"DLK" (space) message & send to 7575

بے یقینی!

پچھلے ستر سالوں میں اس ملک میں بہت سے ایسے ادوار آئے‘ جن میں سیاست، ریاست اور معاشرہ ایک بے یقینی کے عالم میں مبتلا نہ تھا‘ لیکن آج پھر 'سازشی منصوبوں‘ ، 'قومی حکومت‘ کی آمد اور اس سیاسی ڈھانچے کو لپیٹ دینے کی افواہیں گردش کر رہی ہیں۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں حکمرانوں کے ایوانوں اور نجی محلات کے ڈرائنگ رومز میں نئی نئی افواہوں اور قیاس آرائیوں کی فیکٹریاں تیزی سے متحرک ہیں۔ نواز شریف کی معزولی کی افواہیں، بیانات اور پیشین گوئیاں تو پچھلے چار سالوں سے چل رہی تھیں۔ آخر کار کبھی تو کسی قیاس آرائی نے کہیں تو سچ ثابت ہونا ہی تھا۔ لیکن تاریخ میں کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ حاکمیت کا لائحہ عمل بنانے والے ماہرین اور بالادست سامراجی و مقامی حکمرانوں کے سارے ارادے اور تناظر ان کے اپنے نمائندے ہی غلط بنا دیتے ہیں۔ ان کی ساری حکمت عملی پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ میرے خیال میں نواز شریف کو معزول کرکے موٹر وے کے ذریعے گھر بھیجنا بھی منصوبے کا حصہ تھا لیکن نواز شریف صاحب کے جی ٹی روڈ سے جانے کے فیصلے نے تو ان کے اپنے ہی طبقے کے لوگوں کو ششدر کرکے رکھ دیا۔ اگر صرف طاقت اور حکمرانی کے حوالے سے دیکھا جائے تو نواز شریف اقتدار سے محروم ہوئے‘ لیکن ایسے معاشرے میں جہاں سیاست پر اقتدار کی قوتوں کا کنٹرول تقریباً مکمل ہو چکا تھا، روایتی پارٹیاں اور سیاستدان اس نظام کے آگے گھٹنے ٹیک چکے تھے اور کاسہ لیسی پر اتر آئے تھے‘ وہاں ایک سیاسی خلا کا پیدا ہونا کافی عرصے سے ناگزیر ہو چکا تھا۔ اس خلا کو نواز شریف تو بھلا کیا پُر کریں گے‘ البتہ ان کو اپنی سیاست چمکانے، مظلوم بننے اور ''انقلابی‘‘ ہونے کی نعرہ بازی کرنے کی تھوڑی سی جگہ ضرور مل گئی ہے۔
مسلم لیگ (ن) تو حکمران طبقے کی سب سے مستند جماعت بن گئی تھی۔ وہ بھلا کسی حقیقی محنت کش عوام کی تحریک کو کیا راستہ یا منزل دے سکتی ہے۔ لیکن نواز شریف کی یہ مزاحمت حکمرانوں کے لیے حیران کن اور پریشانی کا باعث بنی ہے اور ان کی تدبیروں کو عملی جامہ پہنانے میں مشکلات کا بھی سبب بن رہی ہے۔ نواز شریف چاہے کتنا ہی دکھی کیوں نہ ہوں‘ لیکن ان کو اس حقیقت کا شاید ادراک نہیں ہے کہ وہ اس وقت معزول ہوئے ہیں‘ جب ان کی میکرو (سطحی) معیشت اب تنزلی کا شکار ہو رہی تھی۔ لیکن جب نواز شریف راولپنڈی سے جی ٹی روڈ پر چڑھے تو شاید انہوں نے اس وقت تک کبھی سوچا بھی نہ ہو گا کہ وہ لاہور پہنچ کر ''انقلاب‘‘ کا نعرہ دینے پر مجبور ہوں گے۔ عام تاثر یہ ہے کہ وہ راستے میں سوچتے آئے ہوں گے کہ انہوں نے کیا لائحہ عمل اختیار کرنا ہے؟ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ میاں صاحب سوچتے کچھ کم ہی ہیں۔ وہ راستے میں سوچتے ہوئے نہیں آئے تھے‘ دیکھتے آئے تھے۔ اسی دبائو نے ان سے انقلاب کا لفظ کہلوا دیا۔
حقیقت یہ نہیں ہے کہ سوچ اور شعور حالات کا تعین کرتے ہیں بلکہ حالات اور واقعات انسانی سوچ اور شعور کو متعین کرنے میں زیادہ کارفرما ہوتے ہیں۔ سوچ حالات کو نہیں بدلتی‘ حالات سوچ کو بدل دیتے ہیں۔ اور پھر یہی شعور دوبارہ حالات کو مزید ریڈیکلائز کر دیتا ہے۔ لیکن اس واقعے سے اور کچھ ہو نہ ہو ایک بات پھر ثابت ہوتی ہے کہ جب آپ کو عوام کی حمایت شدت سے درکار ہوتی ہے تو پھر آپ کے پاس ''انقلاب‘‘ کا نعرہ دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہو سکتا ہے کہ یہ لیڈر خود عوام کی سوچ اور سیاسی شعور کو انقلاب کے راستے سے گمراہ اور اس کو فرسودہ اور متروک کروانے کے پراپیگنڈے اور مہم میں سب سے سرکردہ کیوں نہ رہے ہوں۔ لیکن نواز شریف نعرے سے آگے نہیں جا سکتے۔ نہ یہ پُرانا دور ہے‘ نہ ہی وہ تحریک کی شدت ہے کہ جو پاپولسٹ لیڈروں کو دائیں سے بائیں بازو کی حمایت میں یکسر موڑ سکے۔ عوام تک رسائی کے لیے پہلے تبدیلی کا نعرہ دیا جاتا ہے لیکن تبدیلی کا نعرہ اتنا فرسودہ اور تحقیر زدہ ہو چکا ہے کہ نواز شریف کو ''انقلاب‘‘ کا نعرہ لگانا پڑ گیا ہے۔ تاہم اس سے نواز شریف کی قیادت میںکوئی انقلابی تحریک نہیں ابھرنے والی‘ ایک ہلکی سے ہلچل ہے جو کچھ شہروں میں نظر آئی ہے‘ لیکن حکمران طبقات کے لیے المیہ بن گیا ہے کہ نواز شریف نے انہیں بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے‘ حالانکہ نواز شریف خود اسی نظام کی پیداوار اور حکمران طبقے کا سیاسی نمائندہ تھے اور ہیں۔ ''انقلاب‘‘ کے علاوہ نواز شریف نے بلوچستان اور دوسرے صوبوں اور قومیتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور ''حشر‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جو کسی کلیدی ''پنجابی‘‘ سرمایہ دار اور سیاست کے سرخیل لیڈر کے لبوں سے پہلی مرتبہ ادا ہوا ہے۔ اس سے بھی اقتدار کے ایوانوں میں زیادہ کھلبلی مچی ہے‘ لیکن لگتا ہے کہ نواز شریف کی اس برہمی کی''بیماری‘‘ کا کوئی علاج کر لیا جائے گا۔ پہلے میڈیسن (ادویات) کا استعمال ہو گا اور اگر ''بیماری‘‘ زیادہ خطرناک ہوئی تو شاید کوئی بڑی سرجری بھی کرنا پڑ جائے۔ سیاسی اور ریاستی اداروں کے درمیان ہمیشہ سے یہی ہوتا رہا ہے‘ لیکن اس کی شدت ایک گہرے معاشی بحران کی غمازی کرتی ہے۔ اداروں کو آپس میں لڑنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ وہ پوری کوشش کرتے ہیں کہ باہمی افہام و تفہیم سے بار بار ابھرنے والے مسائل کو حل کریں۔ لیکن جب بحران گہرا ہوتا چلا جاتا ہے تو ابھی ایک تنازعہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا ابھرآتا ہے۔
ماضی میں زیادہ تر بیرونی مداخلت امریکی سامراج نے کی‘ لیکن جب سے یہ سامراج تاریخی اور اقتصادی زوال پذیری کا شکار ہوا ہے‘ اس کی داخلی اور خارجی حیثیت، اختیار اور دبدبہ بھی بہت کمزور اور لاغر ہو گیا ہے۔ اب پاکستان میں بہت سے دوسرے عالمی اور علاقائی کھلاڑی اپنی سیاسی اور پرتشدد پراکسی جنگوں میں برسر پیکار ہیں۔ اس طرح جب کھلاڑی بہت بڑھ جائیں تو پھر یہ عمل پیچیدہ اور متضاد ہو جاتا ہے کیونکہ ان سب کے مالی مفادات کا ٹکرائو کہیں نہ کہیں آگ بھڑکا دیتا ہے۔ مقامی حکمران طبقات ہوں یا بیرونی سامراجی‘ سب کے مفادات کا حتمی مقصد مالیاتی منافع خوری ہوتی ہے جو اس نظام زر میں صرف لوٹ مار اور کرپشن کے ذریعے ہی ممکن رہ گئی ہے۔ کچھ دھونس کے ذریعے قبضے کرتے ہیں تو کچھ سیاسی چالبازی کے ذریعے واردات فرماتے ہیں۔ آخری تجزیے میں ان کا ہدف صرف محنت کش طبقات اور غریب عوام ہی ہوتے ہیں‘ جو دولت اور مصنوعات پیدا بھی کرتے ہیں اور ان سے محروم بھی رہتے ہیں ۔ ان کی تحریکوں اور جدوجہد کو زائل کرنے کے لیے کبھی کچلا جاتا ہے تو کبھی ان کے لیڈروں سے غداریاں کروائی جاتی ہیں۔ کبھی جمہوریت کے نام پر ان کو لوٹا جاتا ہے اور کبھی حب الوطنی یا مذہبی جذبات ابھار کر ان کو اس استحصالی نظام کے تابع کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر تحریک نہ بھی چل رہی ہو تو معاشرے کے سطحی سکوت کے نیچے جو لاوا پک رہا ہوتا ہے‘ اس کی تپش سے حکمران اور ان کے محافظین بچ نہیں پاتے۔ اس کا اظہار ان کے تصادموں کی صورتحال میں ہوتا ہے۔ ہمارے سامنے حکمرانوں میں اختلافات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ نواز شریف صاحب نے انقلاب کا نعرہ ضرور دیا ہے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ کوئی انقلاب لا نہیں سکتے۔ نعرہ انہوں نے ضرور دیا ہے لیکن ان کے پاس نہ کوئی پروگرام ہے‘ نہ ہی کوئی لائحہ عمل اور نہ کوئی انقلابی پارٹی۔ تاہم کم از کم اتنا تو ہوا کہ عوام میں آ کر اس بورژوازی کے کلاسیکی نمائندے کو بھی انقلاب کا نعرہ لگانے کی مجبوری لاحق ہوئی۔ انقلاب کو صفحہ ہستی سے مٹا چکی سیاست اور دانش ششدر ہے۔ لیکن اگر کوئی انقلابی تحریک اور پارٹی تاریخ کے میدان میں اتر کر آگے بڑھ آئی تو پھر یہ بحران زدہ حاکمیت اس کا بھلا کیا مقابلہ کر سکے گی؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں