بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی سربراہی میں چلنے والی حکومت کے سربراہ کے مستعفی ہونے سے اسلام آباد اور راولپنڈی کے سیاستدانوں اور پالیسی سازوں کے تخلیق کردہ 'جمہوری‘ سیٹ اپ میں ایک نئے سیاسی بحران نے جنم لیا ہے۔ بلوچستان کو سیاسی حقوق اور معاشی 'مراعات‘ دینے کے تمام تر دعووں کے باوجود یہاں کے باسی اب بھی خوشحالی سے کوسوں دور ہیں‘ بالخصوص نوجوانوں میں محرومی کے احساسات بہت ہی گہرے ہیں۔ زہری کا مستعفی ہونا طاقت کے ایوانوں میں بڑھتے ہوئے بحران کا نتیجہ ہے جو سماج میں پھیلی بے چینی سے جنم لیتا ہے۔
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ اور قیمتی دھاتوں اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔پاکستان، ایران ، افغانستان اور بحیرہ عرب سے لے کر خلیج ہرمز تک پھیلا یہ خطہ تجارت کے لیے منافع بخش راستوں اور سٹریٹیجک فوجی خطوں میں سے ایک ہے۔ لیکن بلوچستان بدترین غربت کا شکار اور انفراسٹرکچر کے حوالے سے خطے کا سب سے پس ماندہ علاقہ ہے۔ بلوچستان کے انسانی ترقی کے اشاریے بشمول جنسی تفریق، ملکی اوسط سے کہیں نیچے ہیں۔ یہاں 70 فیصد آبادی غربت کا شکار ہے۔ تقریباً 18لاکھ بچے سکول نہیں جاتے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے 5000 سکول محض ایک کمرے پر مشتمل ہیں۔ خواتین کی شرح خواندگی 16 فیصد ہے (ملکی سطح پر یہ 32فیصد ہے)۔ ملکی سطح پر زچگی کے دوران اموات کی شرح ہر ایک لاکھ میں 278 ہے جبکہ بلوچستان یہ 785ہے۔ تقریباً 15 فیصد آبادی ہیپاٹائیٹس بی اور سی کا شکار ہے۔ خشک سالی اور زیر زمین پانی کی سطح مسلسل گرنے کی وجہ سے خطہ پانی کی شدید قلت کا شکار ہے اور مال مویشیوں کی کمی سے دیہی آبادی کی معاشی حالت مزید ابتر ہو گئی ہے۔
سی پیک سے بلوچستان کی ترقی کے بلند بانگ دعووں کے برعکس گوادر بندرگاہ منصوبے، جو چینی سرمایہ کاروں کے لیے سب سے قیمتی منصوبہ ہے، سمیت بلوچستان کا سی پیک میں حصہ محض 0.5فیصد ہے۔ سی پیک کو ملک کے لیے ایک 'گیم چینجر‘ کا خطاب دیا جا رہا ہے۔ لیکن حالیہ تحقیق کے مطابق اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کا بڑا حصہ کارپوریٹ چینی سرمایہ کاروں کو ملے گا‘ اور چند نوالے مقامی ٹھیکیداروں کو نصیب ہوں گے۔ وفاقی اور صوبائی سیاستدانوں کی سی پیک سے وابستہ امیدوں کے بر خلاف زیادہ تر منصوبے کیپیٹل انٹینسو (Capital intensive) ہوں گے یعنی زیادہ روزگار کی تخلیق کے امکانات بہت کم ہیں۔ زیادہ تر ملازمتیں ادنیٰ درجے کی عارضی لیبر اور کم سے کم اجرت پر مبنی ہوں گی‘ جن میں کوئی اضافی مراعات شامل نہیں۔ ماضی کے دعووںسے بھی اس کے عوام کی پس ماندگی میں اضافہ ہی ہوا۔ قدرتی گیس 1950ء کی دہائی میں بلوچستان کے علاقے سوئی میں دریافت ہوئی جو پاکستان کی توانائی کی ایک تہائی ضروریات پوری کرتی ہے لیکن بلوچستان کے وسیع علاقے آج بھی اس سہولت سے محروم ہیں۔ پہلے بھی سامراجی اجارہ داریاں بلوچستان میں معدنیات کی لوٹ ما ر کر رہی تھیں۔ دریافت شدہ پچاس معدنیات میں سے 39کی بلوچستان میں مائننگ ہو رہی ہے۔
اگر بلوچستان پاکستان کا سب سے غریب صوبہ ہے تو چاغی بلوچستان کا سب سے غریب ضلع ہے‘ جہاں سینڈک اور ریکو ڈک میں سب سے قیمتی معدنیات کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ 1961ء میں جیالوجیکل سروے آف پاکستان نے سینڈک میں کاپر کے ذخائر دریافت کیے۔ 1990ء کی دہائی میں ایک چینی فرم کے ساتھ یہاں کان کنی کا آغاز ہوا۔ اس دور میں کاپر کی زیادہ قیمت کی وجہ سے پیداوار میں اضافہ کیا گیا‘ نتیجتاً صرف پندرہ سالوں میں ہی سارے ذخائر کا صفایا کردیا گیا۔
ماہرین ارضیات کے مطابق ریکوڈک ، جو ضلع چاغی میں واقع ہے، میں سینڈک کی نسبت 11گنا زیادہ ذخائر پائے جاتے ہیں۔ ریکوڈک میں تقریباً 16ملین ٹن خالص کاپر اور 21ملین اونس سونا پایا جاتا ہے۔ گوادر پورٹ، مکران کوسٹل ہائی وے اور دوسرے منصوبوں کے ذریعے بلوچستان سے تقریباً 1.5 ٹریلین ڈالر کی معدنیات نکالنے کا منصوبہ ہے۔ ان منصوبوں نے ان سامراجی بھتہ خوروں اور مقامی حصہ داروں کے درمیان گریٹ گیم کو شدید تر کردیا ہے۔ دوسری طرف عوام کو وحشتوں، سماجی اور معاشی استحصال کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
سیاسی پارٹیوں اور وفاقی حکمرانوں کے درمیان تازہ چپقلش درحقیقت بلوچستان کے عوام کی حالت زار کے لیے نہیں‘ بلکہ مختلف دھڑوں کے سرمایہ داروں اور سامراجی اجارہ داریوں کی ملکیتوں کے حوالے سے ہے‘جو سیاسی رہنمائوں کو زیادہ سے زیادہ کمیشن دینے کا وعدہ کرتے ہیں۔ امریکہ سے لے کر یورپ اور بھارت سے لے کر چین اور مشرق وسطیٰ تک‘ سب اپنی بالا دستی، سٹریٹیجک اور مالیاتی مفادات کے لیے یہاں مداخلت کررہے ہیں‘جس کی وجہ سے یہاں مختلف سیاسی اور پرتشدد پراکسیاں ہیں۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے 2016ء کے بلوچستان کے حوالے سے بیانات یہاں کے نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں کے لیے زہرقاتل ہیں‘ جو اپنے قومی اور سماجی و معاشی حقوق کے لیے جدوجہد میں مصروف ہیں۔ دہشت گردی کا ابھار یہاں کی ثقافتی اور تاریخی و سماجی روایات سے بالکل بیگانہ مظہر ہے۔ دہشت گرد تنظیمیں یہاں وحشت پھیلا رہی ہیں اور ہزارہ کمیونٹی کا خون بہا رہی ہیں۔ علاقائی مذہبی طاقتوں اور ان کے ایجنٹوں کو حکمران طبقات کی بالواسطہ حمایت حاصل ہے۔
جس علاقے کو بلوچ قوم پرست یہاں کی تاریخی بلوچ قومی ریاست کہتے ہیں‘ وہ 1638ء میں قائم کی گئی ریاست قلات ہے۔ برطانوی سامراج یہاں 1830ء کی دہائی میں پہنچا اور اس نے 1839ء سے 1847ء تک بلوچ قبائل کے ساتھ شدید جنگیں لڑیں۔ 1876ء میں برطانوی سرحدی افسر سر رابرٹ سنڈیمن اور خان کے معاہدے سے قلات اور اس کے ماتحت علاقے برطانوی تسلط میں آگئے۔ 47ء کے بٹوارے میں نوابی ریاستوںکو بھارت یا پاکستان میں شامل کر دیا گیا۔
حکمران طبقات اپنی رجعتی اور بوسیدہ سرمایہ دارانہ حکمرانی میں ایک یکجا قومی ریاست بنانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ نہ صرف غربت اور طبقاتی تفریق اور استحصال میں اضافہ ہوا بلکہ یہ نظام مختلف قومیتوںکو مساوی انداز میں ترقی دینے میں بھی ناکام ہو چکا ہے۔ بڑھتے ہوئے بحران سے قومی اور طبقاتی جبر مزید پیچیدہ اور تکلیف دہ بن گیا ہے‘ جس نے نوجوانوں میں غم و غصے اور بغاوت کو جنم دیا جو بلوچستان میں سیاسی اور مسلح جدوجہد میں پیش پیش رہے ہیں۔
پچھلی سات دہائیوں میں یہ پانچویں سرکشی ہے۔ 1940ء اور 1950ء کے اواخر میں مسلح جدوجہد کوکچل دیا گیا‘تاہم 1974ء سے 1977ء تک کی مسلح جدوجہد سب سے شدید تھی۔ اس جدوجہد کا ایک ترقی پسندانہ کردار تھا‘ اور شیر محمد مری المعروف جنرل شیروف جیسے اس جدوجہد کے لیڈر ایک سوشلسٹ بلوچستان بنانے کی بات کرتے تھے جو پورے خطے میں ایک انقلابی تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتا تھا۔لیکن سوویت یونین کے انہدام اور چین کی سرمایہ دارانہ بحالی کے بعد قومی تحریک کے زیادہ تر رہنمائوں نے تنگ نظر بورژوا قوم پرستی کے نظریے کو اپنا لیا۔
بلوچستان کے عوام قومی جبر اور طبقاتی استحصال سے نجات اسی وقت حاصل کرسکتے ہیں‘ جب اس خطے کے تمام تر وسائل عوامی ملکیت میں ہوں گے۔ یہ چیز اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ خطے کے وسائل اور ذرائع پیداوار محنت کشوں کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں ہوں۔ آخری تجزیے میں قومی آزادی کی جدوجہد طبقاتی جدوجہد کی فتح کے ساتھ جڑی ہوئی ہے جو پورے سماجی‘ معاشی اور سیاسی نظام کو نجی ملکیت سے سماج کی اجتماعی ملکیت اور منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت میں تبدیل کر دے گی۔