"DLK" (space) message & send to 7575

صفائی؟

وزیر خارجہ خواجہ آصف کے بیان کہ ہمیں پہلے اپنے گھر کی صفائی کرنی ہے، سے مالیاتی سیاست اور ابلاغ کے پیالے میں ایک طوفان برپا ہے۔ صفائی تو ہونے والی ہے لیکن صرف پاکستان میں نہیں بلکہ بھارت اور ہراس ملک کی جس میں حکمرانوں نے اپنی بحرانی کیفیت کو بچانے کے لیے سیاسی، سماجی اور اخلاقی غلاظت سے معاشروں کو تعفن زدہ کردیا ہے۔ جہاں حکمرانوں نے اپنے اقتصادی نظام کو طوالت دینے کے لیے مذہبی، قومیاتی اور نسلی فسطائیت کی درندگی سے عوام کو مجروح کرنے کی واردات جاری رکھی ہوئی ہے۔ ہوس کے اس نظام نے سماجی نفسیات میںرجعتیت کی اس غلاظت کے لیے ایسے حالات پیدا کردیئے ہیں کہ سڑکوں ، گلیوں، کچی آبادیوں ، دیہاتوں اور مضافاتی علاقوں میں گندگی کے ڈھیر اور بدبوئوں کے بھبھوکے نہ صرف انسانی حسیات کو گھائل کررہے ہیں بلکہ یہ نفسیاتی طور پر ایسی مایوسی میں بھی مبتلا کررہے ہیں جس سے انسانوں میں گندگی کو صاف کرنے کی ہمت ہی جواب دے جاتی ہے۔ غلاظت ہمیں معاشرتی اخلاقیات سے لے کر سماجی اقدار تک ہر جگہ ملتی ہے۔ جہاں منافقت اور فریب کا دور دورہ ہے‘ غربت‘ محرومی اور ذلت نے انسانی زندگی کو ایک عذاب ِ مسلسل بنا کر رکھ دیا ہے۔ لیکن جوں جوں برصغیر کا بحران شدت اختیار کررہا ہے یہاں کے حکمرانوں کے جارحانہ بیانات میں بھی شدت آتی جارہی ہے۔ 
بھارت میں بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ سبرامنیم سوامی نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ'' ہم نے پہلے پاکستان کے دوٹکڑے کیے تھے اب ہمیں پاکستان کی دہشت گردانہ پشت پناہی پر رونا نہیں چاہیے۔ چین کو ہم نے رام کرلیا ہے۔ ہم تیاری کررہے ہیں اور امید ہے مارچ یا اپریل 2018ء تک اب پاکستان کے چار ٹکڑے کردیں گے‘‘۔ پاکستان میں بھی سبرامنیم سوامیوں کی کمی نہیں ہے۔ ایسے بیانات بھارت کے ہندو بنیاد پرست حکمرانوں کی صرف جنونیت کی غمازی نہیں کرتے بلکہ یہ وہ واردات ہے جس سے بھارت میں قومی اور ہندوتوا شائونزم کے ذریعے کھوکھلے اقتدار کو قائم رکھنے کی تگ و دو کی جاری ہے ۔ معاشرے میں رجعتیت کے ذریعے ہندوستان کے محنت کش عوام کی بغاوتوں کو کچلنے کی واردات پنہاں ہے ‘اور یہ سرمایہ دارانہ دہشت گردی‘ بی جے پی حکومت کی اپنی عدم اعتمادی کی کیفیت کا اظہار ہے۔ بھارتی جرنیل اور فوجی اشرافیہ اس کھلواڑ پر بغلیں بجا رہے ہیں کہ ان کے کک بیکس اور بجٹوں میں اضافے جاری رہیں گے۔ لیکن ایسے بیانات سب سے زیادہ تقویت کا باعث کس کے لیے بنتے ہیں؟ ان قوتوں کے لئے جن کی صفائی کا بیان خواجہ آصف نے دیا ہے ،جو اس ہندو وحشت کو اپنے وجود اور وارداتوں کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ بہت سی ایسی طاقتیں ہیں جن کو جنگی کاروبار سے بہت فائدے حاصل ہوتے ہیں وہ اس دشمنی کی دہشت کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ بھارت میں اس ہندو جنونیت نے ہولناک سرمایہ دارانہ استحصال اور مزدوروں کے حقوق کوسلب کرنے کاجارحانہ کھلواڑ شروع کررکھا ہے۔ اس درندہ صفت حاکمیت کو نیست ونابود صرف ہندوستان کے محنت کش ایک تحریک کے ذریعے ہی کرسکتے ہیں۔وہی ایک ایسا طبقہ ہے جو اس درندگی کا خاتمہ کر سکتا۔ درمیانے طبقے کے سیکولر سیاستدان اور لبرل دانشور اور بھارتی سول سوسائٹی‘ سب قطعاً کوئی کردار ادا نہیں کرسکتے‘ نہ ہی بی جے پی کو شکست دے سکتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موجودہ ہندوتواحاکمیت ( جس میں فسطائی عناصر ابھرے ہیں) کے خلاف ہندوستان کے معاشرے کی کوکھ میں شدت نفرت اور باغیانہ رجحانات بھڑک رہے ہیں ۔ اگر صفائی درکار ہے تو انتہا پسندوں کو کنٹرول کرنا ہو گا۔ اس لئے مسئلہ یہ ہے کہ اگر نواز شریف کے وزراء ان بیانات سے ان ارادوں کا اظہار کر رہیں کہ وہ پاکستان کو ایک جدید خوشحال اور ترقی پسند قومی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ان کو وہ سماجی بنیادیں بھی استوار کرنی ہوں گی جن کے ڈھانچوں پر یہ عمارت کھڑی کی جاسکتی ہو۔ لیکن المیہ یہ ہے ایک تاخیر زدہ معاشی نظام کی بحرانی کیفیت میںان ڈھانچوں کی تعمیر سماجی و اقتصادی نظام بدلے بغیر ممکن نہیں۔ وہ قوتیں جو خواجہ آصف کو ملک دشمن قرار دے رہی ہیں ان کی سماجی اور سیاسی حمایت کی وجہ وہ پسماندگی اور ذلت ہے جس کو ختم کرنے میں نوازلیگ حکومت ناکام رہی ہے۔
دوسری جانب لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں اور بھارت کی ''سرجیکل سٹرائیکس‘‘ اس تنائو کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ اور جب پاکستان کی جانب سے اس کا بھرپور جواب دیا جاتا ہے تو اس سے پھر بھارت میں ہندوتوا رجعتی قوم پرستی کو بڑھاوا ملتا ہے۔ یہ ایساگھن چکر ہے جس میں برصغیر کے ڈیڑھ ارب بے قصورانسان ذلتوں اور بربادیوں کا شکار ہورہے ہیں۔ بہت سے بین الاقوامی تجزیہ کار یہ بیانیہ پیش کررہے ہیں کہ دونوں جوہری ریاستوں کے درمیان تصادم کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ لیکن حکمرانوں کی بڑھک بازی اور جنون اتنا پاگل پن کا شکار نہیںہوا۔ کیونکہ وہ اندر سے بڑے سیانے ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ ایک جوہری تصادم برصغیر کی آبادی، معیشت، صنعت وزراعت کے وسیع تر حصے کا ''صفایا ‘‘ کردے گا۔ اس سے ان کے مالیاتی منافع خوری کے کاروبار بھی برباد ہوجائیں گے۔ اس لئے بھارت اور پاکستان کے درمیان ماضی کی مکمل چند روزہ جنگوں کے دھرائے جانے کا امکان کم ہے۔ نہ ہی دونوں ریاستیں ایک دوسرے پر قبضہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ 1971 ء میں سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بھارتی افواج کے سپہ سالار جنرل مانک شا نے بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے کہا تھا کہ اس وقت پاکستان کی فوج شکست خوردگی اور مایوسی کا شکار ہے ۔ یہ بہت اعلیٰ موقع ہے کہ ہم مغربی پاکستان کے کچھ اہم حصوں پر قبضہ جمالیں۔ اندرا گاندھی نے جنرل مانک شا کو ڈانٹ دیا تھا۔ اندرا نے کہا ''مانک شا کیا تم پاگل ہوگئے ہو۔ ہم سے پہلے ہی بھارت سنبھالا نہیں جارہا ،ہم بھلا پاکستان کے مزید علاقے اپنی حکمرانی میں لے کر اپنے لئے نئی بغاوتوں اور عدم استحکام کی مصیبت کھڑی کرلیں؟‘‘لیکن اگر جنگ کا اندیشہ نہیں ہے تو اسی نظام کی شدید تنزلی کی وجہ سے حکمرانوںکے لئے امن بھی قائم کرنا ممکن نہیں ۔ ان باہمی تضادات ، تنائو اور دھمکیوں میں مذاکرات کے چھوٹے وقفوں کے کھلواڑ میں یہ اپنی حاکمیت کو منفی اوررجعتی انداز اور طریقہ واردات سے ہی جاری رکھ سکتے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمہ کی بات ہر کوئی کرتا ہے‘ لیکن پھراس بدعنوان سیاست اور حاکمیت میں ان کو ایسی قوتوں کا سہارا بھی لینا پڑتا ہے جن کے صفایا کی بات کی جاتی ہے۔اس نظام نے معاشروں کو اس طرح تعفن زدہ اور گلاسڑا بنا دیا ہے کہ اس کے جمود میں رجعتیت کا زہربہت سے حصوں میں سرایت کرگیا ہے۔ اس سرطان کا علاج جس جراحی کے ذریعے ممکن ہے وہ بہت پیچیدہ ہوچکی ہے۔ اس کی حدود ریاستی حدود سے تجاوز کرچکی ہیں۔ برصغیر کی ثقافت سے لے کر سیاست تک کا جو باہمی تعلق اور انحصار ہے اس کے حل کو بھی کسی ایک ملک کی سرحدوںمیں مقید رکھ کر ممکن نہیں بنایا جاسکتا ۔ پاکستان اور بھارت میں ہونے والی دہشت گردی کے تانے بانے جدلیاتی طور پر کہیں نہ کہیں آپس میں جاکرملتے ہیں۔ حکمرانوں کے مخصوص دھڑوں کے مفادات اس سے وابستہ ہیں۔یہاں کے متروک حکمران طبقات کی سیاست اور ریاست میں اتنی وسیع صلاحیت ہی نہیں ہے کہ ان تضادات کو حل کر سکیں۔ اس لئے تاریخ کے اگلے طبقے 'پرولتاریہ ‘کو تاریخ کے میدان میں اترنا پڑے گا ۔ اس کا خاتمہ کیے بغیر ''صفائی‘‘ نہیںہوسکتی!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں