اگر ہم1967ء اور2017ء کی پیپلز پارٹی کاتقابلی جائزہ لیں تو چندنکات پیش نظرہیں جن میں بھٹوکی پیپلزپارٹی کے بارے میں(B)سے تذکرہ ہے جبکہ زرادی کی پیپلز پارٹی کے فضائل (Z)سے شروع ہونے والے جملوں میں بیان کیے گئے ہیں۔
(B)30نومبر 1967ء کو جس پیپلز پارٹی کا جنم ہواتھاوہ ایک نئی پارٹی تھی۔نہ اسکے پاس کوئی میراث تھی نہ دولت اورنہ ہی ریاستی پشت پناہی۔
(Z)موجودہ قیادت نے اس میراث کابے دریغ استعمال کیااورتین مرتبہ اقتدار حاصل کرنے اورمزے لوٹنے کے بعد اس میراث کوقریب المرگ کردیاہے۔
(B)پیپلزپارٹی کاجنم ایک نظریاتی سیاست اورپروگرام پرمبنی تھا۔انقلابی سوشلزم کے منشورنے پیپلز پارٹی کوراتوں رات پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی بنادیاتھا۔
(Z)انقلابی سوشلزم کواس بے دردی سے مسترداورمجروح کیاگیاکہ اب یہ قیادت اپنے آپکو''مارکسسٹ‘‘بھی کہناشروع کردے توکوئی یقین کرنے کوتیارنہیںہوگا۔راتوں رات بننے والی سب سے بڑی پارٹی آج ایک صوبے تک ریاستی اورسامراجی صوابدیدسے حکومت چلارہی ہے۔ میڈیا کے تمام ترزورلگانے کے باوجود تیسرے چوتھے یاپانچویں نمبرپرووٹ لیتی ہے اوراسکے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوتی ہیں۔
(B)پیپلز پارٹی کی سیاست سوشلزم اورمحنت کشوں کی جمہوریت پرمبنی تھی۔سوشلزم کے بغیرجمہوریت کوبنیادی دستاویزات مستردکرتی ہیں۔
(Z)اب تمام زورسرمایہ دارانہ جمہوریت کے سیاست پرلگایاجارہاہے جس سے نظام زرکوتحفظ''جمہوری‘‘واردات سے دلوایاجاسکے۔
(B)پیپلزپارٹی کی معاشی پالیسیاں تمام بھاری صنعت، بینک اوراداروں کی نیشنلائزیشن اورمعیشت کوسامراجی شکنجے سے آزادکروانے پرمبنی تھیں۔
(Z)موجودہ قیادت کی پالیسیاں ایک زہریلی اورپرفریب نجکاری‘پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ(PPP)پرمبنی ہیں۔یہ پالیسیاں برطانوی محنت کشوں پرجارحیت کرنے والی سامراجی ڈائین مارگریٹ تھیچرکی نظریاتی پیروکاری پرمبنی ہیں۔
(B)پیپلز پارٹی نے زرعی اصلاحات اورجاگیرداروں وڈیروں کی زمینیں ضبط کرنے کی پالیسی اختیار کرنے کااعادہ کیاتھا۔سرمایہ داری اورجاگیرداری کے مکمل خاتمے کااعلان کیاتھا۔
(Z)اب سرکاری زمینیں بھی جاگیرداروں،ریاستی اشرافیہ، لینڈ مافیا اور پراپرٹی ٹائیکونوں کوکوڑیوں کے بھائولٹا ئی جارہی ہیں جبکہ ان پرسودے بازی کہیں اورہوتی ہے۔
(B)علاج اورتعلیم مفت فراہم کرنے کااعلان کیاگیااورنجی شعبے میں منافع خوری کے لیے اسکااستعمال بندکرواناریاست کی ذمہ داری قرار دیاگیاتھا۔
(Z)بعدکی پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں تعلیم اورعلاج کی نجکاری کاسلسلہ تیزہوگیااوربجٹ میں دونوں شعبوں پربجٹ میں 4فیصدسے بھی کم کاہدف پیش کیاگیا۔
(B)لیبرپالیسی میں مزدوروں کوسب سے زیادہ مراعات دینے کی پالیسیوں کااعلان کیاگیا۔محنت کشوں کوعلاج اورانکے بچوں کوتعلیم کی سہولیات فراہم کرنے کااعادہ کیاگیا۔یونینوں کی بحالی اوردوسرے حقوق کی فراہمی کے لئے بنیادی منشورمیں واضح لائحہ عمل پیش کیاگیاتھا۔
(Z) پی ٹی سی ایل سے لیکردوسرے کئی شعبوں میں مزدوروں کونجکاری کے ذریعے زِچ کیاگیا۔آئی ایم ایف اوردوسرے سامراجی اداروں کی پالیسیاں لاگوکرکے محنت کشوں کے نہ صرف حقوق چھینے گئے بلک مستقل ملازمتوں کی جگہ ٹھیکیداری کے تحت بغیرکسی سہولت کے انکو دیہاڑی دارمزدوربنادیاگیا۔
(B)پیپلز پارٹی اپنے جنم سے ہی سامراج اورسرمایہ دارانہ نظام کی دشمن پارٹی کے طورپرابھری تھی۔موجودہ نظام سے مسلسل مزاحمت کرنے کی جدوجہد شروع کی گئی۔
(Z)امریکی سامراج کی گماشتگی اختیارکی گئی اورجمہوریت کے نام پرسرمایہ داروں کے مفادات کومسلط کیاگیا۔مزاحمت کی بجائے اداروں اورنظام سے مفاہمت اورپارٹی کوآلہ کاربنانے کی پالیسی اپنائی جارہی ہے۔
(B)پیپلزپارٹی کے لیڈرٹریڈیونینوں اورمزدوروں کی محفلوں میں جا کرتقریریں کرتے انکی سخت سے سخت تنقیدسنتے اور ان کو احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔ ہڑتال میں مزدوروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے تھے۔
(Z)موجودہ پارٹی کے لیڈر چیمبر آف کامرس اور سرمایہ داروں کی تنظیموں کے اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں۔ انہی کے مطالبات کے تحت پالیسیاں مرتب کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے کراچی بلدیہ کی آگ میں مرنے والے سینکڑوں مزدوروں کے قاتل سرمایہ داروں پر کیس ختم کروا کرکے ان کو بری کروایا۔
(B)پیپلز پارٹی میں بائیں بازو کے مختلف راہنمائوں میں ایک غیریت،ایک نظریاتی کمٹمنٹ اور قیادت کے سامنے ہر غیر انقلابی پالیسی پر بے خوف تنقید کرنے اور ان کو روک دینے کی جرات ہوا کرتی تھی۔
(Z)اب نام نہاد بائیں بازو کے لیڈر قیادت کاسہ لیسی اور ان کی مجرمانہ وارداتوں اور مزدور دشمن پالیسیوں کا دفاع کرتے ہوئے خو د نودولیتے بن گئے ہیں۔
(B) تمام کارپوریٹ ذرائع ابلاغ پیپلز پارٹی کے سوشلسٹ جنم کے جانی دشمن بن گئے تھے۔ پیپلز پارٹی کے پاس میڈیا کی اس دیوہیکل یلغار کے خلاف صرف صرف دو جریدے تھے ۔ لیکن عوام کو ان کی انقلابی پکار کو سمجھنے سے میڈیا بھی نہیں روک سکتا تھا۔ انکی مقبولیت کو میڈیا کاپراپیگنڈہ بھی کوئی آنچ نہیں پہنچاسکا تھا۔
(Z) اب سارا دارومدار میڈیا پر ہے۔ اس کے لیے بھاری رقوم صرف کی جاتی ہیں انتہائی مہنگی اشتہاری کمپنیوں کوکرائے پر لے کر اپنی تشہیر کروائی جاتی ہے۔ میڈیا میں آنے کیلئے سرمایہ داری اور سرکاری سیاسی پوزیشنوں کی پیروکاری کی گفتگو کی جاتی ہے۔
(B) پارٹی چار آنے فی ممبر چندہ لیا کرتی تھی۔ پارٹی کے تمام مالیاتی وسائل غریب اور متوسط طبقے کے افراد کے چندے سے آتے تھے۔ جلسوں اور انتخابات میں پارٹی کے کارکنان پوسٹر اور بینرز لگاتے تھے۔ ٹیکسیاں کرائے پر لے کر لائوڈ سپیکروں کے ذریعے ''سماج کو بدل ڈالو‘‘ کے گیت عوام کو گلی گلی سناتے تھے اور سارے سیاسی کام خود انجام دیتے تھے۔کسی لالچ کے بغیر سچے جذبوں اورانقلابی نظریات کے لئے اپنے سب کچھ وقف کرتے تھے۔
(Z)اب بڑے بڑے فنانسر ہیں۔ ان کے قلعہ نمامحلات میں پیپلز پارٹی کے''جلسے‘‘ ہوتے ہیں۔ چار آنے کی ممبر شپ کی جگہ سرمایہ دار اور جاگیردار لاکھوں کی ممبر شپ کاپیاں خرید کر ان کو اپنے ملازمین اور مزارعوں کے ناموں سے بھر دیتے ہیں۔ انتخابی مہم اور سیاسی جلسے مختلف کمپنیوں کو ٹھیکے دے کر منعقد کروائے جاتے ہیں۔
(B) ایک طبقاتی جنگ کا نعرہ مار کر میدان میں اترنے والی پارٹی حکمران طبقات اور ان کے سیاسی اور ریاستی نمائندوں سے مسلسل تصادم میں رہی۔ طبقاتی کشمکش کے ناقابلِ مصالحت ہونے کا عندیہ ذوالفقار علی بھٹو نے جیل کی کوٹھری سے اپنی آخری تصنیف یا وصیت سے بھی دیا تھا۔
(Z) اب پارٹی کی پالیسی ہی مفاہمت اور مصالحت کی ہے۔ یہ ابھرتے سورج کے ساتھ ہیں۔ ہر زوال پذیر وسرکاری عتاب کی شکار سیاسی قوت کے سامنے یہ بہت شیر بن جاتے ہیں۔
(B) بھٹو نے ضیاء الحق کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا تھا وہ اپنے پیروں پر چل کر اپنے گلے میں پھندا ڈالنے گیا تھا۔
(Z) اب ضیاء الحق کی باقیات پیپلز پارٹی پر براجمان ہیں۔ سب سے اہم فیصلے وہی کرتے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر ضیاء الحق کے قوانین کو جاری رکھنے کا کھلواڑ جاری ہے۔
(B)پارٹی کی بنیادی دستاویزات میں عوامی آئین کے حصول پر زور دیا گیا تھا۔ محنت کش عوام کو تعلیم وعلاج کی مفت فراہمی کی ذمہ داری ریاست پر عائد کی گئی تھی۔آئین کی ان عوام دوست شقوں کو دو حکومتوں اور متعدد پارلیمانوں میں موجودہ پیپلز پارٹی کے کسی ممبر کو لاگو کرنے کی توفیق اور ہمت نہیں ہوئی اور نہ ہی ان کی دلچسپی ہے۔ پارٹی عوام کی بجائے امریکی سامراج، میڈیااور ریاست کے ذریعے اقتدار کے حصول کی متمنی بن گئی ہے۔
(B) بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا۔
(Z) زرداری کو تمام عدالتوں نے بردی کردیا۔
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا!