پچھلے سال امریکہ کی صدارتی انتخابی مہم کے دوران اس وقت کے ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے ستمبر2016ء کی ایک تقریر میں اقوامِ متحدہ کے بارے میں کہا تھا'' اقوامِ متحدہ ایک کرپٹ اور بیکار کلب ہے، جس میں دنیا بھر کی اشرافیہ ناٹک کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کے اخراجات امریکیوں کے پیسوں سے ہوتے ہیں ،حالانکہ یہ ادارہ اس قابل نہیں ہے۔‘‘
19ستمبر 2017ء کو اسی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں‘ امریکہ کے صد ر ٹرمپ نے کہا کہ''اگر ادارہ عالمی امن لانے میں کارآمد ثابت ہوتا ہے اور اپنے اخراجات میں کٹوتی کرتا ہے تو اس پر ہونے والی سرمایہ کاری اس قابل ہے کہ صر ف کی جائے‘‘۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری بیشتر پالیسیوں کی طرح اقوامِ متحدہ کے بارے میں یہ پالیسی بھی تضادات سے بھری ہوئی ہے۔ لیکن ٹرمپ کی بڑھک بازی سے بھرپور اس تقریر میں عمومی طور پر جو بیانیہ پیش کیا گیا وہ امن کا نہیں بلکہ جارحیت اور جنگ کی دھمکیوں پر مبنی تھا، اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کو زیادہ فنڈنگ کرنے والے ملک کا سربراہ اس ادارے کے ''بنیادی اصولوں‘‘ کے چاہے پرخچے اڑا دے،اس کو سات خون معاف ہیں۔اس نے شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کو ''راکٹ مین‘‘ قرار دیا اور پورے شمالی کوریا کو نیست ونابود کردینے کی دھمکی دے ڈالی۔ اسی طرح تقریر کے ایک بڑے حصے میں ایران کے خلاف مسلسل یلغار کی۔ اس نے ایران کو'' انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں‘ دہشت گردی برآمد کرنے والے ملک ‘ اور 'پورے خطے میں بربریت پھیلانے والی حاکمیت‘ کے القاب سے نوازا۔ وینزویلا اور لاطینی امریکہ کی دوسری سامراج دشمن حکومتوں پر بھرپور وار کیے۔ تقریباً پانچ مرتبہ اس نے سوشلزم اور کمیونزم کو متروک وحشیانہ اور جبر کا نظام قرار دیا۔ کمیونزم کو تاریخ کا ناکام نظام قرار دیتے ہوئے غصے سے اس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی۔لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس سوشلزم کو پچھلی تین دہائیوں سے حکمران متروک اور مردہ قرار دے رہے ہیں۔آج پھر ٹرمپ کو ‘اس نظام کو گالی دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ۔ اس کو کمیونزم سے اتنی تکلیف کیوں ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ'' کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح‘‘۔ سامراجی حکمرانوں کے انقلابی سوشلزم کے اس خوف سے اندازہ ہوتا ہے کہ عالمی اور مقامی سرمایہ دارانہ ماہرین آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی نظریے سے اس استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کو خطرہ ہے تو وہ سوشلزم ہی ہے۔جس طرح ٹرمپ مختلف ممالک پر الزامات اور حملوں کی بوچھاڑ کررہا تھا پاکستان کے سفارتکار اور ریاست کے اعلیٰ حکام اس کی تقریر کے دوران دم سادھے بیٹھے تھے۔ ان کو یہ خوف تھا کہ اس تقریر میں نہ جانے کب ٹرمپ کی بندوقوں کا رخ پاکستانی ریاست کی جانب مڑ جائے۔ ٹرمپ کی تقریر میں پاکستان کا ذکر نہ ہونے سے ان کے سانس میں سانس آئی۔ چوہدری نثار کی تمام تر بڑھک بازی کے باوجود پاکستان کے حکمران امریکہ سے مکمل بگاڑپیدا نہیں کرسکتے۔ جس نظام کے یہ حکمران نمائندہ ہیں‘امریکی سامراج کامعاشی تسلط، اس کی سیاسی اور سفارتی جکڑ سے مکمل چھٹکارا حاصل نہیںکرنے دیتا۔ دوسری جانب امریکی سامراجیوں کی تاریخی اقتصادی اور عسکری تنزلی اس کو اتنا لاغر بنارہی ہے کہ پاکستان کی ڈیپ ریاست کے بارے میں تمام تر الزام تراشیوں کے باوجود پاکستان پر ابھی تک شمالی کوریا اور ایران کی طرح ہلڑ بازی کی گنجائش ٹرمپ جیسے بڑبولے کے پاس بھی نہیں ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی صدر ٹرومین‘ روسی حکمران سٹالن اور برطانوی وزیراعظم چرچل کے درمیان ہونے والے یالٹا اور پوئز ڈیم کے معاہدوں میں اقوام متحدہ کی تشکیل کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ان''فاتح اتحادیوں‘‘ نے عالمی طور پر اپنے اثرورسوخ اور ملکی مفادات کے لیے ایسا ادارہ قائم کیا، جس سے ان کے عالمی تسلط کے تناسب کو برقرار رکھا جائے۔ ظاہری طور پر امن کے لیے قائم شدہ ادارے پر بڑی طاقتوں کا تسلط قائم ہے۔ چھوٹے ملکوں کی حالت یہاں بھی ''کمیوں‘‘ والی ہی ہے۔ لیکن سات دہائیوں سے زائد عرصے میں امن کی بحالی کی بجائے آج دنیاکے ہر خطے میں خانہ جنگیوں ،ریاستی وغیر ریاستی دہشت گردی اور پراکسی جنگوں کی بربادیاں‘ اس ادارے کی ناکامی ونامرادی کی غمازی کررہی ہیں۔یہ ایک تقریری فورم یا کلب ہے جہاں ایک رِیت بنائی گئی ہے کہ سالانہ اجلاس میں دنیا کے بیشتر ممالک کے حکمران آکر بے معنی تقاریر کرکے چلے جاتے ہیں ، نتیجہ کچھ نہیں نکلتا،ناہی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتاہے۔ فلسطین سے لے کر کشمیر تک دنیابھر میں سلگتے مسائل اس ادارے کی متروکیت ظاہر کرتے ہیں۔ ہر حکمران کو جب کسی تنازعے یا جنگ میں شکست کا سامنا ہوتا ہے یا انکے سامراجی نظام کو کسی تحریک سے خطرہ لاحق ہوتا ہے تو یہ ادارہ دنیا کے بالادست حکمرانوں کو استعمال کروا کے اس مسئلہ کو وقتی طور پر زائل کروا دیتا ہے ۔ لیکن تاخیر زدہ ہوجانے سے یہ تنازعے حل نہیں ہوتے بلکہ گل سڑ کر زیادہ رستے ہوئے زخم بن جاتے ہیں۔ ٹرمپ نے جو انسانی حقوق کا واویلا کیا ہے، اس کا اگر حالیہ تاریخ میں جائزہ لیا جائے تو سامراجی جارحیتوں اور آمریتوں کو مسلط کرنے کی وارداتوں سے لاکھوں انسانوں کا خون ناحق ہوا ،کروڑوں قیدوبند اور اقتصادی دہشت گردی کا شکار‘ اسی امریکی سامراج کے جبر سے ہوئے۔ آج بھی مصر سے لے کر فلپائن کی آمریتوں کی وحشت کو براہِ راست ٹرمپ انتظامیہ کی حمایت حاصل ہے۔ اسرائیل کی صہیونی ریاست کی دہشت گردی اور فلسطین کی غارت گری کی حمایت کیے بغیر امریکی صدارت ‘کوئی لیڈرحاصل ہی نہیں کرسکتا۔ جوہری پروگراموں پر، اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں کے انسانی بربادیوں کے ذخیرے پر اس اقوام متحدہ میں کوئی اعتراض کی قرار داد تک پاس نہیں ہوسکتی۔امریکی ویٹو ہر وقت تیار رہتا ہے۔ ٹرمپ کے لاابالی پن کا اس کوصدر منتخب کروادینا ‘اس گہری پراگندگی اور بیگانگی کا نتیجہ ہے جو اس وقت امریکہ کے عوام اور سماجی نفسیات میں چھائی ہوئی ہے۔ اسکی اس ہلڑبازی کی پالیسیوں کی گندگی صاف کرنے پر نائب صدر مائیک پینس اور وزیر خارجہ رک ٹلرسن مامور ہیں ۔اسی لئے پاکستانی وزیر اعظم سے اصل معاملات طے کرنے کی ملاقات پینس نے ہی کی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی تمام تر ہلڑبازی کے باوجود اقوام متحدہ میں امریکہ اور دنیا کے بیشتر ممالک کے بالادست طبقات کے نظام اور سیاسی و ریاستی نمائندوں کی ضرورت ہے۔اسکو ایک ایسا چھلاوابنا دیا گیا ہے کہ جہاں کسی مسئلہ کا حل نہ ہورہا ہو تو پھر اس کو اقوام متحدہ کے سپرد کردیا جاتا ہے ۔ تنازعات اور مسائل عالمی اقتصادی بحران کی شدت سے سیاسی عسکری سفارتی اور سماجی خلفشار کی سنگینی میں واضح ہورہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کے تمام تر جارحانہ بیانات کے باوجود اس عہد میں سامراجی جارحیت اور جنگیں اس کی تنزلی میں مزید اضافہ ہی کریں گے۔ ٹرمپ نے جس حب الوطنی کا درس دیا ہے۔امریکہ او ر دنیا بھر کے عوام حکمرانوں کی حب الوطنی کے جھانسے کو بھانپ بھی چکے ہیں اور اس سے تنگ بھی ہیں۔معیشت کے عالمگیریت اختیار کرجانے کے باوجود حب الوطنی حکمرانوں کا ایک ہتھکنڈا بن چکی ہے۔ جب تک دولت کے اجتماع کی ہوس اور ا س کے تحفظ کے لیے ریاستی طاقت کے جبر کا خاتمہ نہیں ہوتا اس وقت تک محرومی اور جبر کے خلاف بغاوتیں اور تشدد بڑھتا رہے گا۔