرد کروڑوں مزدوروں، کسانوں اور دانشوروں کو اکٹھا کیا تھا۔ ہندوستان کی سپریم کورٹ کے سابق جسٹس پی وی چکرورتی نے ان ہڑتالوں اور سرکشیوں سے متعلق ایک برطانوی افسر سے اپنے ایک مکالمے کے بارے میں مارچ 1976ء میں لکھا تھا، ''1956ء میں جب میں مغربی بنگال کا گورنر تھا تو لارڈ کلیمنٹ ایٹلی، جو بعد از جنگ برطانیہ کا وزیر اعظم بنا، اس وقت راج بھون کلکتہ میں رہ رہا تھا‘ سے میں نے سیدھا سوال کیا: 'گاندھی کی ہندوستان چھوڑ دو تحریک 1947ء سے بہت پہلے ہی ختم ہو چکی تھی‘ اور ہندوستان کے حالات میں ایسی کوئی چیز نہیں تھی جو برطانیہ کو فوراً ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کرتی‘ پھر یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہوا؟ جواب میں ایٹلی نے کئی بغاوتوں بشمول آئی این اے (ڈاکٹر سبھاش چندر بھوس کی باغی فوج) اور رائل انڈین نیوی کا ذکر کیا‘ جس نے برطانویوں کو باور کرایا تھا کہ ہندوستان کی فوجوں پر اب مزید بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ جب اس سے پوچھا کہ 1942ء میں مہاتما گاندھی کی ہندوستان چھوڑ دو تحریک نے کس حد تک برطانویوں کو ہندوستان چھوڑنے کے فیصلے پر مجبور کیا تو ایٹلی کی لبوں پر ایک حقارت آمیز مسکراہٹ پھیلی اور اس نے آہستہ سے کہا، ''نہ ہونے کے برابر‘‘۔
لیکن برطانیہ کی جانب سے یہ خوفناک حد تک داغدار اقدام تھا۔ پس قدمی کرتے ہوئے دشمن نے اپنے پیچھے فرقہ وارانہ بربادی کی ایک زہریلی میراث چھوڑی‘ جس کے اثرات اب تک محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ یہ واقعہ دنیا کی سب سے قدیم تہذیب کے لوگوں کی جدید تاریخ کا ایک عجیب باب تھا، بالخصوص پنجاب اور بنگال کے لیے جس کو تقسیم کیا گیا۔ برطانیہ نے اس جرم کا منصوبہ بنایا تھا۔ کشمیر کو ایک رستے ہوئے زخم کے طور پر چھوڑ دیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب پورے ایشیا میں اور چین سے لے کر مشرق وسطیٰ تک ایک انقلابی تحریک چل رہی تھی۔ چین میں پہلے ہی ایک سرخ آندھی چل رہی تھی۔ ایسے میں اگر ہندوستان سے بھی سرمایہ داری اور جاگیرداری کا خاتمہ ہو جاتا تو پورے ایشیا میں سامراج کی گرفت کو مزید ڈھیلا کیا جا سکتا تھا۔ اس کے نتیجے میں عالمی سطح پر جابرانہ اور استحصالی سرمایہ داری کا خاتمہ کیا جا سکتا تھا۔
'آزادی‘ کے دن نہرو نے اپنی تقریر میں عہد کیا تھا، ''آدھی رات کو جب دنیا سو رہی ہو گی، تو ہندوستان اپنی زندگی اور آزادی کے لیے جاگ رہا ہو گا۔‘‘ ستر سال بعد آج ان کا یہ عہد سڑ چکا ہے۔ بھارت خود ساختہ سیکولرازم کے ساتھ انتہا پسند ہندوتوا کی وحشت کے نرغوں میں ہے۔ پاکستان اپنے داخلی نوعیت کے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ یہاں کی سنجیدہ بورژوازی کے نمائندے نواز شریف نے اپنے تیسرے دورِ حکمرانی کو مکمل نہ کر سکنے اور نااہل قرار دیے جانے کے بعد اعتراف کیا ہے کہ پچھلے ستر سالوں میں ریاست ایک مستحکم پاکستان بنانے میں ناکام رہی ہے‘ لیکن دراصل یہ سماجی و اقتصادی نظام،
جس کی نواز شریف نمائندگی کر رہے ہیں‘ کا پیدا کردہ بحران ہی ہے۔ بھارت کے حکمران طبقات نے اپنی سیاسی، افسر شاہانہ اور فوجی طاقت کے ساتھ اس خطے کے باسیوں کی زندگیوں کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ہندوستان اب وہ ملک نہیں رہا بلکہ اب یہ بھارت بن چکا ہے‘ انتہا پسندی تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔ بھارت میں محنت کش طبقات نسلوں سے اذیت میں جی رہے ہیں۔ یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق آج عوام کی صحت کی حالت 1857ء کی جنگِ آزادی کے وقت کی نسبت کہیں بدتر ہے۔ اس خطے میں دنیا کی آبادی کا 22 فیصد رہتا ہے لیکن یہاں دنیا کی غربت کا 40 فیصد موجود ہے۔ یہ دونوں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ممالک ہیں لیکن کم غذائیت کی وجہ سے 44 فیصد بچے مکمل جسمانی و ذہنی نشوونما ہی نہیں پا سکتے۔ پاکستان اور بھارت کے حکمران طبقات جدید صنعتی‘ قومی ریاستیں بنانے کے فریضے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ ان سے قومی‘ جمہوری انقلاب کا کوئی ایک فریضہ بھی پورا نہیں ہوا۔ یہ دونوں ملک اسلحہ خریدنے والے دس بڑے ممالک میں شامل ہیں‘ لیکن تعلیم اور صحت پر خرچ کرنے میں سب سے نچلی سطح پر ہیں۔ ہندو انتہا پسند اب دنیا کی 'سب سے بڑی جمہوریت‘ پر حکمرانی کر رہے ہیں‘ اور حکمران طبقات محنت کش طبقات پر انتہاپسندی اور بنیاد پرستی کے ہتھیار کے ذریعے جبر کر رہے ہیں۔ بھارتی حکمران طبقات ان معاملات کو اپنی جابرانہ حکمرانی کو جاری رکھنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں اور مسلسل مذہبی اور فرقہ وارانہ نفرتوں کو ہوا دے رہے ہیں۔ سماجی و معاشی بحران بڑھ رہا ہے۔ اس بوسیدہ نظام میں ترقی اور خوشحالی کی کوئی امید بھی نہیں ہے۔ محکوم عوام کی نجات سوائے انقلاب کے کسی چیز میں نہیں۔ ایک دفعہ جب یہ عوام تاریخ کے میدان میں اتریں گے تو دنیا کی کوئی طاقت ان کے راستے میں نہیں ٹِک سکے گی۔ وہ اس رجعتی حکمرانی، جبر اور دہشت گردی کو جنم دینے والے اس نظام کا خاتمہ کر دیں گے۔ سامراجیت کی تقسیم کی میراث کا کرہ ارض سے صفایا کر دیں گے۔ برصغیر کے کسی بھی ملک میں ایسی انقلابی فتح پورے خطے میں پھیل جائے گی۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر محنت کش طبقہ آزاد ہو گا اور پورے خطے کے محنت کشوں کو متحد کر کے صنعتی انقلاب برپا کرے گا۔