"DLK" (space) message & send to 7575

نظامِ زر کا موضوعی بحران

ڈونلڈ ٹرمپ کا''اچانک‘‘ امریکہ کا صدر بن جانا‘ اس کی کھوکھلی جارحیت پر مبنی خارجی و داخلی پالیسیاں‘ دنیابھر میںجنگیں‘ خانہ جنگیاں اور بربادیاں شاید اتنی بے سبب نہیں ہیں۔ یہ صورتحال دنیا پر مسلط موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخی متروکیت کی غمازی کررہی ہے۔
آج بالعموم پوری دنیا ایک عدم استحکام اور انتشار کی زد میں ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے میں کئی ممالک میں دہائیوں پر مبنی سیاسی روایات مسترد ہوئی ہیں یا پھر برطانیہ میںایک مرتی ہوئی روایت کاریڈیکل بنیادوں پر احیا ہوا ہے۔ اس عہد کی مروجہ سیاست کی ٹوٹ پھوٹ دائیں اور بائیں بازو کے نئے رجحانات کو جنم دے رہی ہے۔ تحریکیں جب انقلابی قیادت کی عدم موجودگی میں پسپا ہوتی ہیں تو رجعت حملہ آور ہوتی ہے‘ جیسے 2011ء کے عرب انقلابات کے بعد نظر آتا ہے۔ اِسی طرح نظام کے خلاف غصہ اور بے چینی کو بھی جب کوئی ترقی پسندانہ اور انقلابی سیاسی اظہار نہیں مل پاتا تو یہ ایک مسخ شدہ شکل میں سامنے آ کر رجعتی رجحانات کو جنم دے سکتی ہے۔ پیش قدمی و پسپائی کا یہ عمل جاری رہے گا۔ لیکن مارکسزم کی سائنس انسان کو سطح کے نیچے جاری عوامل کو سمجھنے اور بظاہر الگ تھلگ نظر آنے والے واقعات سے عمومی نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔ تجزئیے کا یہ جدلیاتی طریقہ کار انسان کو انتشار میں نظم دیکھنے کے قابل بناتا ہے۔ اِس کے برعکس عامیانہ یا گھٹیا فکر کسی مظہر کی ظاہریت اور اساس میں فرق کرنے اور سماجی ارتقا کے قوانین کو سمجھنے سے قاصر ہوتی ہے۔ یہ بنیادی قوانین ہی ہیں جن کی دریافت کا سہرامارکس کے سر جاتا ہے۔ 1859ء میںمارکس نے واضح کیا تھا کہ ''میری تحقیق نے مجھے اِس نتیجے تک پہنچایا ہے کہ سماج کے قانونی رشتوں اور سیاسی اشکال کو انسانی شعور کے نام نہاد عمومی ارتقا کی بنیاد پر نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ اِس کے برعکس وہ زندگی کے مادی حالات میں سے برآمد ہوتے ہیں... میں جس نتیجے پر پہنچا ہوں اور جو نتیجہ میرے مطالعے کا رہنما اصول بن چکا ہے اِسے مختصراً یوں بیان کیا جا سکتا ہے: سماجی پیداوار کے عمل میں انسان ناگزیر طور پر مخصوص رشتوں میں بندھ جاتے ہیں۔ پیداوار کے یہ رشتے ان کی مرضی سے ماورا ہوتے ہیں اور پیداواری قوتوں کے ارتقا کے کسی مخصوص مرحلے سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اِن رشتوں کا جمع حاصل سماج کا معاشی ڈھانچہ تشکیل دیتا ہے۔ یہی وہ حقیقی بنیاد ہوتی ہے جس پر قانون اور سیاست کے بالائی ڈھانچے تعمیر ہوتے ہیں ... انسانوں کا شعور اُن کے وجود کا تعین نہیں کرتا بلکہ اُن کا سماجی وجود اُن کے شعور کا تعین کرتا ہے۔ ارتقا کے ایک خاص مرحلے پر سماج کی مادی پیداواری قوتیں‘ مروجہ پیداواری رشتوں سے تصادم میں آ جاتی ہیں۔ یہ رشتے‘ پیداواری قوتوں کو آگے بڑھانے کی بجائے ان کے پیروں کی بیڑیاں بن جاتے ہیں۔ تبھی ایک سماجی انقلاب کا عمل شروع ہوتا ہے۔معاشی بنیاد میں آنے والی تبدیلیاں جلد یا بدیر سارے دیوہیکل (سیاسی و قانونی) بالائی ڈھانچے کی تبدیلی پر منتج ہوتی ہیں۔‘‘ سرمایہ داری کی پیداکردہ پیداواری قوتوں اور مروجہ پیداواری رشتوں کا یہ تصادم ہی آج کے انسانی سماج کا بنیادی تضاد ہے۔
2007ء کا 'Great Recession‘دہائیوں سے چلے آ رہے تضادات کا نا گزیر اظہار تھا۔ یہ 1929ء کے بعد سرمایہ داری کا بدترین بحران تھا۔ اِس نظام کے معذرت خواہان اور اصلاح پسندوں کی رائے کے برعکس یہ سرمایہ داری کے کسی مخصوص ماڈل کا نقص نہیں بلکہ ایک لمبے عرصے سے چلی آ رہی ضرورت تھی جس نے اپنا اظہار ایک حادثے کی شکل میں کیا۔ کینیشین ازم، ریاستی سرمایہ داری یا پھر نیو لبرلزم اور ٹریکل ڈائون اکنامکس وغیرہ ایک ہی نظام کو چلانے کے مختلف طریقے ہیں اور نظام کے مخصوص تقاضوں کے تحت ہی انہیں اپنایا یا مسترد کیا جاتا ہے۔ سرمایہ داری کے ماہرین نے بالخصوص 1930ء کے کریش کے بعد سے بحرانوں کو ٹالنے یا ان
سے نکلنے کے کئی طریقے ایجاد کئے ہیں۔ لیکن تضادات کو جتنا دبایا جاتا ہے وہ لمبے عرصے میں اپنا اظہار اتنے ہی زور دار انداز میں کرتے ہیں۔ سرمایہ داری کا کوئی بھی معاشی بحران آخری تجرئیے میں سرمائے کے اجتماع کے اس عمل میں رخنہ پڑنے کا نتیجہ ہوتا ہے جو سرمایہ داری کے انجن کی حیثیت رکھتا ہے۔ حالیہ بحران کا آغاز مالیاتی سیکٹر سے ہوا تھا لیکن یہ تیزی سے پھیل کر اقتصادیات میں سرایت کر گیا اور کئی ریاستیں دیوالیہ ہونے کے دہانے پر آ کھڑی ہوئیں۔ مالیاتی کریش بعد کے معاشی بحران کی وجہ نہیں بلکہ نقطہ آغاز تھا۔ قرضوں کے جس طریقے سے سرمایہ داری کو لمبے عرصے سے چلایا جا رہا تھا وہ لا متناہی طور پر جاری نہیں رہ سکتا تھا۔ لیکن بحران کے پھٹ پڑنے کے بعد بھی یہ قرضے بڑھتے ہی چلے گئے ہیں اور آج تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکے ہیں۔ رائٹرز کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق عالمی قرضہ اِس وقت 226 ٹریلین ڈالر کی سطح پر کھڑا ہے جو کہ سالانہ عالمی پیداوار کا 324 فیصد بنتا ہے۔ 2008ء کے بعد سے اِس قرضے میں 74 ٹریلین ڈالر کا ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ یہ قرضے درحقیقت سرمایہ داری کو لاحق نامیاتی بیماری کا ناگزیر اظہار ہیں۔ نیویارک ٹائمزکے مطابق، ''2008ء کے بحران کے بعد ملکہ الزبتھ نے لندن سکول آف اکنامکس کے ماہرین سے ایک ملاقات میں پوچھا تھا کہ آخر کوئی دوسری عالمی جنگ کے بعد کے بدترین مالیاتی بحران کی پیش گوئی کیوں نہیں کر سکا؟... کیا ہم وہی غلطی دہرانے والے ہیں؟ قوی امکانات ہیں کہ جواب ہاں میں ہے۔
جب تک سرمائے کی شرح منافع میں اضافہ ہو رہا ہوتا ہے تب تک سرمایہ کاری بھی ہو رہی ہوتی ہے اور قرضوں میں اضافہ بھی قابل برداشت ہوتا ہے۔ لیکن جب منافعے گرنے لگتے ہیں تو یہی قرضے بھاری بوجھ بن جاتے ہیں۔علاوہ ازیں منافعوں میں گراوٹ سے سرمایہ کاری سوکھ جاتی ہے جس سے نئے روزگار کے مواقع سکڑتے ہیں، قوت خرید گرنے لگتی ہے اور زائد پیداوار کے بحران جنم لیتے ہیں۔ حالیہ عرصے میں ترقی یافتہ معیشتوںمیں بہتری اور سرمایہ کاری کے باوجود شرح منافع بہت کمزور ہے اور عالمی جنگ کے بعد کی کم ترین سطح پر ہے۔ دوسری طرف ریاستوں کے ساتھ ساتھ کارپوریٹ قرضے بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ آنے والے مہینوں میں یہ منافعے حالیہ جزوی بہتری کے بعد زوال کی طرف جاتے ہیں تو ایک بڑا اور زیادہ گہرا بحران ناگزیر ہو گا۔
آج پوری دنیا میں طبقاتی تفریق اور معاشی نا ہمواری کبھی نہ دیکھی گئی انتہائوں پر ہے۔ 'آکسفیم‘ کے تازہ اعداد و شمارکے مطابق آٹھ امیر ترین افرادکے پاس دنیا کی غریب ترین 50 فیصد آبادی سے زیادہ دولت ہے۔ پچھلے سال اسی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ان امیر ترین افراد کی تعداد 62 تھی۔ تازہ اعداد و شمار نئی معلومات کی بنیاد پر مرتب کئے گئے ہیں جن کے مطابق چین اور ہندوستا ن میں غربت پہلے لگائے گئے تخمینوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ''کروڑوں لوگوں‘‘ کو خطِ غربت سے بلند کرنے کے سامراجی پراپیگنڈے کے برعکس غربت سے دوچار افراد کی تعداد میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ دولت چند ہاتھوں میں مجتمع ہوتی چلی جا رہی ہو اور عام انسانوں کی زندگیوں میں بہتری آ سکے؟ اِس نظام میں ٹیکنالوجی جوں جوں جدید ہوتی جاتی ہے، انسانی زندگی سہل ہونے کی بجائے کٹھن ہوتی جاتی ہے، وقت اور آسائش مٹتے چلے جاتے ہیں، بیروزگاری بڑھتی جاتی ہے۔ آج ایک طرف انسانیت کی اکثریت محرومی میں سسک رہی ہے تو دوسری طرف زائد پیداواری صلاحیت ایک مستقل عارضے کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ یہ نظامِ زر نسلِ انسانی کے گلے میں ایک طوق بن کرمعاشرے کادم گھونٹ رہاہے۔ اس طوق کواتار پھینک کرہی انسانیت آزادی اور سکھ کا سانس لے سکے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں