جنرل اسمبلی میں امریکہ کے یروشیلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے اقدام کے خلاف بھاری اکثریت سے ہونی والی سفارتی مذمت کے بعد امریکی سفیر نِکی ہیلی نے بھڑکیلی تقریر فرمائی۔ اس خطاب میں اس خاتون نے جس رعونت ،کم ظرفی اور نیچ پن کا مظاہرہ کیا وہ امریکہ کی جارحانہ سفارتی تاریخ میںکم ہی ملتی ہے۔ جن ممالک نے امریکہ کے خلاف ووٹ دیا ان پر ہیلی نے اپنی امداد کا احسان بھی جتلایا اور ان کو دھمکی بھی دی کہ اب جب وہ پیسے مانگیں گے تو پھر ہم ان کو بتلائیں گے کہ تم نے یہ''جرم‘‘ کیا تھا۔ لیکن ان ممالک کے ساتھ ساتھ ہیلی نے اقوام متحدہ کو بھی باور کرایا کہ یہ ادارہ بھی امریکی پیسے ہی سے چلتا ہے۔ ادارے کو یہ ایک چتائونی اوراحسان فراموشی کا طعنہ تھا۔ گو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بیشتر ممالک کے حکمران اورسفارتکار طویل تقاریر کرتے ہیں، لمبی لمبی بحثیں ہوتی ہیں ،بے پناہ قرار دادیں پاس ہوتی ہیں لیکن ان میں سے کسی پر عملدرآمد کی کوئی اجازت یا گنجائش نہیں ہوتی۔ اپنے حکمرانوں اور سفارتکاروں سے فلسطین اور کشمیر جیسے ایشوز پر ایسی قراردادوں کا واویلا سن سن کر عوام اکتا گئے ہیں۔اس حوالے سے اس قرار داد کے پاس ہونے سے اسرائیل یا امریکہ کو عملی طور پر کوئی خطرہ نہیں تھا ۔ سکیورٹی کونسل میں اسی قرار داد کو امریکہ نے ویٹو کرکے کسی عملدرآمد کے امکان کو ختم کردیا تھا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کی فاتح طاقتوں نے اقوام متحدہ کا ادارہ بناکراپنے تسلط کو سکیورٹی کونسل کی ممبرشپ اور ویٹو کی طاقت سے یقینی بنایا تھا۔ یہ سلسلہ آج تک چل رہاہے۔ لیکن پھر سکیورٹی کونسل بھی کون سا کوئی مؤثر ادارہ ہے۔ کئی ایسی قرار دادیں جو سکیورٹی کونسل میں بھی پاس ہوئیں‘ ان کو بھی سامراجی حاکموں نے جب چاہا روند کر ان کے برعکس جارحیتیں کیں اور وسیع پیمانے پر عام انسانوں کی قتل و غارت اور خونریزی کے مرتکب ہوئے۔ 2003 ء میں سکیورٹی کونسل کی عراق میںجنگ کا راستہ اختیارنہ کیے جانے کی قرار داد کے پا س ہونے کے باوجود امریکی اور برطانوی سامراج نے مل کر عراق پر حملہ کیا تھا۔ اس جارحیت نے عراق کو تاراج کیا، پورے خطے میں بربادیوں کا ایک طوفان برپا کیا، لاکھوں افراد اس وحشت میںمخدوش ہو گئے، شام سے لے کر یمن اور لیبیا تک کی ریاستیں ٹوٹ کر بکھر گئیں۔ ان تمام جرائم کو امریکی اور برطانوی سامراج پر عائد کرنے کی ہمت نہ اقوام متحدہ میں ہے‘ نہ عالمی عدالت کرسکتی ہے‘ اور نہ ہی کسی ملک کی سرکار ان جنگی مجرموں کو سزا دینے کی کوئی جرأت کرسکتی ہے۔
امریکہ کے خلاف اسلامی سربراہی کانفرنس سے لے کر جنرل اسمبلی تک کے اجلاس میں دھواں دھار تقریریں ہوئیں‘ لیکن باہر نکل کر سب بھول جاتے ہیں کیونکہ وہ یہ منافقت اور ناٹک گری محض اپنے تسلط زدہ عوام کو متذبذت اور گمراہ کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ اسی لیے اقوام متحدہ جیسے ادارے اس نظام زر کے دنیا بھر کے سیاسی مندوبین کے لئے ایک تقریری کلب سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔سامراجی دولت سے پلنے اور اس کی طاقت کے سائے میں قائم کوئی ادارہ بھلا کیسے اپنے آقائوں کے خلاف کو ئی اقدام کرسکتا ہے۔ اس ادارے کا زیادہ استعمال محض حکمرانوں کے ناقابل حل تنازعات کو ایک کولڈ سٹوریج میں ڈال کر فراموش کرانا بن جاتا ہے۔ اس سے زیادہ اس کا کوئی کردار نہیں ہے۔باقی سب ناٹک گیری اور فریب ہے۔ 70 سال میں کوئی سنجیدہ تنازعہ عالمی ادارے نے حل نہیں کروایا۔ جہاں تنازعات اور قبضوں کی مجرم بڑی طاقتیں اور سامراجی ریاستیں ہوتی ہیں وہاں اس کے پَرجل جاتے ہیں۔ بس لوگوں کو خوش رکھنے کے لئے مختلف خطوں میں ہونے والے مظالم کے خلاف یہ نحیف احتجاج ہوتے ہیں جن سے ظلم کرنے والوں کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا۔ پچھلے 70سال سے فلسطینی عوام صہیونی ریاست کے ظلم وجبر کا شکار ہیں۔ ان کی حالت بد سے بدتر ہی ہوتی چلی گئی ہے۔ نہ صرف ان کو براہ راست بارود کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ ان کی معاشی اور سماجی زندگی بھی انتہائی ذلتوں کا شکار ہے۔
جہاں تک نِکی ہیلی کا امداد کا دعویٰ ہے تو یہ بھی ایک انتہائی المناک بالواسطہ استحصالی ہتھکنڈا ہے۔ جیسے مخیر حضرات کی خیرات سے کبھی کسی کی غربت دور نہیںہوتی اسی طرح اس سامراجی فراخدلی اور فیاضی سے بھی امداد لینے والے غریب ممالک کے محنت کش عوام غریب سے غریب تر ہی ہوتے چلے جاتے ہیں اور ان غریب ممالک کے حکمران دنیا کے امیر ترین افراد میں شامل ہوتے ہیں۔ مخیر حضرات کی خیرات کا اصل مقصد نیک نامی کا حصول اور اپنی فراخدلی کی تشہیر کرواکے اپنے کاروبار میں منافعوں کی شرح بڑھا نا ہوتا ہے۔ سامراجی امداد کے عزائم اس سے بھی زیادہ سفاک ہوتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد کی دو دہائیوں میں سامراجی امداد نسبتاًآسان شرائط پر دی جاتی تھی کیونکہ ان کے نظام میں قدرے گنجائش موجود تھی اور ''سردجنگ‘‘ کے دوران براہِ راست سامراجی فوجی مداخلتوں کے لئے کئی ممالک میں فوجی، بحری اور فضائیہ کے اڈے بھی درکار ہوتے تھے۔یہاں ان کے جیوسٹریٹیجک مفادات حاوی ہوتے تھے‘ لیکن سوویت یونین کے انہدام کے بعد جب سامراجیوں کوکھل کھلا کر زیادہ وسیع پیمانے پر کھلواڑ کے لئے موقع ملا تو پھر سامراجیوں کے لئے ان کے اپنے نظام میں بحران کی بیماری شدت اختیار کرگئی۔ ان کے ساتھ کچھ ایسے ہی ہوا کہ جیسے کوئی کاروباری شخص ساری زندگی دولت کمانے کی اندھی دوڑ میں لگا رہتا ہے‘اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ سوچتا ہے کہ اب اس دولت کو اڑائوں اور خوب عیاشیاں کروں‘ لیکن اس ساتھ المیہ یہ ہوجاتا ہے کہ جسمانی طور پرایسی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں جن کی وجہ سے وہ کسی قسم کی عیاشی کرنے کے قابل ہی نہیں رہتا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بچتیں اور مال اکٹھا کرتے کرتے اس کی ذہنیت ہی اتنی کفایت شعار ہوجاتی ہے کہ اس کو خرچ کرنے کی ہمت ہی نہیں ملتی۔ سامراجیوں نے1980 ء کے بحران اور اس کے بعد کی کئی تنزلیوں کے انت پر 2007ء کے کریش کے بعد سے قرضوں پر سود کی شرح میں اتنا اضافہ کر دیا ہے کہ ہر آنے والی امداد ان غریب ممالک کی معیشت کو جکڑ کر اس کا دم گھوٹنے لگتی ہے۔ 20سال قبل پاکستان میں آنے والی ہر امداد اور سرمایہ کاری کا ایک ڈالر واپس 14ڈالر لے جاتا تھا‘ اب یہ ایک ڈالر 37 ڈالر واپس نچوڑ لیتا ہے۔ ایک اذیت یہ بھی ہے کہ اس امداد کا زیادہ تر استعمال امریکی اور دوسرے سامراجی ممالک کی اشیا خصوصاً ان کے جنگی آلات اور اسلحہ کی خریداری پر صرف ہوتی ہے۔ اس سے ان کے ملٹری اندسٹریل کمپلیکس کے منافعوں میں اضافہ ہوتا ہے اور غریب ممالک کے عام انسان غربت کی کھائی میں مزید دھکیل دیئے جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف،ورلڈ بینک اور دوسرے عالمی مالیاتی ادارے اس کھلواڑ کو منظم اور متحرک کرتے ہیں۔ لیکن اس لوٹ مار میں ہمارے جیسے ممالک کے حکمران طبقات اور ریاستی ان داتا سب سے بڑے ڈیلر کا کردار اداکرتے ہیں۔ اس سامراجی لین دین اور خریداری میں ان کے کمیشن پکے ہوتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ کسی ملک کے حکمران امریکہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک کے حواری بن جائیں تو پھر بھی کھیل تو یہی رہے گا۔ سامراجی ہماری لوٹ مار کرکے بھی ہمارے محسن ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں‘لیکن سامراجی جبرواستحصال میں ہمارے حکمران طبقات بھی برابرکے شریک ہیں۔ ان کا نظام زر اسی سامراجیت کا ناگزیر طور پر مطیع ہوتا ہے، اس کی ساخت ہی ایسی ہے۔ بیرونی سامراجی لوٹ مار اور جبرواستحصال کے خاتمے کے لئے داخلی طور پر اس کے پروردہ حکمرانوں اور سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ لازم ہے۔