حکمران طبقات کی بوسیدہ اور فریبی سیاست کی کشمکش میں پیپلز پارٹی کی قیادت پوری تگ و دو سے اپنا مقام بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ سازشوں اور الٹ پلٹ ہونے والی اس سیاست میں ان معاملات کے ماسٹر مائنڈ اپنی پوری مہارت کو استعمال کر رہے ہیں۔ وہ اس پالیسی پر کارفرما ہیں کہ کسی طرح نواز لیگ آئوٹ ہو جائے اور سامراجیوں اور ریاست کے کلیدی اداروں کے لئے وہ پارٹی کو تابعدار بنا کر پیش کر سکیں۔ اقتدار کے حصول کے لیے اس سے آسان راستہ کیا ہو سکتا ہے۔ میڈیا کی کوریج بھی مل جاتی ہے، انتخابات کے نتائج بھی مخلوط حکومت بنانے کے لئے کافی ہوتے ہیں۔ زیادہ زور بھی نہیں لگانا پڑتا اور جب آقائوں کی جانب سے سبز جھنڈی دکھائی جاتی ہے تو پھر سیاسی 'ایلیکٹ ایبل‘ اشرافیہ خود بخود الیکشن میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ اقتدار میں حصہ داری کے امکانات کے روشن ہوتے ہی پہلے والے انویسٹرز کے ساتھ ساتھ نئے نئے فنانسرز بھی آتے رہتے ہیں۔ جہاں کوئی موٹی آسامی نہیں ملتی وہاں کسی درمیانے طبقے کے فرد کو ٹکٹ اور پیسے دونوں دے کر خانہ پُری بھی کی جا سکتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت واضح طور پر اب اسی ''نظریے‘‘ اور یقین کے ساتھ اپنی ساری ساکھ کا دائو‘ اس ریاستی اور سامراجی ذرائع کے طفیلی اقتدار کے حصول کے لیے لگا رہی ہے۔
پاکستان کے موجودہ طبقاتی معاشرے میں حکمرانوں کے لئے ''عرش‘‘ کی سیاست بڑی آسان اور سہل ہوتی ہے۔ محنت کشوں کی سیاست بہت زیادہ محنت اور قربانی مانگتی ہے۔ اس ''فرشی‘‘ سیاست میں بہت پڑھنا بھی پڑتا ہے۔ نظریات کو سمجھنا اور سمجھانا پڑتا ہے۔ سیکھنا بھی پڑتا ہے سیکھانا بھی پڑتا ہے۔ مختلف سیاسی‘ اقتصادی اور معاشرتی پالیسیوں پر بہت سی بحثیں کرنی پڑتی ہیں۔ کارکنان کو تیار کرکے انقلابی کیڈر بنانا پڑتا ہے۔ اپنا سب کچھ لٹانا پڑتا ہے۔ اختلاف رائے اور اتفاق کے پُرپیچ اور تلخ عمل سے گزر کر پالیسیاں اور لائحہ عمل مرتب کرنے پڑتے ہیں۔ بالا دست طبقات اور ان کے تحفظاتی اداروں سے سنجیدہ اور اذیت ناک ٹکرائو بہت جرات، عزم اور جانفشانی مانگتے ہیں۔ تحریکوں کے عروج و زوال کی کیفیتوں میں اپنی قوتوں کو نئی سے نئی حکمت عملی کے تحت‘ ادراک دلوا کے تیار بھی کرنا پڑتا ہے۔ کبھی ہراول دستوں کو ٹھہرانا پڑتا ہے تو کبھی پوری تحریک کو اس نظام اور معاشرے کی دلدل سے کھینچ کر نکالنا اور آگے بڑھانا پڑتا ہے۔ جیلیں، کوڑے اور تشدد بھی سہنے پڑتے ہیں، اپنے عزیز و اقارت سے کبھی دوری اور کبھی ناراضی بھی مول لینی پڑتی ہے۔ نامساعد حالات اور تاریک ادوار میں بھی انقلابی سوشلزم کی شمعیں جلائے رکھنا پڑتی ہیں۔ واقعات اور تاریخ کی کسوٹی پر ان نظریات کی سچائی کو ثابت بھی کرنا پڑتا ہے اور اس کا یقین محکم رضاکارانہ طور پر دلوں میں سرایت بھی کروانا پڑتا ہے۔ دس دس روپے کے چندے سے پارٹیاں چلانی پڑتی ہیں اور مزدوروں اور غریبوں کی پارٹی کو انہی کی طاقت اور حمایت تک ہی مرکوز رکھنا پڑتا ہے۔ ایسے وقت بھی آتے ہیں جب معاشرے اور زمانے کی اقدار، اخلاقیات اور تہذیب پر جھوٹ، فریب اور بدعنوانی جیسے معاملات حاوی اور مسلط ہو جاتے ہیں۔ ان اندھیروں کے تھپیڑوں میں سچائی کے دیے کی روشنی کو دھیما ہونے سے بھی بچانا پڑتا ہے۔ محنت کشوں اور برباد انسانوں سے عاجزی اور محبت سچے دل و جان سے رکھنی پڑتی ہے۔ جابر حکمرانوں اور دولت کے دھنوانوں کے سامنے ڈٹ بھی جانا پڑتا ہے اور اس کے نتائج بھی بھگتنے پڑتے ہیں۔
سوائے محنت کشوں اور نظریاتی ساتھیوں کے آپ کا ہوتا کون ہے؟ مشکل وقتوں میں بڑے بڑے 'انقلابی سورما‘ کہیں بِک جاتے ہیں، کہیں جھک جاتے ہیں اور کہیں آپ کو بھی بیچ دیتے ہیں۔ کبھی وار باہر سے ہوتے ہیں تو کبھی اندر سے چھرے گھونپے جاتے ہیں۔ ایسی سیاست اور ایسے نظریات کا پرچار آج کل کے دور میں بھلا کوئی کرتا ہے؟ لیکن جب سے اس طبقاتی معاشرے کا جنم ہوا ہے ایسی سیاست بدترین ادوار میں بھی موجود رہی ہے۔ نہ کوئی جابر اس کو مار سکا ہے نہ ہی کوئی حکمران اس کو مٹا سکا ہے۔
ایک وقت تھا جب پیپلز پارٹی میں یہ نظریاتی سیاست ہوا کرتی تھی۔ ایک ایسا نظریہ جو زندگی کو زندگی سے بڑے مقصد کے لیے وقف کر دینے والا ہوتا ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں پیپلز پارٹی میں ہیں۔ بہت سے نام ذہن کے دریچوں میں ابھرتے ہیں اور ان کے اقوال یادداشت میں کہیں نہ کہیں زندہ رہتے ہیں۔ کرسٹینا لیمب نے 1989ء کی اپنی شہرہ آفاق تصنیف ''اللہ کا انتظار‘‘ (wating for Allah) میں لکھا تھا کہ ''اگر آج بھٹو قبر سے واپس آ کر دیکھے تو وہ اپنی پیپلز پارٹی کو پہچان نہیں سکے گا‘‘۔ لیکن اگر وہ آج 2017ء میں آ جائے تو اس کو کیا صدمہ پہنچے گا‘ اس کا اندازہ پارٹی کے کارکنان اچھی طرح لگا سکتے ہیں۔ اس کے قتل پر مٹھائیاں بانٹنے والے آج پیپلز پارٹی کے بت خانے میں بھگوان بنے بیٹھے ہیں۔ اس سارے عرصے میں ''بھٹو کے عدالتی قتل‘‘ کا نعرہ دینے والی پارٹی کی موجودہ قیادت کس قدر تابعدار اور فرمانبردار ہو گئی ہے۔ ان کو اداروں کے تقدس کا کتنا احترام ہے! اگر ان کے موجودہ بیانات کا جائزہ لیا جائے تو اب پیپلز پارٹی کو یہ ''عدالتی قتل‘‘ والا راگ الاپنا چھوڑ دینا چاہیے، کہیں اس سے قیادت کی طرف سے کی جانے والی اُن قوتوں کی تعظیم میں کچھ کمی نہ آ جائے۔ نواز شریف تو ضیاالحق کی پیداوار تھا ہی‘ لیکن پیپلز پارٹی میں یوسف رضا گیلانی سے لے کر رحمان ملک تک ضیاالحق کی کاسہ لیسی کرنے والے آج پیپلز پارٹی میں کلیدی فیصلے کر رہے ہیں۔ ہر طرف ضیاالحق کی پیداوار ہی تو حاوی ہے۔ لیکن اس ''عملی‘‘ سیاست میں پیپلز پارٹی کی قیادت کو اس سے کیا غرض ہے۔ ایسی 'نظریاتی‘ سیاست کا کیا فائدہ جس میں ''حاصل‘‘ کچھ نہیں ہے۔ بس اتنے ''بائیں‘‘ بازو کے نظریات درکار ہیں‘ جو اس سسٹم میں فٹ بیٹھ جائیں۔ اگر مزدوروں کی حالت خراب ہے تو ان کو ملوں اور اداروں میں حصص دے دیے جائیں۔ اس سے ان کی زندگیاں سنور جائیں گی۔ وہ مزدور سے مالک بن جائیں گے۔ یہ تو 1789ء کی ملکہ فرانس 'میری انٹونٹ‘ کے نظریات ہیں جس کو جب پتہ چلا کہ یہ مجمع اس لیے احتجاج کر رہا ہے کہ وہ روٹی سے محروم ہیں‘ تو اس نے اپنے اہل کاروں سے استفسار کیا تھا کہ ان کو روٹی نہیں ملتی تو یہ ''کیک‘‘ کیوں نہیں کھاتے! ویسے بھی نظریاتی اور محنت کش طبقے کی نجات والی 'انقلابی سوشلسٹ سیاست‘ قلعہ نما علاقہ جات سے نہیں نکلا کرتی۔ یہ تو گلیوں، کوچوں، فیکٹریوں، دیہاتوں اور جھونپڑیوں میں ہوتی ہے اور وہیں سے انقلاب کے روزِ محشر ابھرتے ہیں۔ اتنے پُرتعیش ایوانوں میں‘ جہاں سہولیات اور عیاشی کے سامان کی بھرمار ہو‘ وہاں کی سیاست کا مزہ اور ہوتا ہے۔ ان کو غریبوں اور محنت کشوں کی ایسی کٹھن سیاست کی کیا ضرورت ہے؟ یہاں الزام تراشیوں اور کرپشن کے خلاف تقریریں کرکے پھر پُرتعیش محلات میں کبھی پلاٹوں‘ فیکٹریوں کی خرید و فروخت، پرمِٹوں اور ٹھیکوں کے سودوں اور لچر قسم کے لطیفیوں اور طنزیہ گفتگو میں محو ہو جاتے ہیں۔ یہاں نظریات کی بجائے شخصیات پر بحثیں ہوتی ہیں۔ فٹنس اور جم میں ظاہری جسامت کو خوبصورت اور فعال بنانے کی مشاورت ہوتی ہے‘ لیکن ان توانا اور فعال جسموں کی روح احساس اور ضمیر مردہ ہوتے ہیں۔
اس عرش پر غربت کے فرش سے زیادہ نحوست ہے۔ تمام تر مسکراہٹوں اور خوشبوئوں کے باوجود ماحول گندہ ہے، روح کھوکھلی اورغریب ہے‘ لیکن فرش کی سیاست اس حکمران سیاسی تھیٹر سے شدید اکتاہٹ اور برہمی کا شکار بھی ہے۔ بغاوت مچل رہی ہے۔ اور جب غریبوں کے اس فرش کی سیاست سے ''پیپلز‘‘ کی ''پیپلز پارٹی‘‘ چاہے کسی نام سے بھی ابھرے گی تو وہ اس منزل کو پار کرے گی جس کو 1968-69ء کی پیپلز پارٹی سر کرنے سے محروم رہی تھی۔