"DLK" (space) message & send to 7575

عالمی معیشت کو درپیش زوال

مالیاتی کریش 2008ء کو اس سال نو برس کا عرصہ مکمل ہو چکا ہے‘ لیکن پہلے سے کہیں زیادہ شدید ہوتے سرمایہ داری کے اس بحران کو معیشت کی سست روی، نحیف بحالی‘ مسلسل عدم استحکام اور نازک کیفیت میں آج ہر جگہ آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ تمام تر سابقہ یقین دہانیاں، خوش فہمیاں اور خوش گمانیاں اب ہوا ہو چکی ہیں۔ تقریباً نصف صدی گزرنے کے بعد یہ پہلی دفعہ ہو رہا ہے کہ آج کی نسل یہ سوچ رہی ہے‘ اس کا معیار زندگی اس کی پچھلی نسل سے کہیں زیادہ بدتر ہے۔ سرمایہ داری کی شان سمجھے جانے والے ترقی یافتہ ممالک میں اب معاشی عروج، مکمل روزگار اور خوشحالی کی جگہ بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور معیار زندگی میں مسلسل گراوٹ نے لے لی ہے۔ طبقات میں کشمکش اور تضادات دن بدن بڑھ رہے ہیں اور یہ اس درجے تک بڑھ گئے ہیں کہ اس نے عوامی شعور کو جھنجھوڑنا شروع کر دیا ہے۔ 
عالمی معیشت کی کمزوریاں اپنا اظہار طبقات کی نفسیات کے ذریعے کرتی ہیں جس کا آغاز حکمران طبقات سے ہوتا ہے۔ گزشتہ نو سالوں سے جاری اس بحران کو سرمایہ داری کے اپنے معیشت دان 'لمبے عرصے تک چلنے والی سست روی‘ قرار دے چکے ہیں اور آنے والے لمبے عرصے تک صرف مسلسل گراوٹ کا تناظر ہی پیش کیا جا رہا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم نے 2007ء سے مسلسل جاری اس معاشی گراوٹ کے دس سال مکمل ہونے پر عالمی معیشت کے لئے ایک اور بڑے معاشی بحران کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ اپنی رپورٹ میں ان کا کہنا ہے کہ عالمی بینکاری کا نظام آج 2007ء کے بحران سے پہلے سے بھی زیادہ غیر مستحکم ہے۔ بین الاقوامی طور پر حکومتیں آج جس قدر مقروض ہیں‘ اتنا ایک دہائی قبل نہیں تھیں اور وہ نظام کو بچانے اور بیل آؤٹ دینے کے لئے پہلے سے کئی گنا کمزور ہو چکی ہیں۔ 
دراصل آج عالمی معیشت قرضوں کے بوجھ تلے دب چکی ہے، کیونکہ پچھلے کچھ عرصے میں جو تھوڑی بہت بحالی ہوئی بھی وہ صرف چند حصوں میں ہوئی‘ باقی دنیا میں معیشت کو قرضوں کے ذریعے بالکل اسی طرح چلایا گیا جیسے بستر پر پڑے ایک مرتے مریض کو وینٹی لیٹر کے ذریعے زندہ رکھا جاتا ہے۔ عام طور پر بڑی جنگوں کے بعد ہی حکومتی قرضوں میں اتنے بڑے پیمانے پر اضافہ دیکھا جاتا ہے۔ اگر اعداد و شمار کے حوالے سے دیکھا جائے تو سی آئی اے کی سالانہ فیکٹ بک کے مطابق اس وقت جاپان کا کُل ریاستی قرضہ اس کے جی ڈی پی کے 234.7 فیصد، امریکہ کا 106 فیصد، فرانس کا 96.5 فیصد، کینیڈا کا 98.8 فیصد، سپین کا 99.6 فیصد، بیلجیئم کا 106.7 فیصد، سنگاپور کا 110.5 فیصد، پرتگال کا 126.2 فیصد، اٹلی کا 132.5 فیصد، یونان کا 181.6 فیصد، برطانیہ کا 92.2 فیصد ہے۔ آئی ایم ایف کا چینی معیشت کے بارے میں کہنا ہے کہ اب اس پر خطرے کی گھنٹی بجنا شروع ہو گئی ہے، جس کا اندازہ اس کی شرح نمو میں تیز ترین گراوٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔ عالمی معیشت کے ہر شعبے میں یہی سب کچھ ہو رہا ہے اور ان قرضو ں میں سالانہ تیزی سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ قرضوں کا یہ پہاڑ آج عالمی معیشت پر ایک بوجھ بن چکا ہے جو کہ طلب کو کم کرکے مسلسل پیداوار میں گراوٹ لا رہا ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کا ہر ہتھکنڈا گزشتہ دس سالوں سے ناکام ہو رہا ہے اور آنے والے دنوں میں بھی اس میں کوئی واضح فرق نہیں دیکھا جا سکتا۔ آج بورژوا ماہرین بھی اپنی اس شکست کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں‘ اور ان کے اپنے ترجمانوں کا موڈ مبالغہ آمیز رجائیت اور بدترین خوف کا ملغوبہ نظر آتا ہے۔ بے شک تھوڑی بہت بحالی ہو بھی جائے گی کیونکہ سرمایہ داری کا کوئی بحران حتمی نہیں ہوتا‘ لیکن اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس نظام کی بدولت آج جو اذیت پوری دنیا میں نسل انسان بھگت رہی ہے اسے اب مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
ابھرتی ہوئی معیشتیں‘ (برازیل‘ ہندوستان‘ روس‘ چین اور جنوبی افریقہ) جن پر 2008ء کے زوال کے بعد سرمایہ داری کے ماہرین تکیہ کیے ہوئے تھے کہ یہ نظام کا سہارا بنیں گی، پچھلے کچھ عرصے سے شدیدگراوٹ اور بحرانوں کا شکار ہیں۔ ان ممالک میں ایشیا کے دو بڑے ممالک ہندوستان اور چین بھی شامل ہیں‘ جن سے سرمایہ داری کی بحالی کی امیدیں وابستہ تھیں لیکن آج ان کی تمام تر امیدوں پر پانی پھر چکا ہے اور ان سبھی معیشتوں میں باقی دنیا کی طرح تیزی سے سست روی آ رہی ہے۔
پچھلے دس سالوں میں چین نے اپنے قرضوں میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ عالمی معیشت نے جو توقعات چین سے لگائی تھیں‘ وہ اب چکنا چور ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ حالیہ دنوں جاری کی گئی آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ نے چینی معیشت کے پھیلاؤ کو عالمی معیشت کے لئے شدید خطرہ قرار دیا ہے۔ اسی طرح ہندوستانی معیشت بھی کوئی کمال نہیں کر رہی اور مختلف تضادات کا ایک ملغوبہ ہی محسوس ہوتی ہے۔ بھارت کی بورژوازی‘ عظمت اور برتری کے ایک خبط کا شکار چلی آ رہی ہے۔ ٹیلی ویژن پر دکھائی گئی ''ترقی‘‘ کا عوام کی اکثریت سے کوئی تعلق نہیں اور غربت و مفلسی کو عوام کا مقدر بنا دیا گیا ہے۔
ہندوستان اور چین برکس ممالک میں بڑا حصہ رکھنے والے ممالک ہیں، لیکن یہ دونوں مختلف معاشی اور سماجی بھونچالوں کی زد میں ہیں۔ ابھرتی ہوئی معیشتوں میں روس، جنوبی افریقہ اور برازیل کا شمار بھی ہوتا ہے۔ ان پانچوں ممالک کی نوے کی دہائی سے لے کر مالیاتی کریش اور اس کے بعد تک کی کارکردگی خاصی بہتر تھی اور اسی کی بنیاد پر گولڈ مین سیک کے چیف اکانومسٹ جم اونیل نے انہیں اکیسویں صدی کی ابھرتی معیشتیں قرار دیا تھا‘ لیکن یورپ اور امریکہ میں بحران زدہ کیفیت کی طرح یہ ممالک بھی اس بحران سے زیادہ عرصہ دور نہیں رہ سکے۔ 'ٹائمز‘ میں شائع ہوئی ایان بریمر کی رپورٹ ابھرتی معیشتوں کے بحران کو بیان کرنے کے لئے کافی ہے۔ ٹائمز میگزین کے مطابق حالیہ برسوں میں اجناس کی قیمتوں میں کمی کے باعث برازیل، جنوبی افریقہ اور روس کی معیشتوں کو خاصا نقصان ہوا ہے۔ جہاں برازیل کی شرح نمو 4.41 فیصد سے گر کر گزشتہ تین سالوں میں اوسط منفی 2.29 فیصد رہی، وہیں اسی عرصے میں جنوبی افریقہ کا گروتھ ریٹ 5.41 فیصد سے کم ہو کر 1.09 فیصد جبکہ روس کا 7.69 سے گھٹ کر منفی 0.77 پر آ پہنچا ہے۔ 
سرمایہ داری کا بحران آج کھل کر منظر عام پر آ چکا ہے۔ اس نظام کے اپنے آقائوں کے پاس بھی آج کوئی خوشگوار اور امید افزا تناظر نہیں ہے۔ وہ ان واقعات پر ردعمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں‘ جو ان کے کنٹرول سے باہر ہو چکے ہیں۔ بنیادی طور پر عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام آج ایک ایک بند گلی میںداخل ہو چکا ہے‘ اور بحران سے نجات حاصل کرنے کے لئے اپنایا گیا ہر ہتھکنڈا بحران کو مزید دھماکہ خیز بنا رہا ہے۔ یہ بحران اب محض معاشی نہیں رہا بلکہ مجموعی طور پر نظام کے بحران میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس قسم کے بحران کبھی سیدھی لکیر پر حرکت نہیں کرتے اور اس میں اتار چڑھاؤ ہوتے رہتے ہیں۔ ضروری ہے کہ اس سارے عمل کو ایک تسلسل میں دیکھا‘ پرکھا اور سمجھا جائے۔ آج تک معیار زندگی میں جو متاثر کن ترقی ہوئی اب وہ اپنی ضد میں تبدیل ہو چکی ہے۔ نجی ملکیت اور قومی ریاست، دونوں ہی اب انسانی ترقی کے راستے میں رکاوٹ بن چکے ہیں۔

سرمایہ داری کا بحران آج کھل کر منظر عام پر آ چکا ہے۔ اس نظام کے اپنے آقائوں کے پاس بھی آج کوئی خوشگوار اور امید افزا تناظر نہیں ہے۔ وہ ان واقعات پر ردعمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں‘ جو ان کے کنٹرول سے باہر ہو چکے ہیں۔ بنیادی طور پر عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام آج ایک ایک بند گلی میںداخل ہو چکا ہے‘ اور بحران سے نجات حاصل کرنے کے لئے اپنایا گیا ہر ہتھکنڈا بحران کو مزید دھماکہ خیز بنا رہا ہے۔ یہ بحران اب محض معاشی نہیں رہا بلکہ مجموعی طور پر نظام کے بحران میں تبدیل ہو چکا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں