"DLK" (space) message & send to 7575

بلوچستان کا طویل مقدمہ!

کوئٹہ میں 17 دسمبر کو ہونے والی دہشت گردی اقلیتوں کو لاحق مسائل کی غمازی کرتی ہے۔یہ اس وسیع تر جبر و تشدد کے سلسلے کی کڑی ہے جو گزشتہ سات دہائیوں سے اِس ملک کے محنت کش طبقات، اقلیتوں، مختلف قومیتوں، خواتین اور معاشرے کی دوسری پسی ہوئی پرتوں پر ڈھایا جا رہا ہے۔ بلوچستان اِس جبر کا مرکز رہا ہے لیکن اب وہاں فرقہ وارانہ دہشت کی آگ بھی بھڑکا دی گئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ جب حکمرانوں کے پاس درپیش مسائل کا کوئی حل موجود نہ ہو تو ان کی طرف سے اسی قسم کے ہتھکنڈے اپنائے جاتے ہیں۔ تمام تر سرکاری مذمتوں اور پیکیجوں کے باوجود بلوچستان کی صورتحال گزشتہ کئی سالوں میں بد تر ہی ہوئی ہے۔ 
سخت سکیورٹی اور جگہ جگہ ناکہ بندی کے باوجود اِس طرح کے واقعات بہت سے سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ اِس سے قبل 14 نومبر کو پاک ایران سرحد کے قریب بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے بلیدہ سے گولیوں سے چھلنی 15 لاشیں ملی تھیں۔ مرنے والوں کا تعلق پنجاب کے مختلف علاقوں سے تھا۔ چند دن بعد تربت سے تقریباً 70 کلومیٹر دور تجبان سے پانچ مزید لاشیں ملیں۔ ان کا تعلق بھی پنجاب کے مختلف علاقوں سے تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ افراد غیر قانونی طور پر ایران کے راستے یورپ جانا چاہتے تھے۔ ان بیس افراد کے قتل کی ذمہ داری مبینہ طور پر 'بلوچ لبریشن فرنٹ‘ نے قبول کی ہے۔یہ غریب نوجوان ریاست کی جانب سے روزگار اور خوشحال زندگی کی فراہمی میں ناکامی اور غربت اور افلاس سے تنگ آئے ہوئے وہ لوگ تھے جو اپنے سارے رشتے ناتے چھوڑ کر ایک بہتر زندگی کی امید لیے ایک ایسے سفر پر چل پڑے تھے جہاں ان کی موت کم و بیش یقینی تھی۔ 
پچھلے ستر سالوں سے بلوچستان کو اس کے تمام تر معدنی وسائل کے باوجود معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ رکھا گیا ہے، مختلف ادوار میں اس معاشی اور سماجی جبر کے خلاف جدوجہد اور تحریک اتنی ہی شدت کے ساتھ ابھرتی رہی ہے۔ اس جبر کے خلاف جدوجہد میں ان گنت نوجوانوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔ 1970ء کی دہائی میں ہونے والی سرکشی میں واضح طور پر بائیں بازو کا رجحان حاوی تھا اور قیادت برملا طور پر سوشلسٹ بلوچستان کو اپنی منزل قرار دیتی تھی جو اس وقت پاکستان میں بائیں بازو کے کارکنوں کے لیے جوش و جذبے کا باعث تھا۔ اگرچہ یہ تحریکیں اپنے مقاصد حاصل نہ کرسکیں لیکن جدوجہد کی روایت مسلسل چلتی رہی ہے۔ بلوچستان کے سٹریٹیجک محل وقوع، معدنی وسائل اور سامراجی طاقتوں کی اس محل وقوع اور وسائل پر قبضے کے لیے مداخلت نے نئے تضادات اور تشدد کے سلسلے کو جنم دیا‘ جس نے یہاں کے باسیوں کی زندگیوں کو ایک عذاب مسلسل میں تبدیل کر دیا ہے۔ 
دوسری طرف حکمرانوں کی جانب سے بلوچستان میں خوشحالی لانے اور یہاں کے باسیوں کی تقدیر بدلنے کا نہ ختم ہونے والا شور جاری ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ عالمی سرمایہ داری کی موجودہ بحرانی کیفیت سماج میں کسی طرح کی خوشحالی لانے سے ہی قاصر ہے۔ چین کی سرمایہ داری آج ایک ایسے عہد میں 'ابھر‘ رہی ہے جب عالمی سطح پر سرمایہ داری اپنے نامیاتی بحران سے گزر رہی ہے۔ چین میں سرمایہ داری کی بحالی نے خود چین کے اندر امارت اور غربت کی وسیع خلیج کو جنم دیا ہے۔ طبقاتی تضادات مزید بڑھے ہیں۔ اس وقت چین میں پاکستان کی کل آبادی سے زیادہ بیروزگار موجود ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پیداواری یونٹوں میں مزدوروں کی خودکشیاں عام ہیں۔ ہر سال مزدوروں کی ہزاروں ہڑتالیں ہوتی ہیں جسے عالمی سامراجی میڈیا مکمل نظر انداز کر دیتا ہے۔ ایسے میں سامراجی سرمایہ کاری صرف نئے تضادات کو جنم دے گی۔ بلوچستان کے علاقے سینڈک میں چین سونے اور تانبے کے پراجیکٹ پر پچھلی دو دہائی سے زائد عرصے سے کام کر رہا ہے لیکن اس پسماندہ علاقے میں آج تک ایک ڈسپنسری نہیں بنی۔ اس کے علاوہ گوادر شہر کی حالت یہ ہے کہ شہر میں پینے کے پانی کی شدید قلت ہے اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ شہر میں گھروں سے چوریاں زیادہ تر پانی کی ہوتی ہے۔ 
دہشت گردی کے پے در پے واقعات کوئٹہ کو تاراج کر رہے ہیں۔ ہر نیا واقعہ پہلے سے زیادہ وحشیانہ ہوتا ہے۔ حکومت کی طرف سے دہشت گردی کی کمر توڑنے کے ہر دعوے کے بعد دہشت گردپورے ملک میں ہر جگہ بلاخوف و خطر دوبارہ انتقاماً حملہ کرتے ہیں۔ پچھلے کچھ مہینوں سے کوئٹہ اس وحشت کا مرکز بن چکا ہے۔ دہشت گردی کو روکنے کے لیے اربوں روپے کے آلات اور چیک پوسٹوں کو ان بنیاد پرست دہشت گردوں نے مذاق بنا دیا ہے۔ دہشت گردی کے ہرواقعے کے بعد ریاست کے سکیورٹی اداروں کی زد میں دہشت گرد آئیں یا نہ آئیں مگر سکیورٹی کے نام پر عوام کی زندگیاں مزید مشکل بنا دی جاتی ہیں، جو پہلے ہی سے اس ناکام اور درندہ صفت نظام کے ہاتھوں معاشی و سماجی جبر کا شکار ہیں۔
کوئٹہ ایک دلکش جگہ ہے، جس کی منفرد اور پرسکون خوبصورتی کے نظارے دیکھنے بہت سے سیاح آیا کرتے تھے۔ چاروں طرف موجود سنگلاخ پہاڑ اور پہاڑی علاقے اسے ایک نایاب ارضیاتی عجوبے کی شکل دیتے ہیں۔ 1935ء کے زلزلے میں یہ فوجی علاقہ تباہ ہوگیا تھا لیکن جلد ہی اسے دوبارہ تعمیر کر لیا گیا۔ یہ چھوٹا سا شہر سیاحت کے لیے نہایت ہی خوشگوار تھا‘ جس کی گلیاں صاف اور ماحول تر و تازہ اور صحت بخش تھا۔ بہت عرصہ نہیں گزرا جب مختلف قومیتوں، مذاہب اور نسلوں کے لوگ یہاںقابل مثال بھائی چارے کی فضا میں رہتے تھے۔ لیکن بد قسمتی سے آج کوئٹہ ایک بے ہنگم پھیلتا ہوا شہر ہے، جس کی پرہجوم سڑکوں اور تعفن زدہ گلیوں کوہر وقت فرقہ وارانہ قتل و غارت اور دہشت گرد حملوں کا خطرہ رہتا ہے۔ آج اس شہر کو ایک خونریز، شدید اور پیچیدہ جنگ کا سامنا ہے۔
سیاسی و ریاستی اشرافیہ، آبادی کی وسیع اکثریت کو درپیش تباہ کن سماجی معاشی ذلت کی طرف ایک مجرمانہ بے حسی اختیار کیے ہوئے ہے۔ وسیع بیروزگاری اور مسلسل بڑھتی ہوئی غربت، صحت و تعلیم سے لے کر دوسری لازمی انسانی ضروریات سے اذیت ناک محرومی، عوام کی قوت خرید کو مسلسل نگلتی ہوئی مہنگائی۔ ان حکمران طبقات اور ان کے میڈیا نے ان سلگتے ہوئے مسائل کو یکسر رد کر کے پس پشت ڈال دیا ہے۔
ریاستی آقاؤں اور مختلف حکومتوں کی جانب سے علامتی مذمتوں کے باوجود حکمران طبقات کا قطعاً کوئی ارادہ نہیں لگتا کہ اس جنون کو لگام دیں جو سماج میں پہلے سے عوام پر قہر نازل کر رہا ہے۔ ہزاروں ادارے آج بھی بے دھڑک چلائے جا رہے ہیں جن کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کی رپورٹیں جاری کی گئی ہیں۔ کئی بڑے سرمایہ دار اور پراپرٹی ٹائیکون اربوں کے اس دھندے میں برابر شریک ہیں اور مخصوص فرقے کے ملاؤں کی پوری معاونت کرتے ہیں۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ نام نہاد سیکولر اور لبرل حکومتوں نے بھی محنت کشوں اور نوجوانوں کی تحریک سے خوفزدہ ہوکر اپنی حاکمیت کو بچانے کے لیے اکثر و بیشتر ان رجعتی قوتوں کا سہارا لیا۔ یہ پالیسی آج تلک جاری ہے۔ 
بلوچستان میں اس وقت متحارب سامراجی طاقتیں لوٹ مار کے لیے آپس میں دست و گریباں ہیں۔بلوچستان کے نوجوانوںاورمحنت کشوں کی جدوجہد کاتاریخی سبق یہی ہے کہ اس لوٹ کھسوٹ کے خاتمے اوراپنے سیاسی ثقافتی معاشی وسماجی حقوق کے حصول کیلئے اس جدوجہد کو پورے خطے کی طبقاتی کشمکش سے جوڑنا ہو گا۔ یہی طبقاتی یکجہتی نجات اور کامیابی کاذریعہ بن سکتی ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں