"DLK" (space) message & send to 7575

ڈیووس یاترا

شاید کچھ لوگوں کے لیے 18 جنوری کی یہ خبراچنبھے کی بات ہوکہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو سوئٹزرلینڈ کے شہرڈیووس میں ہونے والی ''سربراہان‘‘ کی میٹنگ میں شرکت کے لیے جارہے ہیں۔پچھلی پانچ دہائیوں سے سوئٹزرلینڈ کے برف پوش پہاڑوں کے اس مخصوص مقامِ سیاحت اور راحت پرہرسال جنوری میںاس ورلڈ اکنامک فورم (WEF)کا انعقاد ہوتا آیا ہے۔ اور شاید ہی کوئی ایسی پاکستانی یا بین الاقوامی حکومتی یا کلیدی سیاسی و کاروباری شخصیت ہو جس نے اس میںشرکت نہ کی ہو۔ 2018ء کی اس چار روزہ میٹنگ میں کئی سیشن ہوں گے جن میں دنیا کی موجودہ صورتحال اور موجودہ نظام کو عالمی و مقامی، معاشی و سکیورٹی اوردوسرے لاحق خطرات پر تفصیلی بحث کی جائے گی اور لائحہ عمل استوار ہوںگے۔ اس سال اس کا موضوع''ٹوٹتی دنیا میں مشترکہ مستقبل کی تخلیق‘‘ (Creating a shared future in the fractured world) ہے۔ اس میٹنگ کی افتتاحی تقریر بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی ہوگی جبکہ اختتامی خطاب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ہو گا۔ 
ورلڈ اکنامک فورم سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں رجسٹرڈ ایک غیر سرکاری ادارہ ہے۔ اس کے منشور کے مطابق ''اس کا حتمی مقصد عالمی کاروبار میں تعاون اور سیاسی، صحافتی، تدریسی، صنعتی اور دوسر ے شعبوں کے عالی مرتبت قائدین کے ذریعے لائحہ عمل استوار کروانا ہے‘‘۔ ہر سال اس کی میٹنگ میں2,500 کے قریب ایسے ''قائدین‘‘ شرکت کرتے ہیں‘دنیا بھر میں جن کی فائونڈیشنز ،این جی اوز اور دوسرے غیر سرکاری ادارے رجسٹرڈ ہیں لیکن دنیا کے طاقتور اور امیرترین حکمرانوں،بزنس مینوں ، سرمایہ داروں اور ان کے حواری دانشوروں اور ماہرین کی اس ادارے کی اس میٹنگ میں شرکت حیران کن بات ہے۔ سامراجی حکمرانوں اور ان کے گماشتوں سمیت اجارہ داریوں کے سربراہان بھی اس میں شرکت کر رہے ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں G7 ، ورلڈ بینک، عالمی تجارتی تنظیم ( WTO )، آئی ایم ایف اور اس فورم جیسے عالمی سرمایہ دارانہ اداروں کے خلاف تحریکیں ابھرنا شروع ہوئی تھیں۔ ویسے یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ آج تک ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے طاقتور سامراجی اداروں کے اجلاسوں میں بھی اتنے سامراجی حکمران اور ان کے گماشتے اکٹھے نہیں ہوئے۔
لیکن ورلڈ اکنامک فورم اس طرح ان سے مختلف ہے کہ یہ بڑی ہی منافقت اور منجھے ہوئے انداز میںسرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ اور منڈیوں کے پھیلائو کے لئے ان ''قائدین‘‘ میں باہمی اتفاق رائے اور صلح کروانے کا فورم بن گیا ہے۔ اس میں منڈیوں اور اجارہ داریوں کے فروغ کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ عوام کو دھوکہ دے کر محنت کشوں کے استحصال سے زیادہ سے زیادہ منافع خوری کیسے کی جاسکتی ہے۔ آمریتوں کے جبر سے لے کر جمہوریت کے فریب تک کے ذریعے عوام کو اس منڈی کی معیشت کا ملغوبہ بنانے کے طریقے اور وارداتیں اب کچھ پرانی ہو چکی ہیں اور دنیا بھر میں عوام اس مالیاتی جمہوریت کے فریب کو سمجھ بھی رہے ہیں اور مسترد بھی کررہے ہیں۔ 1971ء میں اس فورم کا آغاز ہوا تھا‘ جس میں کچھ مذہبی اداروں نے بھی معاونت کی تھی جن میں سرفہرست سوئٹزرلینڈ کے گرجوں کی فیڈریشن تھی۔ اس فیڈریشن کے اپنے وسیع تر کاروبار ہیں اور بڑی اجارہ داریوں میںاس کے حصص پائے جاتے ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے کینیڈی سکول کی ایک تحقیق کے مطابق اس فورم کے''سٹریٹیجک پارٹنرز‘‘ جو اس پُرتعیش اکٹھ پر بے بہادولت لٹاتے ہیں ‘کو سنگین جرائم،انسانی حقوق کی پامالی اور دوسرے مقدمات میں ملوث پایا گیا ہے۔ اس ادارے کے بارے میں عالمی سرمایہ داری کے سفاک مفکر' سیموئل ہنٹنگٹن‘نے جو ش جذبات سے لکھتے ہوئے 2004ء میں خود یہ اعتراف کیا تھا کہ ''یہاں اشرافیہ کے جو افراد شریک ہوتے ہیں ان کی کوئی خاص قومی وفاداری نہیں ہوتی اور یہ عالمی اشرافیہ کی دنیا بھر میں جاری کارروائیوں کو تقویت دینے کیلئے قومی حکومتوں کو استعمال کرنے کے عوض بہت سے مفادات حاصل کرتے ہیں‘‘۔ پچھلے سال اس میں کلیدی مقرر چین کے صدر 'شی چن پنگ‘ تھے۔ طاقت اور سیاست کے دولت کی لونڈی ہونے کا یہ ادارہ سب سے بڑا ثبوت
ہے۔ یہاں سب اپنی اپنی واردات پہ آتے ہیں۔ اجارہ داریاں اپنے سامراجی مقاصد کے لئے ان ریاستوںکے حکمرانوں سے ان کی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے کی واردات کرتی ہیں۔ نجکاری کے ذریعے سرکاری املاک اور قیمتی اداروں کو کوڑیوں کے بھائوبیچا اور خریدا جا تا ہے۔ دنیا بھر کے مفکروں اور تجزیہ کاروں کو رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے بلایا جاتا ہے جہاں ان کا سواگت مال ودولت سے کیا جاتا ہے اور کارپوریٹ میڈیا ان پالیسیوں کے پھیلائو کے ذریعے اس فورم سے بھاری رقوم اینٹھتا ہے۔
یہاں آکر دانش،اخلاقیات، سماجی اقدار، سیاست اور معاشرت کے ان داتا سب ایک ہوجاتے ہیں۔ یہ حکمران دولت اور اقتدار کے حصول اور پھیلاؤکے لئے جو قومی دشمنیاں،مذہبی منافرتیں، لسانی اور فرقہ وارانہ تعصبات اور تضادات ابھارتے ہیں‘ یہاں مالیاتی سرمائے کا ہولناک پنجہ ان دھوکہ دہیوں کے نقاب نوچ کر اتار پھینکتا ہے۔ ان دولت کے پجاری سیاست دانوں اور مفکروں کے درمیان تنازعات یہاں آکر دم توڑ جاتے ہیں۔ چونکہ یہ اسی نظام زر کے نمائندے بھی ہیں تابع بھی ‘اس لیے یہاںان کو اپنی طبقاتی یکجہتی کے درس ملتے ہیں اور اس طبقاتی حاکمیت کے لئے جدید تحقیق کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ محنت کش عوام کو دبانے کے لئے سامراجی ماہرین کی نئی سے نئی ایجادات پر طویل سیشن ہوتے ہیں جہاں ان کی تعلیم وتربیت ہوتی ہے۔ اور جب ان کا نظام تاریخی بحران اور شدید تنزلی کا شکار ہو توپھر اس طبقاتی جنگ میں ان کو جبر سے لے کر عیارانہ ہمدردیوں اور عوام کوماضی کے تعصبات میں الجھا کر ان کی یکجہتی اور طبقاتی کشمکش میں پھوٹ ڈالنے کی نئی نئی تھیوریو ں پر ان کی تربیت کی جاتی ہے۔ نفرتوں او ر دشمنیوں کے نئے انداز اور زیادہ زہریلے طریقہ ہائے واردات سکھائے جاتے ہیں۔ جنگوں کو براہ راست قومی تصادموں میں بدل کر پراکسی مہمات کے درس دیے جاتے ہیں اور ان کی تباہ کاریوں کے لئے اسلحہ ساز کمیٹیوں کے ماہرین سیاست اور معاشرت کو واضح کرنے کے لئے نئے نسخے پیش کرتے ہیں‘ کیونکہ جنگوں سے ان کے منافع وابستہ ہیں۔ زخمیوں کے لئے درکار ادویات کی فارما سیوٹیکل صنعتی اجارہ داریوں کے کاروبار رواں دواں ہوتے ہیں۔ ان تباہ کاریوں کی بحالی کے لئے تعمیراتی صنعتوں کی منافع خوری بڑھتی ہے۔ لیکن جنگ اور امن کے ان کھلواڑوں میں لاکھوں غریب مارے جاتے ہیں۔ مہنگائی اور محرومی ‘زندگی کو عذاب مسلسل بنا دیتی ہے ۔ ڈیووس کی تراکیب توکامیاب ہوجاتی ہیں لیکن لاکھوں مرکر کبھی واپس نہیںآتے۔ داخلی جبر سے مزدوروں کی ہڑتالوں کو کچلا جاتا ہے۔ مذاکرات کے نئے نئے فنون سکھائے جاتے ہیں جن سے لیبر لیڈروں اور عوامی تحریکوں کے ہزاروں قائدین کو خریدا جاسکے ،توڑا جاسکے یا پھر جھکایا جاسکے اور ان کواس نظام زر کے منافعوں کا حصہ دار اور سرمایہ داری کا مطیع کیا جاسکے۔ 
پاکستان اور ہندوستان کا شاید ہی کوئی وزیر اعظم یا سربراہِ حکومت ہو جس نے اعلیٰ شخصیات کے اس عالمی کلب میں شرکت نہ کی ہو اور یہاں جانے کی آرزو نہ رکھتاہو۔ سیاست اور اقتدار کی آخری ڈگری بھی یہیں سے ملتی ہے۔منموہن سنگھ بھی جا تا تھا‘ مودی اس کا افتتاح کررہا ہے۔ پاکستان کا کوئی بھی بڑا لیڈر یہاں جانا اوراپنی شناخت پریہاں سے حتمی مہر ثبت کرواناضروری سمجھتا ہے۔ عمران خان بھی بڑے شوق سے جاتا رہا ہے ،بھرپور تربیت بھی حاصل کی ہے‘شاید شاہد خاقان عباسی بھی اپنے وزیر اعظم ہونے کا حتمی سرٹیفکیٹ یہیں سے لینا چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے 1967ء میں جن 22 خاندانوں کے خلاف ایک پرزور تحریک کا آغاز کیا تھا وہ تو اب تقریباً ختم ہوچکے ہیں۔ آج بلاول کا خاندان اگر پاکستان کا امیر ترین خاندان نہ ہو تو کم از کم پہلے 5 دولت مند خاندانوں میں ضرور آتاہے۔ لیکن وہ بھی شاید تمام ٹریننگ کے بعد اب آخری تربیت اور ڈگری ڈیووس سے ہی لینے جارہے ہیں۔ شاید یہی حکمرانوں کے اس اقتدار کی حتمی اجازت ہوتی ہے۔ ایسے میں کونسی جمہوریت ‘کیسے انتخابات اور کس کے عوام۔ عوام ان کو جان تو گئے ہیں دیکھئے اب کب ان کو اور ان کے نظام ز ر کو فارغ کرتے ہیں۔ شاید کچھ دیر ہو جائے لیکن اندھیر لمبا چل نہیں سکتا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں