"DLK" (space) message & send to 7575

مصنوعی سیاست

جس سیاست نے یہاں کے غریب عوام اور محنت کش طبقات کو رسوا کیا اوراس نظام زر کی بربادیوں میں سماجی غارت گری کی سہولت کار بن گئی اس کی تمام پارٹیاں اپنے ہی تنازعات میں ایک دوسرے کو ننگا کرتی جارہی ہیں۔مصطفی کمال نے کراچی پریس کانفرنس میں براہِ راست ایم کیو ایم کوبے نقاب کیا ہے۔ تاہم انہوں نے اپنا بھانڈہ بھی پھوڑ دیا ہے۔مصطفی کمال نے کم ازکم تسلیم تو کیا کہ وہ کسی کے حکم پر ایم کیو ایم سے معاہدہ کرنے گیا تھا ، اب وہ اس حقیقت سے فرار حاصل نہیں کرسکتا۔ اس کا اپنا بھی تو کسی سے کوئی ناطہ ہوگا، ورنہ بلاتا کون ہے اور جاتا کون ہے؟کون کہتا ہے اور کون کرتا ہے؟لیکن یہ انکشاف عوام کے لئے زیادہ حیرانی کا باعث نہیں تھا۔ایک طویل عرصے سے سیاست اور معیشت میں مداخلت کی داستانیں عام تھیں اور سازشی قیاس آرائیاں بھی زوروں پر رہیں۔
آمریت کے جبر تلے پھیلنے والے سیاسی رجحانات بتارہے تھے کہ ضیاء الحق نے جہاں مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر عوام میں تقسیم اور منافرتوں کا سلسلہ شروع کیا تھا وہاں پاکستان کے مزدوروں کے گڑھ کراچی میں تنگ نظر قوم پرستی اور نسلی ولسانی بنیادوں پر تفریق پیدا کرنے کے لئے ایم کیو ایم تخلیق کروائی تھی۔اس انکشاف نے آج اس کا انجام عبرتناک بنا دیا ہے۔لیکن آج کے عہد میں جب آمریت نہیں ہے،بدعنوان مالدار طبقات کی سیاست کا ریاست پر انحصار اوراطاعت نے ''سویلین‘‘ادوار میں ریاستی مداخلت کو آمریتوں کے ادوار سے زیادہ گہرا اور وسیع بنا دیا ہے۔مصطفی کمال کے اس انکشاف پر پیپلز پارٹی کے نمائندوں نے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایسی تحقیقات نہ کبھی ہوئی ہیں اور نہ ہی اس نظام میں کبھی ہو سکتی ہیں۔لیکن اگر کوئی ایسی تحقیقات آج ہوتی ہیں تو ان میں سب سے آگے ریاستی اطاعت،دولت اور طاقت کی ہوس کی سیاست کا سربراہ پیپلزپارٹی کا ایک سابق صدر ہی سر فہرست کاسہ لیس پایا جائے گا۔عمران خان کے بیانات میں ایسے موضوعات سے اجتناب برتا جاتا ہے۔کیونکہ اگر معاشرے کی عمومی سوچ کا جائزہ لیا جائے تو تحریک انصاف کے حامی یہ تسلیم کرکے ہی حمایت کرتے ہیں کہ اقتدار کا راستہ اسلام آباد سے نہیں راولپنڈی سے گزرتا ہے۔اس کو کوئی برائی اور عار نہیں سمجھا جاتا۔اگر نوازلیگ کا جائزہ لیا جائے تو وہ بھی اسی سرکاری کوکھ سے پیدا ہوئی تھی۔لیکن جب نواز شریف نے تیسری باروزیر اعظم بن کر اپنے آپ کوواقعی وزیر اعظم سمجھنا شروع کیا اور اپنے ''آئینی‘‘اختیارات کے استعمال کا آغازکرنا چاہا تھا تو ان کوان کی اوقات یاد دلادی گئی۔لیکن جہاں ن لیگ میں ایک دھڑا کھل کر''اداروں‘‘کے احترام کا درس دے رہا ہے وہاں ایسے افراد جو نواز شریف کے حق میںنیم دلانہ تنقید کررہے ہیں وہ بھی کسی فیصلہ کن موڑ پر رہنمائوں کو ہی اپنے رہزنوں میں ہی پائیں گے۔لیکن نواز شریف کون سا ایسا پہلوان ہے جو ٹکرا جائے گا۔عوام کی حمایت کے لئے جی ٹی روڈ کے مارچ پر جو چند ریڈیکل جملے بولے گئے تھے وہ دوبارہ سننے کو نہیں ملے۔یہ لوگ اداروں پر وار جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن وہ عوام کو ایسا کوئی پروگرام دینے سے عاری ہیں جس کی بنیاد پر یہاں کے پسے ہوئے طبقات اپنی جدوجہد کی سربراہ اور اپنے دکھوں کی نجات دہندہ رہنما کو سمجھنا شروع کردیں۔انتخابی موسم میں جہاں تجوریوں کے منہ کھل رہے ہیں وہاں اتحادوں، جوڑ توڑ اور الزام تراشی کی وارداتیں بھی تیز ہوگئی ہیں۔اگر ایم ایم اے بنتی ہے اور نواز شریف مولانا کے کہنے پراس سے الحاق کرتا ہے تو کم از کم ''ترقی پسندی‘‘کا میک اپ جلد ہی صاف ہوجائے گا۔پھر دائیں بازو کا دائیں بازو سے ہی مقابلہ ہوگا۔سیاست اورانتخابات میں عوام کے مسائل کا کہیں نام ونشان نظر نہیں آئے گا۔
ایک طویل عرصے سے آمریت اور جمہوریت کی لڑائی میں عوام کو الجھا کر ان کو روٹی‘کپڑا‘مکان‘تعلیم‘علاج اور روزگار کے لئے جدوجہد سے گمراہ اور زائل کیا گیا۔ضیاء الحق کے مارشل لا کے دور سے پیپلز پارٹی ''جمہوریت‘‘کی سب سے بڑی داعی تھی اور آمریت کے خلاف قربانیوں کی سیاست کے نام پر اپنے سوشلسٹ پروگرام کو دفن کرتی رہی۔ اب یہ ناٹک نواز لیگ کے چند رہنمائوں نے شروع کردیا ہے۔عمران خان ایک طرف درمیانے طبقے کی درمیانی حمایت اور نان ایشوز کا شور ڈال رہا ہے اور امپائر کی انگلی کا انتظار کررہا ہے۔لیکن اگر کوئی''بارش‘‘ہوگئی تو پھر نہ انگلی کھڑی ہوگی نہ عمران خان کی باری آئے گی۔اتنے آلات کے ہوتے ہوئے بھی حکمران اتنی عدم اعتمادی کا شکار ہیں کہ مشرف نے بھی ایک23 پارٹیوںکا پاکستان ''عوامی‘‘اتحادبنا ڈالا ہے۔اتنی مصنوعی سیاست میں مزیدایک آلہ کار کو لانے کا مطلب یہ ہے کہ آلات پر اعتبار نہیں!لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر سیاست دانوں کے بارے میں عوام ان کو آلہ کار سمجھ رہے تھے تو اب محنت کشوں کی اس سوچ کو حالیہ سیاست دانوں کے اعترافات یا انکشافات مزید اجاگر کریں گے۔لیکن عوام کی معلومات صرف سیاست دانوں کے بارے میں مکمل نہیںہے۔بے معنی معلومات دینے والے بیشتر اینکر پرسنز کے بارے میں بھی عوام کسی مغالطے کاشکار نہیں ہیں۔عوام کو جاہل وگنوار سمجھنے والے مفکر اور تجزیہ نگار یہ نہیں جانتے کہ زندگی کی تلخیوں کی تجربہ گاہ کی اذیتیں سہنے والے یہ محنت کش عوام بہت سے پڑھے لکھے مفکروں سے زیادہ ذہین اور عقل مند ہوتے ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ کون کہاں سے بول رہا ہے۔دائو کس نے لگایا ہوا یا کس کالے دھن کے ان داتا کی بولی بولی جا رہی ہے۔سیاست اب عوام اور سماج میں نہیں‘ کہیں اور ہورہی ہے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا جارہا ہے کہ انصاف سیاست میں آگیا ہے یا حکمرانوں کی سیاست اس میں محصور ہو کر رہ گئی ہے۔البتہ بے نقاب سبھی ہورہے ہیں۔
جب بھی حکمران سیاست،ریاست اور میڈیا میں سچ کی کفایت شعاری شروع ہوجاتی ہے افواہیں ، قیاس آرائیاں اور''سینہ گزٹ‘‘کے سلسلے شدت اختیار کرجاتے ہیں۔کئی دہائیوں سے معاشرے کی سب سے ٹھوس سچائی اور حقیقی مسائل طبقاتی جبرواستحصال اور محرومی میںپسنے والی بھاری اکثریت کی ذلت آمیز زندگی کو سیاست اور ذرائع ابلاغ اور فکرودانش سے بے دخل کردیا گیا ہے۔کالے دھن کا سیاست صحافت اور ریاست کے حصوں پرجبر کی شدت سے اندھاراج مسلط ہے۔ایک وقت ہوا کرتا تھا جب ہولناک وحشت کی فوجی آمریتوں میں صحافت کی جدوجہد دوسرے مزاحمتی ہراول حصوں کے ساتھ ظلم وجبر سے برسرپیکار ہوتی تھی۔ دولت اور طاقت ان پر مکمل حاوی نہیں ہوتی تھی۔اخبارات کے صفحات میں بہت سے کالمزمیں سپیس خالی چھوڑ دی جاتی تھی۔خبروں میں کچھ توعوام کی ذلتوں کا تذکرہ اور احتجاج ہوتا تھا۔سیاست میں بہت سی پارٹیاں اپنے آپ کو کسی نہ کسی قسم کے سوشلزم سے جوڑتی تھیں کم از کم طبقاتی جبرواستحصال پر بات تو ہوتی تھی۔لیکن آج کی سیاست میں یہ غیر اہم ایشوز ہیں جن کو کبھی کبھی بطور فیشن جوش خطابت سے ڈال دیا جاتا ہے۔سیاست پر کالی و''سفید‘‘ دولت کا غلبہ ہے۔عوام جہاں تمام فریب سمجھتے ہیں وہاں''آزاد‘‘میڈیا کی یلغار کو بھی تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔جب سچ معاشرے سے نکال دیا جائے تو فریب کے تسلط میں لوگ قیاس آرائیوں پر بھی یقین کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ان کی مبالغہ آرائی اور اکثر غلط ہونے کے باوجود جب کچھ افواہیں درست ثابت ہوتی ہیں تو پھر معاشرے کی سطح کے نیچے ان کی زیادہ افادیت پیدا ہوجاتی ہے۔لیکن سچ کبھی مر نہیں سکتا۔سائنس اور تاریخ کی کسوٹی پر درست ثابت ہوتے نظریات کبھی مٹائے نہیں جا سکتے۔ عوام میں یہ نظام اور اس کے حواری بے نقاب ہو چکے ہیں۔ سیاست‘ صحافت اور ریاست نے ان کے تمام راستے مسدود کر دیئے ہیںلیکن جب تمام امیدیں دم توڑ دیں اور تمام راستے بند ہوجائیں تو انقلاب کی راہیں اجاگر ہوتی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں