"DLK" (space) message & send to 7575

بالشویک انقلاب کے 100 سال

آج سے ٹھیک سو سال قبل روس میں بالشویک انقلاب برپا ہوا۔ انسانی سماج کے طبقات میں تقسیم ہونے کے بعد سے یہ محنت کشوں کی سب سے فیصلہ کن فتح تھی۔ اس سرکشی کے ذریعے بالشویکوں نے ایک اقلیتی طبقے کے اقتدار کے خلاف سماج کی اکثریت کی حاکمیت کی بنیادیں استوار کیں۔ جان ریڈ لکھتا ہے، ''کوئی بالشویزم کے بارے میں کچھ بھی سوچے، یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انقلابِ روس انسانیت کی تاریخ کے عظیم ترین واقعات میں سے ایک ہے اور بالشویکوں کا اقتدار عالمگیر اہمیت کا حامل ہے۔‘‘ اُس وقت زار شاہی روس میں نافذ پرانے کیلنڈر کے مطابق انقلابی سرکشی کا آغاز 25 اکتوبر (نئے کیلنڈر کے مطابق 7 نومبر) کی شام کو ہوا اور بالشویکوں کا اقتدار پر قبضہ 25 اور 26 اکتوبر کی درمیانی رات کو ہوا۔ اس عمل میں محنت کش طبقے کی اکثریت کی گہری شعوری مداخلت موجود تھی۔ 
لینن نے دسمبر 1917ء میں لکھا، ''ہمیں ہر قیمت پر اس پرانے، فضول، وحشی اور قابل نفرت عقیدے کو پاش پاش کرنا ہو گا کہ صرف نام نہاد اعلیٰ طبقات، امرا اور امرا کی تعلیم و تربیت پانے والے ہی ریاست کا نظام چلا سکتے ہیں۔‘‘ 
فتح مند سرکشی کے بعد لینن نے 'سوویتوں کی کُل روس کانگریس‘ سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ''تاریخ کے کچرے کو صاف کرنے کے بعد اب ہم اس خالی جگہ پر سوشلسٹ سماج کی ہوادار اور عالیشان عمارت تعمیر کریں گے۔‘‘ 
انقلاب نے سماجی و معاشی تبدیلی کے ایک نئے عہد کا آغاز کیا۔ وسیع و عریض جاگیروں، بھاری صنعت، کارپوریٹ اجارہ داریوں اور معیشت کے کلیدی شعبوں کو نومولود مزدور ریاست نے ضبط کر لیا۔ مالیاتی سرمائے کی آمریت کو توڑا گیا، تمام بیرونی تجارت پر ریاست نے اپنی اجارہ داری قائم کی۔ وزیروں اور عہدیداروں کی مراعات کا خاتمہ کیا گیا اور انقلاب کے رہنما بھی انتہائی سادہ زندگی گزارتے تھے۔ وکٹر سرج اپنی 'ایک انقلابی کی یادداشتوں‘ میں لکھتا ہے: ''کریملن میں لینن نوکروں کے لئے تعمیر کئے گئے چھوٹے سے گھر میں رہتا تھا۔ موسم سرما کے دوران باقی سب کی طرح اُس کے پاس بھی گھر کو گرم رکھنے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ جب وہ نائی کے پاس جاتا تو اپنی باری کا انتظار کرتا اور کسی دوسرے کے پیچھے ہٹنے کو نامناسب خیال کرتا۔‘‘ 
بالشویکوں کا جمہوری طرز عمل مسلمہ تھا۔ انقلاب کے بعد صرف فسطائی 'بلیک ہنڈرڈ‘ پر پابندی عائد کی گئی۔ حتیٰ کہ بورژوا لبرل پارٹی (کیڈٹوں) کو بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت تھی۔ نئے انقلابی اقتدار کی بنیاد تاریخ کا سب سے جمہوری نظام، یعنی مزدوروں، کسانوں اور سپاہیوں کی سوویتیں (پنچایتیں) تھیں۔ لینن نے سوویت نظام کے رہنما اصول غیر مبہم طور پر وضع کئے تھے: 
٭ سوویت ریاست کے تمام عہدوں کے لئے جمہوری انتخابات
٭ تمام حکام کو کسی بھی وقت واپس بلانے کا اختیار
٭ کسی بھی اہلکار کی اجرت کا ہنرمند مزدور سے زیادہ نہ ہونا
٭ سماج اور ریاست کو چلانے کے تمام فرائض کی باری باری سب کی طرف سے ادائیگی
مارکسسٹوں پر یہ تاریخی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ بعد ازاں انقلاب کی زوال پذیری اور سوویت یونین کے انہدام کی سائنسی وضاحت کریں۔ درحقیقت انقلاب کے رہنما ولادیمیر لینن نے ایک ملک میں سوشلزم کی تعمیر کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ وہ انقلاب کو معاشی و تکنیکی طور پر زیادہ ترقی یافتہ ممالک تک پھیلانے کی ناگزیر ضرورت سے بخوبی واقف تھا۔ یوں مارکسسٹوں نے سوویت یونین کے انہدام کی مشروط پیش گوئی عرصہ قبل کر دی تھی۔ 7 مارچ 1918ء کو صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے لینن نے واضح کیا: ''اگر ہم تنہا رہ جاتے ہیں، اگر دوسرے ممالک میں انقلابی فتوحات حاصل نہیں ہوتیں تو حتمی فتح کی کوئی امید باقی نہیں رہے گی۔‘‘ 
لیون ٹراٹسکی نے 1936ء میں شائع ہونے والی اپنی عمیق تصنیف 'انقلاب سے غداری‘ میں واضح کیا تھا کہ اگر ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں انقلاب نہیں ہوتا اور سوویت یونین میں ایک سیاسی انقلاب مزدور جمہوریت کو بحال نہیں کرتا تو سرمایہ داری کی بحالی ناگزیر ہے۔ 
انقلاب کے مرکز کو کچلنے کے لئے 21 سرمایہ دارانہ ریاستوں نے نومولود سوویت ریاست پر دیو ہیکل حملہ کیا۔ ٹراٹسکی نے زار کی بچی کھچی چند لاکھ کی تباہ حال فوج کو پچاس لاکھ کی مضبوط اور منظم سرخ فوج میں تبدیل کر دیا۔ لیکن بالشویک پارٹی کے ہراول کارکنان اور باشعور مزدور اِس خانہ جنگی میں بڑی تعداد میں مارے گئے۔ اِس سے قیادت کا خلا پیدا ہوا جسے پارٹی اور سوویت حکومت میں گھسنے والے موقع پرستوں نے بھرا۔ جرمنی ( 1918ء اور پھر 1923ئ)، چین (1924-25ئ) اور برطانیہ (1926ئ) میں انقلابات کی شکست سے بالشویک انقلاب کو شدید دھچکا لگا۔ اِن شکستوں نے انقلابِ روس کی تنہائی اور قومی زوال پذیری کو شدید تر کر دیا۔ 
لینن 1924ء میں اپنی موت تک اِس زوال پذیری کے خلاف جدوجہد کرتا رہا۔ سٹالن نے اُس کی وصیت کو کریملن کی آہنی الماریوں میں چھپا دیا۔ اِس وصیت میں لینن نے سٹالن کو پارٹی کے سیکرٹری جنرل کے عہدے سے ہٹانے اور افسر شاہی کے خلاف جدوجہد کی کال دی تھی۔ یہ دستاویز سٹالن کی موت کے بعد 1956ء میں پارٹی کی بیسویں کانگریس میں کہیں جا کر سامنے آئی۔ ٹراٹسکی نے 'لیفٹ اپوزیشن‘ قائم کی اور اِس زوال پذیری کے خلاف مردانہ وار مزاحمت کی۔ لیکن اِسے انتہائی جبر سے کچل دیا گیا۔ یہ عمل وسیع مراعات رکھنے والے افسر شاہانہ ڈھانچے کے استحکام پر منتج ہوا۔ 
تاہم سٹالنسٹ زوال پذیری کے باوجود معیشت ریاست کی ملکیت اور منصوبہ بندی میں رہی۔ سوویت منصوبہ بند معیشت نے انسانی تاریخ کی تیز ترین ترقی کی۔ چند دہائیوں میں سوویت یونین ایک پسماندہ زرعی ملک سے ترقی یافتہ صنعتی ملک بن گیا۔ سرمایہ داری کی پوری تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ٹیڈ گرانٹ نے اپنی پُرمغز کتاب 'روس، انقلاب سے ردِ انقلاب تک‘ میں لکھا: ''1913ء (قبل از جنگ پیداوار کا عروج) کے بعد کے پچاس سالوں میں دو عالمی جنگوں، بیرونی جارحیت، خانہ جنگی اور دوسری بربادیوں کے باوجود کُل صنعتی پیداوار میں 52 گنا اضافہ ہوا۔ اِس دوران امریکہ میں یہ اضافہ چھ گنا جبکہ برطانیہ میں دو گنا سے بھی کم تھا۔ سوویت یونین میں امریکہ، یورپ اور جاپان میں سائنسدانوں کی کُل تعداد سے زیادہ سائنسدان تھے۔ اوسط عمر میں دوگنا سے زیادہ اضافہ ہوا اور بچوں میں شرح اموات میں نو گنا کمی واقع ہوئی۔ اتنی مختصر مدت میں اتنی تیز معاشی پیش رفت کی دوسری کوئی مثال نہیں ملتی۔‘‘ 
انقلاب نے جنسی برابری اور زندگی کے ہر شعبے میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنایا۔ تعلیم و علاج سمیت یہ تمام سہولیات بالکل مفت تھیں۔ رہائش کا مسئلہ حل کرنے کے لئے پانچ کروڑ سے زیادہ فلیٹ تعمیر کئے گئے۔ ریاست روزگار کی ضامن تھی اور بیروزگاری ایک جرم تصور ہوتی تھی۔ 
تاہم1960ء تک سوویت معیشت امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکی تھی جو کپڑوں اور جوتوں سے لے کر ہوائی جہاز اور خلائی راکٹ تک بناتی تھی۔ افسر شاہی کی بد انتظامی، بد عنوانی، عیاشیوں اور زیاں کے بوجھ تلے اِس معیشت کا دم گھٹ رہا تھا۔ نتیجتاً آخر کار معاشی نمو کی شرح ایک وقت پر صفر ہو گئی۔ دوسری طرف سوویت افسر شاہی کی ہوس اس قدر بڑھ چکی تھی کہ وہ اب ذرائع پیداوار کو اپنی نجی ملکیت میں لے کر ایک بالادست سماجی پرت سے ایک حکمران طبقے میں تبدیل ہونا چاہتے تھے۔ انقلاب کی تنہائی، سوشلزم کی مسخ شدہ 'قومی شکل‘ اور مزدور جمہوریت کی عدم موجودگی میں معاشی بدانتظامی آخرکار سوویت یونین کے انہدام پر منتج ہوئی۔ سوویت یونین میں سوشلزم یا کمیونزم نہیں بلکہ اِس کی مسخ شدہ شکل، یعنی سٹالنزم ناکام ہوا۔ 
1917ء میں انقلاب کی خبر دو ہفتوں بعد برصغیر پہنچی تھی۔ لیکن آج انقلابات ٹیلیوژن اور انٹرنیٹ پر براہ راست دیکھے جاتے ہیں۔ لہٰذا آج اگر بالشویک انقلاب جیسا کامیاب سوشلسٹ انقلاب برپا ہوتا ہے تو اسے قومی حدود میں مقید کرنا پہلے سے کہیں زیادہ مشکل ہو جائے گا۔ سوویت یونین کے انہدام کے باوجود بالشویک انقلاب آج بھی نسل انسان کی نجات کی جدوجہد کے لئے مشعل راہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں