"DLK" (space) message & send to 7575

سامراجی سفارتکاری کی تنزلی

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے حالیہ دورہ جنوب ایشیا میں سامراجیوں کے ہاتھ نامرادی ہی آئی۔ نہ کوئی مسئلہ حل ہوا‘ نہ کشیدگی میںکوئی واضح کمی ہوئی‘ اور نہ افغانستان، پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تعلقات میں کوئی بہتری ہی لائی جا سکی۔ ماضی میں امریکی وزرائے خارجہ کے دوروں کو بڑا اہم سمجھا جاتا تھا۔ ان سامراجی سفارت کاروں کا ایک رعب اور دبدبہ ہوا کرتا تھا۔ ان کی گفتگو اور بیانات کی اہمیت ہوا کرتی تھی۔ لیکن سامراج کی کمزوری ٹلرسن کے اِس دورے میں واضح طور پر محسوس ہو رہی تھی۔
افغانستان میں ٹلرسن نے امریکی فوج کے سکیورٹی کے حصار میں بگرام بیس پر ہی افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی۔ امریکی جارحیت اور قبضے کے 16 سال بعد صورت حال انتہائی نازک ہو چکی ہے۔ افغان اور امریکی فوجیوں اور عام شہریوں پر بھی طالبان اور دوسرے دہشت گرد گروہوں کے حملے جاری ہیں۔ افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت کا دائرہ اختیار ہر گزرتے دن کے ساتھ سکڑتا جا رہا ہے۔ افغان حکام اور امریکی اس کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرا رہے ہیں‘ جبکہ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ وہ ایسے کسی معاملے میں ملوث نہیں۔
پچھلے سوا سو سال میں ڈیورنڈ لائن کا مکمل تعین ہی نہیں ہو سکا ہے۔ امریکی سامراج اور مقامی ریاستوں کے لئے ایک دوسرے پر الزامات لگانا تو آسان ہے‘ لیکن اس حقیقت سے انحراف کی کوشش کی جاتی ہے کہ جن علاقوں پر برطانوی سامراج اپنا تسلط قائم کرنے میں ناکام رہا‘ وہاں اس کی پیوند کردہ ریاستیں بھی کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکیں۔ ان علاقوں میں ریاستی اختیار لاگو کرنے کے لئے جن تبدیلیوں کی ضرورت تھی‘ وہ نہیں کی گئیں‘ اور ان دشوار گزار پہاڑی سلسلوں کی باقی معاشرے سے جڑت بنانے کے لئے درکار وسیع انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لئے درکار وسائل ہی مقامی حکمرانوں کے پاس نہیں ہیں۔ ایسے میں وسیع تر علاقوں پر افغانستان کی حکومت کا کنٹرول ہی نہیں ہے۔ وہاں کے باسی سامراج کی گماشتہ سرکار کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ حیران کن طور پر یہ افغان حکومت اقوام متحدہ میں شامل ہے‘ اس کو دنیا کے تقریباً سبھی ممالک 'تسلیم‘ بھی کرتے ہیں اور اس کے ذریعے اپنے مالیاتی اور سٹریٹیجک عزائم کے لئے لین دین بھی کرتے ہیں‘ جبکہ اس حکومت کو خود اپنے ملک کے مختلف علاقوں میں مقامی جنگجو سرداروں اور دہشت گرد گروہوں کے ان داتائوں سے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ افغانستان کی یہ صورتحال اس شرمناک شکست کی علامت ہے جو دنیا کی سب سے بڑی عسکری اور اقتصادی طاقت‘ امریکی سامراج کو اٹھانی پڑی ہے۔ افغانستان کا موجودہ خلفشار جہاں بھارتی، روسی، چینی، سعودی اور ایرانی مداخلتوں سے مزید پیچیدہ اور خونریز ہو گیا ہے وہاں یہ ملک امریکی سامراجیوں کے پائوں کی بیڑی بھی بن گیا ہے۔ اب امریکی فوجیں نہ ٹھہرنے کے قابل رہی ہیں اور نہ ہی ان کا انخلا ممکن نظر آتا ہے، کیونکہ انخلا امریکی سامراج کے بین الاقوامی بھرم کو مزید کھوکھلا کر دے گا۔ لیکن یہی مسئلہ پاکستان میں بھی انتشار کو کبھی ختم نہیں ہونے دے گا۔ پاکستان کے حکمران یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ افغانستان میں امن کے قیام کے بغیر پاکستان میں امن ممکن نہیں ہے‘ تاہم یہاں کے کچھ حلقے تزویراتی گہرائی کی پالیسی پر مصر ہیں‘ لیکن امریکیوں اور ان کے نئے زیادہ چہیتے حلیف بھارت کے رجعتی حکمرانوں کو یہ منظور نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ یہ تنازع حل ہونے کی بجائے مزید طوالت اختیار کرے گا‘ اور سماجی انتشار کا باعث بنے گا۔
پاکستان کی سویلین اور عسکری قیادت کے ٹلرسن سے مشترکہ مذاکرات کے معنی یہ ہیں کہ اب اگر امریکی نہیں تو کسی دوسری ابھرتی ہوئی سامراجی قوت کی حمایت سے وہ گزارہ کر لیں گے۔ خواجہ آصف کے امریکی وزیر خارجہ کے چلے جانے کے بعد سینیٹ اور میڈیا پر دیئے گئے بیانات میں امریکی دھمکیوں کے جواب جس بے باکی سے بھرپور تھے‘ وہ شاید مقامی آبادی کے لئے زیادہ اور بیرونی سفات کاری کے لئے کم تھی‘ لیکن پاکستان کی تاریخ میں یہ بھی پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ٹلرسن کی دھمکیوں کو شاید یہاں کے ریاستی اور سیاسی حکمرانوں نے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا‘ کیونکہ امریکہ اور چین کے درمیان جو 'لو اینڈ ہیٹ‘ تعلقات چل رہے ہیں‘ ان میں سے جنوبی ایشیا کا مسئلہ سب سے زیادہ تنازع کا باعث ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چین بحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنے جا رہا ہے‘ لیکن چینی اشرافیہ یہ کام کسی جنگ کے ذریعے نہیں کر رہی۔ وہ خطے کی صورتحال سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ چینی سرمایہ دارانہ ماہرین جو راستے اور پراجیکٹ بنا رہے ہیں ان کے ذریعے خطے میں نہ صرف سفارتی توازن کو اپنے حق میں کر رہے ہیں بلکہ اِن منصوبوں سے طویل عرصے تک منافع حاصل کرنے کی منصوبہ بندی بھی ہو رہی ہے۔ اس چینی حمایت نے پاکستانی حکمرانوں کو دلیر بنا دیا ہے اور وہ امریکی بیانات کا جواب دے رہے ہیں‘ لیکن ٹلرسن کے ساتھ اشرف غنی بھی دہلی پہنچا اور سشما سوراج کی میزبانی میں تینوں ممالک کے ان حکمران نمائندوں نے کھل کر پاکستان اور بالواسطہ طور پر چین کے خلاف دل کی بھڑاس خوب نکالی۔
ٹلرسن‘ جو دنیا میں تیل کی سب سے بڑی اجارہ داری کے چند مالکان میں سے ایک ہے، ٹرمپ کی طرح بڑبولا نہیں ہے۔ اس کو سامراجی ماہرین نے یہ مشورہ دیا ہے کہ پاکستان کی موجودہ ریاست کچھ بھی کرتی رہے‘ لیکن اس کو عراق، لیبیا اور یمن کی طرح نقصان پہنچانا سراسر غلط ہو گا‘ کیونکہ اگر یہاں مکمل انارکی پھیل گئی تو پھر پورے خطے میں ایسا انتشار جنم لے گا جس سے امریکی اجارہ داریوں اور مالیاتی سرمایہ کاری کو تباہی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور صورتحال کو سنبھالنا بالکل ناممکن ہو جائے گا۔ اسی لئے ٹلرسن نے ہاتھ تھوڑا ہولا رکھا ہے اور دھمکیوں کی کڑوی گولیاں چینی میں لپیٹ کر دی ہیں۔ افغانستان میں بھارتی مداخلت مودی سرکار کے تحت بھارتی ریاست کے سامراجی عزائم کو آگے بڑھانے کے لئے ہے‘ لیکن اس کی اپنی حدود و قیود ہیں۔ وہ امریکہ کی کٹھ پتلی حکومتوں کی حمایت کرتے کرتے افغانستان کے عوام کی وسیع پرتوں میں نفرت کماتے جا رہے ہیں۔ اگر ان کو تھوڑی بہت حمایت حاصل ہے تو وہ جزوی طور پر کابل اور شمالی افغانستان کے درمیانی طبقات میں ہے۔ بھارت نے جو 2.1 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اس سے زیادہ وسیع پیمانے پر لوگوں کو خرید کر اپنی حمایت میں لایا نہیں جا سکتا۔
امریکی سامراج کی یہ سفارتی پسپائی اس کی معاشی طاقت میں شدید بحران کی وجہ سے ہے۔ سرمایہ داری کے تحت انگریزوں نے 200 سال تک عالمی سامراجی طاقت کے طور پر غلبہ حاصل کیا‘ لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد عالمی سامراج کے طور پر ابھرنے والا امریکہ تو 70 سال بعد ہی زوال کا شکار ہو رہا ہے۔ جب عالمی سامراجی طاقت زوال کا شکار ہے اور سرمایہ داری بین الاقوامی طور پر تنزلی کا شکار ہوتی چلی جا رہی ہے‘ تو اب شاید ایسا وقت آ گیا ہے کہ کوئی نئی سامراجی طاقت اس زوال کے عہد میں ابھر کر عالمی غلبہ حاصل نہیں کر سکے گی۔ ماضی میں عالمی طاقتیں جنگوں اور معاہدوں کے ذریعے غلبے اور جبر سے مختلف ممالک اور خطوں میں عارضی تسلط قائم کر لیا کرتی تھیں‘ لیکن جب مروجہ نظام ہی تاریخی استرداد کا شکار ہو جائے تو اس میں نہ کوئی سامراجی طاقت غالب آسکتی ہے اور نہ ہی کسی معاشرے میں ترقی، استحکام، امن اور خوشحالی آ سکتی ہے۔ اس نظام سے افغانستان، ہندوستان اور دنیا کے دوسرے خطوں میں جو خونریزی، غارت گری، غربت، بیروزگاری، محرومی اور ذلت پھیل رہی ہے‘ وہ اس کے خاتمے کے بغیر خوشحالی میں نہیں بدل سکتی۔


Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں