"DLK" (space) message & send to 7575

مردم شماری کے اغراض و مقاصد؟

حالیہ مردم شماری کے نتائج نے ایک سیاسی طوفان کھڑا کر دیا ہے اور اس معاشرے کے سلگتے ہوئے قومی اور فرقہ وارانہ تضادات کو مزید بھڑکا دیا ہے۔ سندھ حکومت، ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں اور مختلف قوم پرست پارٹیوں نے ان نتائج کو ایک سازش قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ چونکہ ان پارٹیوں کی سیاست زیادہ تر لسانی اور قومی بنیادوں پر ہے اس لیے وہ ہر اس ایشو، جس سے قومی تضادات کو ابھارنے کا موقع ملے، کو اپنی سیاست چمکانے کے لیے بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم اور پانی کی تقسیم کا مسئلہ ہو یا سی پیک کے روٹ کا‘ یا پھر تعلیم اور دوسرے شعبوں میں کوٹے کا، کسی بھی ایشو پر پاکستان میں قومی مسئلہ اور تضادات و تعصبات ابھر آتے ہیں یا پھر شعوری طور ابھارے جاتے ہیں۔ لیکن یہ مسئلہ بار بار اس لیے بھی ابھرتا ہے کہ یہاں استحصال اور جبر موجود ہیں‘ اور پیچیدہ بھی ہوتے جا رہے ہیں۔ یہاں 70 سال بعد بھی ایک جدید قومی ریاست اور یکجا ''پاکستانیت‘‘ پر مبنی سماجی و اقتصادی اور تاریخی اعتبار سے ایک قوت تشکیل نہیں پا سکی۔ یہ عمل ایک نامکمل اور ناہموار شکل میں موجود ہے۔
حکمران اس طبقاتی اور قومی تفریق و ناہمواری کو دور کرنے کے بجائے اس کو تسلیم کرنے سے ہی انکاری ہیں۔ کوئی بھی قوم کبھی ریاستی دھونس، نصابی تدریس اور میڈیا کے پراپیگنڈے کی بدولت تشکیل نہیں پاتی۔ اس کے برعکس طاقت کے ذریعے کسی قومی نظریے کو نافذ کرنے سے قومیتوں میں اپنے مقبوضہ ہونے کا احساس پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے‘ جس سے ابھرنے والی محرومی خصوصاً نوجوانوں میں باغیانہ رجحانات کو فروغ دیتی ہے۔ اس محرومی کی وجہ سے پچھلے 70 سالوں سے مختلف خطوں میں خانہ جنگیاں اور مسلح بغاوت کی تحریکیں موجود رہی ہیں‘ لیکن اس قومی محرومی کا احساس بغیر ٹھوس اقتصادی وجوہات کے بھی نہیں ہے۔ اکانومسٹ کے مطابق ''لاہور میں بدترین غربت میں بسنے والوں کی تعدادآبادی کا دس فیصد ہے‘ جبکہ بلوچستان کے پسماندہ دیہاتوں میں یہ شرح 90 فیصد ہے‘‘۔ یہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ کس طرح عدم مساوات‘ طبقاتی و قومی بنیادوں پر موجود ہے۔ لیکن اگر ایک طرف پاکستان کے مرکز کے ادارے اور سیاستدان اس محرومی کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں تو دوسری طرف موجودہ استحصالی نظام، جو ان بربادیوںکی بنیادی وجہ ہے، میں قوم پرست بھی قومی استحصال کا کوئی حقیقی یا ریڈیکل حل دینے سے قاصر ہیں۔ ایسے میں مختلف قوموں کے حکمران طبقات اپنے مخصوص مفادات کے حصول کے لیے ان مسائل کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ ان مسائل کا حل دینے کے بارے میں نہ تو وہ سنجیدہ ہیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی حل موجود ہے۔
اسی طرح دنیا کے مختلف معاشروں میں آبادیوں کے تناسب کو مذہبی رجعتیت کی سیاست کرنے والے بھی بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً اسرائیل فلسطین تنازعے میں صورتحال یہ ہوتی جا رہی ہے کہ شرح پیدائش کے تناسب سے فلسطینیوں کی آبادی زیادہ تیزی سے بڑھی ہے۔ اب یہ یہودی آباد کاروں کی کل آبادی کے تقریباً برابر یا ان سے زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ اس مسئلے کو انتہا پسند یہودی سیاستدان اور رابی ایک خطرہ بنا کر پیش کر رہے ہیں اور یہودیوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ اسی طرح بھارت میں چونکہ مسلمانوں کی شرح پیدائش زیادہ ہے اس لیے ہندو بنیاد پرست اس کو خطرے کی گھنٹی بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ وہ ہندو آبادی پر زور دے رہے ہیں کہ وہ زیادہ بچے پیدا کریں۔ یہاں بھی مختلف طبقوں میں ایسے پرچار عام ملتے ہیں۔ لیکن اس قسم کے رجعتی رجحانات اور مہمات کسی مسئلہ کا حل نہیں ہیں، بلکہ یہ جنونی پرچارک شعوری طور پر ان اعدادوشمار کو نفرتیں بڑھانے اور تعصبات سے عام انسانوں کو تقسیم کرکے اپنی وحشیانہ حاکمیت کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
عمومی طور پر آبادی میں تیز رفتار اضافہ غریب معاشروں میں پایا جاتا ہے‘ جہاں ایک طرف محنت کشوں اور غریبوں کو روزی روٹی کے لیے زیادہ ''ہاتھ‘‘ درکار ہوتے ہیں‘ وہاں سماجی و ثقافتی گھٹن بھی اس تیز اضافے کا باعث بنتی ہے۔ ریاستی اقدامات سے آبادی کو کنٹرول اور منصوبہ بندی نہیں کی جا سکتی۔ پاکستان میں ایوب کے ''خاندانی منصوبہ بندی پروگرام‘‘ اور بھارت میں اندرا گاندھی کے بیٹے سنجے کے ''سٹیرلائزیشن پروگرام‘‘ کی ناکامی اس کا ثبوت ہیں۔ جب کوئی معاشرہ اقتصادی اور مادی ضروریات و انفراسٹرکچر کی ترقی حاصل کرتا ہے تو پیدائش کا عمل اور آبادی میں اضافہ زیادہ مناسب ہو جاتا ہے‘ لیکن غریب ممالک میں‘ جہاں آبادی بہت زیادہ ہے‘ معاشرے کی پسماندگی کے سبب سب سے بڑے معاشی اثاثے ''مین پاور‘‘ کو انسانی سماج کی ترقی کے لیے بروئے کار نہیں لایا جا سکتا۔
سوال یہ ہے کہ جدید تاریخ کے مختلف ادوار میں حکمرانوں کو مردم شماری کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی اور اس سے وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ ہر حکمران کو اپنی حاکمیت کو قائم رکھنے اور اسے طول دینے کے لیے کسی نہ کسی طرز کی یا کسی نہ کسی سطح پر معاشرے کی منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے۔ ایسی منصوبہ بندیوں کے لیے آبادی کی مقدار کا تعین کرنا ایک کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ تاریخ کے کسی بھی سماجی و معاشی نظام کے عروج اور ترقی کے ادوار میں حکمران اس مردم شماری کو کسی حد تک مثبت منصوبہ بندی کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ لیکن ایک زوال اور جبر کے عہد میں یہ مردم شماری منفی اور رجعتی عزائم کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ برصغیر میں تاریخی طور پر جو پہلی مستند مردم شماری ہوئی تھی وہ شیر شاہ سوری نے کروائی تھی۔ اس کے بعد بیشتر مردم شماریاں مختلف حاکمیتوں اور ادوار میں ہوتی آئیں۔ انگریزوں نے سامراجی نوآبادکاری کے بعد پہلی مردم شماری 1874ء میں کروائی تھی۔ اس میں برصغیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ '' مذہب‘‘ کا خانہ ڈالا گیا تھا‘ جس کا بنیادی مقصد برطانوی سامراج کی ''تقسیم اور حاکمیت‘‘ کی پالیسی کا نفاذ تھا۔ جس کا ہولناک انجام آج بھی ہمارے سامنے خونریزی اور مسلکی اختلافات کی شکل میں بربادیاں پھیلا رہا ہے۔ ایک طبقاتی معاشرے میں مردم شماری کا مقصد منصوبہ بندی کے ذریعے عوام کی ضروریات کی تکمیل اوران کی تکالیف دور کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس کا مقصد بالادست طبقات کی حاکمیت کو مختلف تعصبات اور تنازعات کو پروان چڑھا کر مسلط کرنا ہی ہوتا ہے۔ اس نظام میں معیارِ زندگی اور ملک کی ترقی اور خوشحالی کا اندازہ فی کس آمدن سے لگایا جا سکتا ہے۔ اگر ایک محنت کش کی اجرت 3000 روپے ماہوار ہے اور اس کے مالک کی آمدن تیس لاکھ ماہانہ ہو تو ''اوسط آمدن‘‘ 15 لاکھ ایک ہزار پانچ سو روپے بنے گی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سماج میں آمدن کی اتنی شدید تقسیم و تفریق کے ہوتے ہوئے اوسط آبادی کے لحاظ سے جو اعدادوشمار پیش کیے جاتے ہیں وہ کتنے مصنوعی اور جعلی ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ڈیڑھ ڈالر یومیہ کے حوالے سے 30 فیصد آبادی انتہائی غربت سے نیچے ہے لیکن اگر یہ دو ڈالر یومیہ کر دی جائے یعنی 6000 روپے ماہانہ تو غربت کا تناسب 60 فیصد بن جاتا ہے اور اگر پانچ ڈالر یومیہ یعنی 15000 روپے مہینہ کی جائے تو یہ غربت 80 سے 86 فیصد ہو جاتی ہے۔ 15000 روپے ماہوار میں کس قسم کا گزارا ہو سکتا ہے‘ یہ سب جانتے ہیں! 
اتنی شدید مالیاتی تقسیم اور تفریق میں کوئی حقیقی منصوبہ بندی ہو ہی نہیں سکتی۔ جب تک دولت کی یہ غیر منصفانہ تقسیم اور امارت اور غربت کی تیزی سے بڑھتی ہوئی خلیج موجود ہے، حکمران طبقات وسائل کی بھاری لوٹ کھسوٹ جاری رکھے ہوئے ہیں تو کوئی ایسی اقتصادی اور معاشرتی منصوبہ بندی نہیں ہو سکتی جس سے عام انسانوں کی زندگیاں سہل ہو جائے، محرومی کا خاتمہ ہو اور محرومی و حسد سے جنم لینے والے تعصبات اور منافرتوں کا قلع قمع ہو سکے۔ یہ منصوبہ بندی صرف ایک ایسے معاشرے میں ممکن ہو سکتی جہاں پیداوار اور ترسیل کا اختیار ''منڈی‘‘ کے پاس نہ ہو۔ جہاں تمام وافر دولت، حکمرانوں کے لوٹ خزانے اور پوری معیشت معاشرے کی اشتراکی ملکیت اور مزدور ریاست کے مکمل اختیار میں ہو۔ جب تک یہ اونچ نیچ اور معاشی نا انصافی کا نظام ختم نہیں ہوتا ایسی ریاست بھی جنم نہیں لے سکتی جو شفاف مردم شماری ہی کروا سکے اور نہ ہی اجتماعی فلاح اور اشتراکی ترقی و خوشحالی کا سماج ممکن ہے۔ وہ منصوبہ بندی جس سے عوام کے دکھ درد کا خاتمہ ہو اور معاشرے کو حقیقی خوشحالی نصیب ہو‘ صرف انسانی ضروریات کی تکمیل کرنے والی منصوبہ بند معیشت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں